تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     18-11-2021

جو بہہ رہی ہے تہ آب روشنی وہی ہے

کسی اجنبی ساحل پر اجنبی لوگوں سے اجنبی زبان میں معاملات طے کرنا مشکل کام ہے۔ اگر یقین نہ ہو تو بودرم کے ساحل پر میرینا کے ان کشتی بانوں سے بات کرکے دیکھیں جو سیاحوں کو گھمانے پھرانے کے لیے ٹورز کا انتظام کرتے ہیں۔ اس دن جب صبح نو بجے کے قریب میں ان کشتی بانوں سے مذاکرات کررہا تھا تو فریقین ایک دوسرے کی بات سمجھنے کے لیے زبان سے زیادہ حواس خمسہ سے کام لے رہے تھے۔ بڑا مسئلہ ہے زبان کا۔ سیاحتی مقامات پر بھی انگریزی جملے اکثر ترکوں کے سر سے اس طرح گزرتے ہیں جیسے سمندری بگلے اس دن ہمارے اوپر سے گزر رہے تھے۔ اس کی ایک وجہ تو میں یہ سمجھا ہوں کہ ترکی میں بہت بڑی تعداد روسی اور سابقہ روسی ریاستوں کے سیاحوں کی ہوتی ہے۔ اس لیے انہیں انگریزی سے کوئی سروکار نہیں۔ روس اور وسط ایشیائی سیاحوں کو ترکی قریب اور سستا پڑتا ہے چنانچہ وہ بڑی تعداد میں ترکی کا رخ کرتے ہیں۔باقی رہے یورپی یا امریکی سیاح، جن کے لیے انگریزی بہت ضروری ہے، تو ان کی تعداد کم ہے۔ دوسرے یہ کہ ترکوں کو کسی بدیسی زبان کی ایسی مرعوبیت نہیں ہے کہ وہ اس کے لیے بہت کوششیں کریں۔ گزارے کا کام چلتا ہے تو بس ٹھیک ہے‘ اور گزارے کا کام کسی طرح چل ہی جاتا ہے۔
کشتی بان کا جو مؤقف مجھے سمجھ آیا، یہ تھا کہ اس سے بہتر کشتی اور ٹور پورے بودرم میں مجھے نہیں ملے گا۔ صبح سے شام تک آٹھ گھنٹے کی سیر، چھ جزیروں کی سیر، دوپہر کا لذیذ کھانا اور آرام دہ سفر۔ اس کا اصرار تھاکہ یہ پیشکش مجھے فوراً قبول کرلینی چاہیے کیونکہ اس سے زیادہ کرم مجھ پر کوئی اور نہیں کر سکتا۔ وہ حیران تھا کہ مجھے اس میں تردد کیا ہے؟ اور کیا چاہیے اس اجنبی دیار میں؟ میں اس کی ان تمام باتوں سے بنا پرکھے متفق تھا، اصل مسئلہ یہ تھا کہ میرے لیے جو وہ یہ ساری مہربانیاں کر رہا ہے، اس کے عوض اسے کتنے لیرا درکار ہیں اور کس وقت؟ کس وقت کا تعین تو اس نے اسی وقت کردیا۔ ابھی، اسی وقت اور پوری رقم۔ مذاکرات کے بعد 120 لیرا میں معاملہ طے ہوگیا یعنی پاکستانی حساب سے کوئی ڈھائی ہزار روپے میں۔ میں نے رقم ادا کی اور اپنا مختصر سا سامان لے کر کشتی کی اوپری منزل پر چڑھ گیا جو کھلے آسمان تلے تھی اور چاروں طرف کا منظر آنکھوں تک پہنچنے میں رکاوٹ کوئی نہیں تھی۔ اوپری عرشے پر پہنچ کر چاروں طرف دیکھا۔ یہاں فرشی نشستوں پر گدّے، گدّیوں کا انتظام تھا۔ چاہے بیٹھ جائیں، چاہے دھوپ سینکنے کے لیے لیٹے رہیں۔ پندرہ بیس گورے اور گوریاں پہلے ہی یہاں بیٹھے اور لیٹے ہوئے تھے اور خواتین و حضرات! یہ وہ نسل ہے جسے پانی سے بنیادی رغبت یا نہانے اور غوطے لگانے کے لیے ہے، یا واٹر سپورٹس مثلاً سنورکلنگ اور سکوبا ڈائیونگ وغیرہ کے لیے، اور یا پھر اس کے کنارے غسل آفتابی کے لیے۔ جزیروں کی سیر کا مطلب ان کے نزدیک ہر جگہ غسل تھا اور شفاف پانیوں میں تیراکی۔ اس سے زیادہ کسی جزیرے سے انہیں واسطہ مطلب نہیں تھا چنانچہ کشتی پر موجود تمام مرد و زن غسل اور غسل آفتابی کے تمام انتظامات کرکے آئے ہوئے تھے۔ کشتی کے باہر نیلے سمندر اور اس میں پڑتی شعاعوں سے پانی کے بدلتے رنگ مبہوت کن تھے، لیکن کشتی کے اندر کے مناظر تو ہوش اڑا دینے والے تھے۔
ابھی کشتی کی روانگی میں کچھ دیر تھی۔ کشتی کے اندر نظریں جمانے کی کافی جگہیں تھیں لیکن افسوس کہ نظریں چرانا پڑتی تھیں۔ دس پندرہ منٹ میں باتوں سے اندازہ ہوگیا کہ یہ جو جسیم نوجوان کشتی کے درمیان میں سوئمنگ کاسٹیوم پہنے لیٹا ہوا ہے اور اس کی نازک اندام بیوی ساتھ بیٹھی ہے، وہ آذربائیجان سے ہے۔ ذرا دور جو دو مرد کاسٹیوم پہنے سرخ جسم دھوپ میں نہلا رہے ہیں، دوست اور ترک ہیں۔ ادھیڑ عمر مردوں اور عورتوں پر مشتمل آٹھ دس لوگ جومیرے بائیں ہاتھ ریلنگ کے ساتھ ساتھ براجمان ہیں، ایک ترک فیملی گروپ ہے‘ اور میرے بالکل قریب جو بوڑھا سا جوڑا لیٹا ہوا ہے، کافی زندہ دل یورپی ہیں۔ چند منٹ گزرے ہوں گے کہ ایک نوجوان جوڑا سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آیا اور میرے دائیں ہاتھ بیٹھ گیا۔ یہ ازبکستان کا نوبیاہتا جوڑا پیارا نوجوان رستم اور اس کی خوبصورت بیوی تھے۔ وہ ہنی مون کے لیے ترکی آئے ہوئے تھے۔ کشتی روانہ ہونے تک ہم ایک دوسرے سے متعارف بھی ہوچکے تھے اور تبادلۂ معلومات بھی کرچکے تھے۔ ہم باتوں میں مگن تھے کہ کانوں میں گونجتی، شور مچاتی خنک ہوا نے احساس دلا دیا کہ ہم سمندر میں ساحل سے کافی دور پہنچ چکے ہیں۔
ہم نے کھڑے ہوکر چاروں طرف سمندر اور ساحلوں کو دیکھا۔ چاروں اَور ہلکے نیلے، فیروزی، زمردی اور گہرے لاجوردی رنگوں کی سیج سجی ہوئی تھی۔ دور جزیروں کی کاہی اور سبز رنگ پہاڑیاں ہمیں اشارے سے بلاتی تھیں۔ سورج اب بلند ہوکر کرنوں کے زاویے بدل چکا تھا اور پانی میں دھوپ کے پھول نہا رہے تھے۔ تیز اور قدرے سرد ہوا جسم میں گدگدیاں کرکے گزرتی تھی اور کشتی کے کنارے لگا ہوا ترکی کا جھنڈا مسلسل پھڑپھڑاتا تھا۔ سب سیاح تفریحی سفر پر تھے اس لیے سب خوش اور مطمئن تھے۔ اس لمحۂ موجود میں اس چمکیلے دن میں کسی کو کوئی فکر نہیں تھی اور آئندہ آٹھ گھنٹوں میں اس دن کے پھل سے جو رس کشید کیا جاسکتا تھا، وہ قطرہ قطرہ ٹپکنا شروع ہوچکا تھا۔ ابھی کشتی آدھ گھنٹہ چلی ہوگی کہ پہلا پڑاؤ آگیا۔ موٹر بوٹ پہلے آہستہ ہوئی اور پھر ایک جزیرے کے ساحل پر لنگر انداز ہوگئی۔ یہ ایک لیگون (Lagoon) تھا۔ لیگون کا اردو ترجمہ کیا کیا جائے؟ جھیل؟ ساحلی جھیل؟ ساحلی تالاب؟ لیکن ان ترجموں سے دل مطمئن نہیں ہوسکتا۔ کیا خیال ہے! اس لفظ کو اس کے حال پر چھوڑ کرصرف اس کی تشریح نہ کردی جائے؟ لیگون سمندری پانی کا وہ حصہ ہے جو خشکی کے ابھرے ہوئے زیر آب ٹکڑوں، چٹانوں یا ساحلی ساخت کے باعث اصل سمندر سے الگ بھی ہو اور قدرے متصل بھی۔ لیگون کم گہرا ہوتا ہے۔ نہایت شفاف پانی کی جھیل جس میں تہ کی نقرئی ریت تک روشنی پہنچتی ہے اور نظریں بھی۔ مچھلیاں بھی تیرتی نظر آتی ہیں اور تہ میں سفید ریت پر سیپیاں اور پتھر بھی پڑے نظر آتے ہیں لیگون کے بیچ پہنچو تو چمکدار سبز پانی آپ کو گھیر لیتا ہے، ذرا فاصلے پر ہلکا نیلا اور کچھ اور فاصلے پر گہرا نیلا۔ جزیروں کے اطراف بہت سی جگہ لیگون ہوتے ہیں اور ان کی خوبصورتیاں جدا جدا ہیں۔
حسین امریکی اداکارہ بروک شیلڈ کی فلم دی بلیو لیگون (The blue lagoon) بہت پہلے دیکھی تھی لیکن اس کے بعد دنیا کے سفر میں بہت سی جگہ لیگونز دیکھنے کا موقع ملا اور بودرم کا یہ لیگون جسے کشتی بان ایکوریم کے نام سے یاد کر رہا تھا، ایسا ہی ایک حسین لیگون تھا۔ شفاف سبز پانی سب کو اپنی طرف بلا رہا تھا۔ انکار کا نہ موقع تھا، نہ صبر کی تاب، سو نیم خنک شفاف پانی میں پہلے غوطے نے دل میں وہ ٹھنڈک بھردی جو ایسا ہی کوئی لیگون بھرسکتا تھا۔ اس دن میں موٹر بوٹ کے اطراف سبز پانیوں میں تیرتا تھا اور ہوا میرے بہت پہلے کہے ہوئے شعروں کی سرگوشیاں کرتی تھی
وہی ہے سبز سمندر میں نقرئی مٹی
جو بہہ رہی ہے تہ آب روشنی وہی ہے
وہی ہے شوخ ہوا سیٹیاں بجاتی ہوئی
سفید ریت پہ لہروں کی سمفنی وہی ہے
ہوا سے رستی ہوئی بھیگے جسم کی خوشبو
میں جانتا ہوں یہ مانوس اجنبی وہی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved