تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     17-11-2021

بات یہاں تک آن پہنچی ہے

اے خدائے ارض و سما! اے خالق و مالک! دلوں کا حال اور سبھی بھید تجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ ہر نیا سورج ملک و قوم کے صدمات اور مزید وسوسوں میں اضافہ کرکے ڈوب جاتا ہے۔پہلی کرن سے لے کر اندھیرے کی سیاہی پھیلنے تک‘ اس مملکت میں بسنے والے کتنی بار جیتے اور کتنی بار مرتے ہیں۔لمحہ لمحہ جینے اور قطرہ قطرہ مرنے‘ریزہ ریزہ بکھرنے اور کرچی کرچی ہونے تک کیسے کیسے صدمے اعصاب و نفسیات کو تباہ و برباد کیے چلے جارہے ہیں۔ پون صدی بیت چکی‘کہیں طرزِ ِحکمرانی کے صدمات ہیں تو کہیں من مانی کے نتیجے میں سانحات عوام کا مقدر بن چکے ہیں۔افراد سے لے کر اداروں تک‘ سبھی من مانی اور میں نہ مانوں کو نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔آج استاد سید عباس اطہر (شاہ جی) کے ایک کلام کایہ مصرع بے اختیار یاد آرہا ہے :
''اے ماں! تو نے ہمیں کن زمانوں اور کن زمینوں پر جنم دیا ہے‘‘۔
زمین ہو یا زمانے‘ دونوں ہی عوام کو موافق نہ آئیں اور کہیں زمین تنگ اورکہیں زمانہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہوتو جنم سے موت تک کا سفر صدمات اور سانحات میں لتھڑی ہوئی دھتکار اور پھٹکار سے شروع ہوکر ذلت اور بے بسی سے ہوتی ہوئی تہی دستی اور تہی دامانی پر ہی ختم ہوتا ہے ۔اس خطہ میں پیدا ہونے والے تو پہلا سانس لیتے ہی زندگی کی آدھی بازی ہار جاتے ہیں۔روزِ اول سے ہلکان اور بدحال عوام نے بھی کیا نصیب پایا ہے۔ان کے نصیب میں ہی کہیں مرچنٹ تو کہیں پاور گیم کے منجھے ہوئے اور کاریگر کھلاڑی حکمران ہوں توعوام کی بدنصیبی کو کون ٹال سکتا ہے۔ جس معاشرے میں ٹریفک سگنل سے لے کر قوانین اور آئین توڑنے والوں تک‘ سب خود کو ماورائے قانون اور ناقابلِ گرفت سمجھتے ہوں اور طرزِ حکمرانی ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہو‘ بندہ پروری سے لے کر کنبہ پروری تک‘ بندر بانٹ سے لے کر لوٹ مار تک‘ ساز باز سے لے خورد برد تک‘ اقربا پروری سے لے کر شکم پروری تک‘ بیان بازی سے لے کر چور بازاری اور ذخیرہ اندوی تک‘ بدلحاظی سے لے کر بہتان طرازی تک‘ بدتہذیبی سے لے کر زبان درازی تک اور ریفارمز کے نام پر ہونے والی ڈیفامز تک کس کس کا رونا روئیں۔ 74برس بیت چکے‘ رونے والوں کے آنسو روتے روتے خشک ہو چکے ہیں‘ اب یہ عالم ہے کہ ان کا چہرہ ہی رونے کی علامت بن چکا ہے۔
پون صدی ہونے کو آئی ہے‘ حکمران تو بدلتے رہے لیکن طرزِ حکمرانی نہیں بدلا‘ کوئی سیر تو کوئی سوا سیر‘ کوئی نہلا تو کوئی نہلے پہ دہلا ثابت ہوا۔ ہر آنے والا حکمران کبھی حالات کی خرابی کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو ٹھہراتا ہے تو کبھی گورننس کی آڑ میں اور میرٹ کے نام پر کیے جانے والے سارے اقدامات صرف مخالفین کو مات دینے کے اردگرد گھومتے نظر آئے۔ رنگین و سنگین یادوں سے جڑے یہ ماہ و سال یونہی آتے جاتے رہیں گے اور عوام حکمرانوں کے فیصلوں اور اقدامات کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔ آلام و مصائب میں گھرے یہ عوام روز و شب سے لے کر ماہ و سال تک حالات کا ماتم اور گریہ یونہی کرتے رہیں گے۔ تبدیلی کی آس میں بھٹکنے والے عوام بھٹکتے بھٹکتے کہاں آن پہنچے ہیں۔ یہ کیسی تبدیلی ہے جو کچھ بھی تبدیل نہ کر سکی ہے‘ وہی نظام وہی شکار‘ وہی کھیل وہی کھلاڑی‘ وہی سہانے خواب وہی بھیانک تعبیریں‘ گویا تمام عمر چلے‘ گھر نہیں آیا۔
کیسے کیسے سانحات‘ حادثات اور صدمات قوم کا مقدربنتے چلے آئے ہیں۔ جب بھی آئی‘ جہاں سے بھی آئی‘ بری خبر ہی آئی۔ ہر دور میں وطنِ عزیز کے حکمرانوں کے ذاتی رفقا اور مصاحبین جہاں اُن کے پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق بنتے رہے‘ وہاں عوام کے لیے بھی کبھی آزمائش تو کبھی مصائب کا ہی باعث بنتے رہے ہیں۔ کبھی روٹی کپڑا مکان‘ کبھی قرض اُتارو ملک سنوارو تو کبھی سب سے پہلے پاکستان‘ کبھی تبدیلی کا سونامی جیسے جھانسے اور دلاسے‘ برس ہا برس یا دہائیاں گزر جائیں‘ کتنے ہی حکمران بدل جائیں‘ کتنی ہی رُتیں اور کتنے ہی موسم بدل جائیں‘ عوام کے نصیب کبھی نہیں بدلتے۔ روزِ اول سے لمحۂ موجود تک ان کے مسائل اور مصائب جوں کے توں ہیں۔ انہیں عوام کا کوئی درد ہے نہ ہی ملک و قوم کے استحکام سے کوئی سروکار۔ دکھ ہی دکھ‘ دھوکے ہی دھوکے‘لٹنا اور مٹنا عوام کا مقدر بنتا چلا جارہا ہے۔
خوشحالی کے سنہری خواب ہوں یا اچھے دنوں کی آس‘ نہ خوابوں کو تعبیر ملتی ہے نہ آس پوری ہوتی نظر آتی ہے۔ بس یہی اتنا سا خلاصہ ہے وطنِ عزیز کی اکثریت کی زندگانی کا۔ اقلیت کے طرزِ حکمرانی کی بھینٹ چڑھنے والی یہ اکثریت نجانے کب سے سولی پر لٹک رہی ہے۔ سراب کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہلکان ہو کر بالآخر قبروں میں جا سوتے ہیں۔وژن اور دردمندی کے بغیر‘ کیسی گورننس اور کہاں کی حکمرانی۔جس طرح یہ ملک اب تک چلایا جارہا ہے اس طرح تو کوئی گورکھ دھندہ بھی نہیں چلتا لیکن چلانے والے سبھی کچھ چلا گئے۔اپنے اپنے سکے ابھی تک چلائے جارہے ہیں۔اقتدار کی شاہراہ پر اینٹی کرپشن ڈرائیو سے سٹارٹ لینے والے ہمارے وزیراعظم ابھی تک زمینی حقائق سے لاعلم ہیں یا شاید آنکھیں چرا رہے ہیں۔ ملک و قوم کی لوٹی دولت واپس لانے کے دعووں سے لے کر بہترین اقتصادی ٹیم کے ساتھ ملکی معیشت کو ماضی کے بحرانوں سے نکالنے کے وعدوں تک‘ سماجی انصاف سے لے کر کڑے احتساب کے عزائم تک‘ سبھی انتخابی نعرے اور نمائشی بیانئے ثابت ہوتے چلے جارہے ہیں اور ایسے ایسے پنڈورا باکس کھلنا شروع ہوگئے ہیں کہ پاناما لیکس کے بعد سبھی حالات سکرپٹڈ ہونے کے امکانات تقویت پکڑتے چلے جارہے ہیں۔نہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جاسکی اور نہ ہی کوئی دعویٰ اور کوئی وعدہ پورا ہو سکا۔ اقتصادی پالیسیاں پولیو زدہ ثابت ہوئیں۔معیشت کے استحکام کے دعوے ان کی نیتوں اور ارادوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔اب ایک سابق جسٹس کے الزامات نے سیاسی بساط پر نئی ہلچل مچادی ہے۔
اگر یہ حکمران اپنے دعووں اور وعدوں کا نصف بھی سچ کردکھاتے تو بخدا سابق چیف جج کے اس بیان سے نہ سیاسی بھونچال آتا اور نہ یہ ہلچل نظر آتی۔ان کی طرزِ حکمرانی اور قابلیت کی کھلتی ہوئی قلعی اس بیان کی بیساکھیاں بنتی دکھائی دیتی ہے۔ تجزیے‘ تبصرے اور قیاس آرائیوں کے ساتھ دور کی کوڑی لانے والے سبھی سیاسی پنڈت اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما فیصل واوڈا نے ایک انٹرویو میں اس منظر نامے پر جن الفاظ میں اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے وہ یہاں دہرانے کے قابل نہیں۔تحریک انصاف کے جوشیلے رہنما کا لب و لہجہ پریشان کن ہے۔یہ روایتی شعلہ بیانیاں پہلے ہی نجانے کیا کچھ خاکستر کر چکی ہیں‘ مگر بات جہاں تک آن پہنچی ہے‘اگر زبان و بیان یہی رہاتو آنے والے وقت میں افرا تفری ہی نظر آئے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved