تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     18-11-2021

’’اجتہاد‘‘… ایک مجتہدانہ کتاب

چالیس برس کے غور و فکر کا حاصل 'اجتہاد‘ کے عنوان سے میرے سامنے ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ علم و فکر کا ایسا مظہر چالیس سالہ ریاضت کے بعد ہی وجود میں آ سکتا ہے۔
سوچ بچار کے ایک مسلسل عمل کا یہ پانچواں نقش ہے۔ پہلا نقش 'کسی اور زمانے کا خواب‘ کے عنوان سے 2004ء میں سامنے آیا۔ دوسرا نقش اس کا انگریزی ترجمہ تھا جس کا پیش لفظ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے لکھا۔ اس فکری عمل کا تیسرا مظہر بھی انگریزی میں تھا: 'اسلام معاصر دنیا میں: ایک نیا بیانیہ‘ (Islam in the Contemporary World :A New Narrative)۔ یہ جنون اس کے بعد چپکے سے بیٹھ نہیں گیا۔ 'حرفِ محرمانہ: عہدِ حاضر میں فکری اجتہاد‘ اس کا چوتھا روپ تھا جو 2018ء میں ظاہر ہوا۔ پانچواں نقش 'اجتہاد‘ ہے جو اس وقت میرے پیشِ نظر ہے۔
بیرسٹر ظفراللہ خان کی یہ کتاب دوماہ پہلے شائع ہوئی۔ 'اجتہاد‘ کے موضوع پر قلم اٹھانے کے لیے وہ موزوں ترین افراد میں سے ہیں۔ انہوں نے دین کا پہلا سبق ایک مدرسے سے لیا۔ یوں بچپن ہی میں رائج دینی روایت سے ایک تعلق قائم ہو گیا۔ جدید تعلیم کا پہلا مرحلہ اس وقت تمام ہوا جب انہوں نے قائد اعظم یونیورسٹی سے امتیاز کے ساتھ ایم ایس سی (بین الاقوامی تعلقات) کی سند لی۔ اس تعلیم کا دوسرا مرحلہ تب مکمل ہوا جب وہ قانون کی اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ گئے اور لنکنز ان سے بار ایٹ لا کیا۔ اس سے پہلے سٹی یونیورسٹی لندن سے ایل ایل بی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
عملی زندگی میں قدم رکھا تو پہلے مرحلے میں ڈی ایم جی گروپ کے لیے منتخب ہوئے۔ اعلیٰ ترین انتظامی مناسب پر رہے۔ دوسرے مرحلے میں سیاست کا رخ کیا تو سیکرٹری لا ہوئے اور پھر وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف کے منصب تک پہنچے۔ اس تفصیل کا مقصد یہ بتانا تھا کہ دورِ جدید میں اجتہاد کے لیے قلم اٹھانا اسی کو زیبا ہے جو جدیدوقدیم تعلیم رکھتا ہو۔ اپنے زمانے سے واقف ہو اور جانتا ہو کہ ریاست کا نظام کیسے چلتا ہے۔ بیرسٹر صاحب اسی وجہ سے اس موضوع پر لکھنے کے لیے سب سے موزوں لوگوں میں سے ہیں۔
کتاب کا انتساب علامہ اقبال کے نام ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ یہ کتاب ان کے فکر کی روشنی میں لکھی گئی ہے۔ 'اجتہاد‘ ان کے لیے وہی مفہوم رکھتا ہے جو اقبال کے پیش نظر تھا: 'فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو‘۔ اجتہاد، ظفراللہ خان کے نزدیک محض استنباطِ احکام یا چند فقہی آرا اختیار کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ دین کی ایک نئی تعبیر ہے جو تمام شعبہ ہائے حیات کو محیط ہے۔ اہلِ اسلام کو آج اسی کی ضرورت ہے۔ ان کا خیال ہے کہ مذہب کی موجودہ غالب تعبیر مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں حائل ہے۔ اس سے نجات ہی سے اصلاحِ احوال ممکن ہے۔
بطور فیشن، اجتہادکا دعویٰ کرنے والے بہت ہیں۔ ہر مجلس میں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو روایتی دینی طبقے پر تنقید کرتے اور اجتہاد کی ضرورت پر بات کرتے پائے جاتے ہیں۔ مشاہدہ مگر یہ ہے کہ وہ روایتی تعبیر سے واقف ہوتے ہیں‘ نہ ہی اجتہاد کے مفہوم سے۔ سوال کیا جائے تو چند مبہم باتوں کے سوا، ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا۔ بیرسٹر ظفراللہ خان نے صرف دعویٰ نہیں کیا، اس کے حق میں دلائل دیے ہیں جو 562 صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔
کتاب کے پہلے حصے 'پدرم سلطان بود‘ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسلام نے کیسے اپنے اصولِ حرکت کی بنیاد پر عالمِ انسانیت کو ایک نئی تہذیب سے آشنا کیا۔ موجود علم کے مقابلے میں ایک برتر علمی روایت کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد جب مغرب میں قدیم علوم نیارنگ اپنا رہے تھے تو مسلمانوں نے غفلت کی چادر اوڑھ لی۔ اس کا نتیجہ سامنے آیا اور زمامِ کار مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی۔ آج مسلم تہذیب خطرات کی زد میں ہے۔ یہ کوئی دھماکہ نہیں جو اچانک ہوا ہو۔ یہ خدا کی اس سنت کے مطابق ہے جس کا تعلق قوموں کے عروج و زوال سے ہے اور جس کا اطلاق سب پر یکساں ہوتا ہے۔
دوسرے حصے میں 'کسی اور زمانے کا خواب‘ دیکھا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس خواب کی تعبیر کیسے ممکن ہو گی۔ مسلمانوں کو اگر نئی دنیا آباد کرنی ہے توان کی ترجیحات کیا ہوں۔ تسخیرِ کائنات سے لے کر تصورِ اخلاق تک، انہیں کس طرح کی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس میں وہ ایک کلی اجتہاد کی ضرورت کو نمایاں کرتے ہیں۔ کلی اجتہاد سے مراد نظامِ فکر کی تشکیلِ نو ہے۔ تیسراحصہ علامہ اقبال کی نظم 'از خوابِ گراں خیز‘ پر مشتمل ہے۔
علامہ اقبال نے دورِ حاضر میں سب سے پہلے فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نوکی بات کی تھی۔ ان کے خطبات اس بحث کا نقشِ اوّل ہیں۔ اقبال کلی اجتہاد کی بات کرتے اور دنیا کے لیے ایک نئے نظامِ فکر کی دعوت دیتے ہیں، ان کے نزدیک، جس کی تین اساسات ہیں: کائنات کی روحانی تعبیر، انسان کی آزادی اور عالم گیر اصولوں پر اتفاق۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ظفراللہ خان نے ان تین اساسات کو کھول کر بیان کر دیا اور یہ بتایا ہے کہ ان کے فہم کے مطابق، اگر ان اصولوں کا اطلاق کیا جائے تو مختلف شعبہ ہائے حیات میں کن اصلاحات کی ضرورت ہو گی۔
اقبال کے متعین کردہ راستوں پر چلنے کی یہ پہلی مرتب اور ہمہ گیر کوشش ہے۔ شارحینِ اقبال نے، اس میں شبہ نہیں کہ اقبال کے تصورات کی تفہیم میں بہت قابلِ قدر کام کیا لیکن فکرِ اقبال کے اطلاقی پہلو پر اس سے پہلے جزوی کام ہی ہو سکا۔ یہ کتاب شرح و بسط کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ جب فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو ہو گی تو اس کے بعد مسلمانوں کی سیاست، تعلیم، معاشرت اور تصورِ حیات کن خطوط پر استوار ہوں گے۔ عورت کا سماجی و سیاسی کردار بدل جائے گا۔ ریاست اقلیت و اکثریت کے مروجہ تصورات سے بلند ہو جائے گی۔ جہاد و اجتہاد کے تصورات تبدیل ہو جائیں گے۔
ظفراللہ خان صاحب نے اپنی مقاصدِ حیات میں جن کاموں کو شامل کیا، ان میں احسان و تصوف کی روایت کا احیا اور تجدید بھی شامل ہے۔ ان کا مقدمہ یہ ہے کہ تصوف کے صدرِ اوّل کا اگر احیا ہو تو مسلم سماج ان روحانی اور اخلاقی خرابیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ تصوف اپنے جوہر میں مطلوب ہے اور اس روایت کو زندہ کرنا چاہیے۔ اس کے لیے انہوں نے تصوف کے فکری احیا کا کام شروع کردیا ہے۔ وہ 'کتاب الذہد‘ اور 'مقامات‘ جیسی کتابیں لکھ چکے جو زہد اور دیگر ایسے تصورات کو ایک نئے زاویے سے بیان کرتی ہیں۔ دوسرے مرحلے میں وہ خانقاہ کے ادارے کو بھی زندہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا آغاز بھی ہو چکا۔
اس میں شبہ نہیں کہ کرنے کے یہی دو کام ہیں۔ فکر کی اصلاح اور اخلاق کی اصلاح۔ ظفراللہ خان نے اس کے لیے قدم اٹھایا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے خطبات کے مقدمے میں لکھا تھا کہ فلسفیانہ غور و فکر میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ یہ بات ہر انسانی کام پر صادق آتی ہے۔بیرسٹر ظفراللہ خان کی کتاب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تاہم، میرا احساس ہے کہ فکرِ اسلامی کا کوئی طالب علم اس سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved