تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     18-11-2021

امریکا کے بارے میں چند مغالطے

ویسے تو امریکا ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں صفِ اول پر نظر آتا ہے لیکن جس طرح بچوں اور خواتین کے استحصال‘ اسلحہ کلچر‘ تشدد‘ نسلی تعصب‘ موٹاپے اور خاندانی نظام کے بگاڑ جیسے مسائل امریکا میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں‘ اصل صورتحال قدرے مختلف ہے۔ امریکا میں والدین بچوں کو مارتے ہیں تو پولیس انہیں گرفتار کر لیتی ہے اور بچوں کو پروٹیکشن ہوم بھجوا دیتی ہے۔ امریکا میں بچوں کے تحفظ کیلئے قوانین موجود ہیں۔ اس کے باوجود بچے روز بروز تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں۔ امریکن سول لبرٹیز یونین کی رپورٹ میں اس حوالے سے ہوش اڑا دینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ انہیں پڑھ کر یہ لگتا ہی نہیں کہ یہ سب امریکا کے بارے میں لکھا گیا ہے‘ جسے بہت ترقی یافتہ اور مہذب ملک سمجھا جاتا ہے۔ وہاں ہر چند منٹ بعد عورت ریپ‘ تشدد اور طلاق کا شکار ہو رہی ہے اور بچے جرائم‘ نسلی امتیاز اور والدین کے جھگڑوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق آج بھی امریکا کی کچھ ریاستوں میں 10 سے 15 فیصد بچوں کے پاس ہیلتھ انشورنس نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ علاج معالجے کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ امریکی بچوں میں موٹاپے کو ''وبا‘‘ سمجھا جاتا ہے اور تقریباً دو کروڑ امریکی بچے موٹاپے کا شکار ہیں۔ دوسری جانب سوا کروڑ امریکی بچے ایسے ہیں جو خوراک کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ یہ کھلا تضاد بھی امریکا میں ہی ہے کہ کچھ بچے بھوکے اور کچھ ضرورت سے زیادہ کھاتے ہیں۔ امریکا میں گزشتہ نصف صدی کے دوران چھ لاکھ بچے بدسلوکی کا شکار ہو کر فوت ہوئے۔ ہر سال تقریباً دو ہزار امریکی بچے بدسلوکی یا سماج میں نظر انداز ہونے کے باعث مر جاتے ہیں۔ جرائم امریکا میں ہر سطح پر موجود ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس ملک میں قید کی شرح ترکمانستان سے بھی زیادہ ہے۔ تقریباً بیس لاکھ بچوں کے والدین جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور اس کے اثرات ان بچوں کی بہبود‘ صحت‘ تعلیم اور بعد کی زندگی پر بری طرح مرتب ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ''والد کی قید میں اضافے سے گھر میں مالیاتی مسائل بڑھ جاتے ہیں اور ماؤں پر اضافی دباؤ آ جاتا ہے۔ بالخصوص سیاہ فام بچوں میں بے گھر ہونے کی شرح بڑھ جاتی ہے‘‘۔ نیز کہا ''جب ایک ماں کو قید کیا جاتا ہے، تو اس کے بچے اپنے خاندان سے الگ ہو جاتے ہیں اور یوں ان کی زندگی کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ ماں یا باپ میں سے کوئی ایک‘ اگر جیل سے واپس آ بھی جاتا ہے تب بھی گرفتاری کا بدنما داغ رہائی کے بعد بھی لگا رہتا ہے چاہے انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا ہی کیوں نہ ملی ہو۔ اس سے ان کے ملازمت کے حصول پر منفی اثر پڑتا ہے کیونکہ ریکارڈ میں سب کچھ آن لائن ہمیشہ محفوظ رہتا ہے‘‘۔
اسلحے کے بے دریغ استعمال کا رجحان بھی امریکا میں بے قابو ہو رہا ہے۔ امریکا میں اسلحہ عوام کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ ہر ایک سو گھروں میں ایک سو بیس بندوقیں یا دیگر اسلحہ موجود ہوتا ہے۔ ہر دوسرے ہفتے ایسا واقعہ پیش آتا ہے کہ جس میں کوئی امریکی دس بارہ لوگوں کو مار کر خودکشی کر لیتا ہے۔ نائٹ کلبوں اور تعلیمی اداروں میں فائرنگ معمول بن چکی ہے۔ دیگر امیر ممالک کے مقابلے میں امریکا میں نوعمر لڑکوں کا اپنے ہم عمروں کی بندوق سے قتل ہو کر مرنے کا امکان 82 گنا زیادہ ہے۔
امریکا میں جرائم کے مرتکب بچوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ ریاست اپنے تئیں ان کی بحالی کا دعویٰ کرتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سلاخوں کے پیچھے جانے والے نابالغوں کی تعداد میں امریکا سرفہرست ہے۔ امریکن سول لبرٹیز یونین کی عہدیدار سارہ مہتا لکھتی ہیں ''ملک بھر کی ریاستیں فوجداری انصاف کے نظام میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بھی بالغوں کی طرح برتاؤ کرتی ہیں‘‘۔ کسی بچے کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے حوالے سے چودہ ریاستوں میں کم از کم عمر کوئی نہیں ہے اور چھوٹے بچوں کو بھی بطور بالغ سزا دی جا سکتی ہے۔ بعض صورتوں میں‘ آٹھ سال سے کم عمر کے بچوں پر بڑوں کی طرح جرم کرنے کا مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ بالغوں کی جیلوں میں قید بچے اس سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال میں ہیں۔ وہ ایک خطرناک ماحول میں پرورش پانے پر مجبور ہیں جہاں ان کے جنسی استحصال اور خودکشی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے‘‘۔
امریکا واحد ملک ہے جس نے اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے کنونشن کی توثیق نہیں کی۔ اسی طرح امریکا میں سیاہ فام خواتین میں پیدائش کے وقت یا پیدائش کے فوراً بعد مرنے کا امکان سفید فام عورتوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ امریکا میںسیاہ فام خواتین میں دورانِ زچگی مرنے کی شرح اتنی ہی ہے جتنی منگولیا میں ہے، حالانکہ امریکا ایسا ملک ہے جو بچوں کی دیکھ بھال کا دعویٰ کرتا ہے لیکن یہاں نوزائیدہ بچوں کی موت کی شرح دیگر امیر ممالک کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہے۔ قبل از وقت پیدائش اور پیدائش کے وقت کم وزن جیسے مسائل عام ہیں جن کے تاحیات اور یہاں تک کہ نسلی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ امریکا میں بچوں کی غربت کی شرح تمام دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ تیس لاکھ بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے تقریباً پندرہ لاکھ خاندان فی شخص یومیہ دو ڈالر سے بھی کم پر گزارہ کرتے ہیں۔ ایک سال کے دوران امریکا میں ہر 30 میں سے ایک بچہ بے گھر ہو جاتا ہے۔ امریکی مائوں کے پاس زچگی اور گھر کی دیکھ بھال کیلئے چھٹی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہنگری میں والدین کو 24 ہفتوں کی چھٹی ستر فیصد تنخواہ کے ساتھ ملتی ہے۔ لیکن امریکا میں ایسا نہیں ہوتا۔ امریکی ماؤں کا ایک بڑی تعداد بچے کی پیدائش کے کچھ ہی دنوں بعد کام پر واپس آ جاتی ہے، اگر کسی کو بارہ ہفتوں کی چھٹی مل بھی جائے تو وہ بغیر تنخواہ کے دی جاتی ہے۔
امریکا کے بارے میں دنیا بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہے‘ مثلاً وہاں غربت نہیں ہے‘ ہر شخص کے پاس گھر‘ گاڑیاں‘ روزگار اور بیشمار دولت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ سال امریکا میں پانچ لاکھ اسی ہزار افراد بے گھر ہوئے۔ پاکستان میں تو پھر حکومت نے پناہ گاہیں بنا دی ہیں لیکن وہاں لوگ شدید سردی میں بھی سڑک کنارے سونے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح امریکا میں چار کروڑ شہری ایسے ہیں جو پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا پاتے۔ جرائم اگر پاکستان میں ہوتے ہیں تو جدید ممالک میں بھی ہوتے ہیں۔ زیادتیاں یہاں ہوتی ہیں تو وہاں بھی ہوتی ہیں؛ تاہم دنیا کا‘ پاکستان میں ہونے والے انفرادی واقعات کو مذہب سے جوڑنا درست نہیں۔ امریکا سمیت فرسٹ ورلڈ کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ یہی امریکا مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں عام شہریوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور مظالم پر منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھا رہتا ہے۔ نسلی امتیاز اور تعصب کے واقعات خود امریکا کیلئے بھی چیلنج بن چکے ہیں۔ یکم ستمبر کو کیلیفورنیا میں ایک اور سیاہ فام کو پولیس نے گولیاں مار کر قتل کر دیا جس کے بعد وہاں مظاہروں کا نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ امریکا میں کہیں زیادہ شدید نوعیت کے واقعات ہوتے ہیں لیکن وہاں ان کے تانے بانے مذہب سے نہیں ملائے جاتے۔ پاکستان کے بارے میں عالمی میڈیا فوری پروپیگنڈا شروع کر دیتا ہے حتیٰ کہ امریکی صدر بھی بیان جاری کرنے میں دیر نہیں لگاتا لیکن امریکا میں ایسے واقعات کو ذہنی تنائو سے جوڑ کے فائل بند کر دی جاتی ہے۔ اس طرح کے کئی مغالطے ہیں جو عشروں بلکہ صدیوں سے چلے آ رہے ہیں اور معلومات کے اس جدید دور میںیہ مغالطے دور ہونے چاہئیں۔ نیز امریکا میں ہونے والی انسانی بدسلوکیوں کو بھی آشکار کرتے رہنا چاہیے تاکہ پاکستان جیسے ممالک کو خاص طور پر نشانہ بنانے اور ایسے واقعات کو مذہب یا قومیت سے جوڑنے کا سلسلہ ختم ہو سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved