تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     18-11-2021

سیاسی تطہیر کا بے لاگ عمل!

قومی سیاست کے تالاب میں پہلی بار نوازشریف کے ہمہ جہت مزاحمتی کردار نے غیر معمولی ارتعاش پیدا کرکے تہتر سالوں سے قائم اس جامد نظام کی تطہیر کا عمل تیزکیا جس نے ہمارے فکری اور سیاسی ارتقا کو روک رکھا تھا۔ اس وقت سیاست کی بساط پہ ہمیں وہ بے جان مہرے بھی زندہ کردارادا کرتے دکھائی دینے لگے جو مقتدرہ کی مرضی کے بغیر کبھی حرکت نہیں کر سکتے تھے۔ آزادی کے بعد سے ہمارا سیاسی نظام کئی بار سویلین اور عسکری قوتوں کے مابین اتار چڑھاؤ کا شکار ہوا، جس کی بدولت یہاں سیاسی بدعنوانی بڑھی اور سول ملٹری تنازعات گہرے ہوئے۔
آج مملکت کو غربت، عدم تحفظ، فرقہ واریت، دہشت گردی اور جس سنگین نوعیت کے سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے‘ یہ سب انہی تنازعات کا نتیجہ ہے۔ درپیش مسائل میں سیاسی و معاشی پالیسیوں میں تسلسل کا فقدان، عدم رواداری اور بیداریٔ عامہ کی کمی کے علاوہ مؤثر تعلیمی نظام کی تشکیل میں ناکامی جیسے گمبھیر مسائل بھی شامل ہیں۔ ہمارے اربابِ بست و کشاد ان مسائل کو اگر حل کرلیتے تو ہم اجتماعی زندگی کو زیادہ آرام دہ اور سماج کو کسی نہ کسی طور پیداواری معاشرہ بنا لیتے۔ شاید سیاسی عدم توازن اور انسدادِ دہشت گردی کی ناقص حکمت عملیوں جیسے دہرے چیلنجز ہی ملک کے مختلف حصوں میں تشدد کو ہوا دینے اور مختصر مدت کے سکیورٹی اہداف کیلئے طویل مدتی امن کی قربانی کا ذریعہ ہیں۔ اگرچہ اندرونِ ملک دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن بعض پہلوئوں سے ریاستی پالیسی کی وجہ سے انتہا پسندی اورعدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے، جس کی تازہ مثال ہمیں ٹی ایل پی کے حامیوں کی طرف سے پنجاب میں برپا کئے گئے پُرتشدد ہنگاموں میں نظر آئی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ریاست کی طرف سے اس رجحان کے تدارک کے لئے محض متحرک ردعمل دینے کے بجائے انسدادِ دہشت گردی کی جامع پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت تسلیم کی گئی لیکن اس قسم کی دور رس پالیسیوں کا نفاذ مستحکم سیاسی بندوبست کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا، بصورت دیگر بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ہمارے قومی تشخص کو مجروح کرکے ملک میں سماجی ہم آہنگی کو تہ و بالا اور سیاسی استحکام کو اجاڑ دے گی۔ بلاشبہ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ جیسے اداروں کی طرف سے شکایات کے حل کیلئے پُرامن طریقے فراہم کرنے میں ناکامی ہی یہاں تشدد کو جائز متبادل کے طور پر تلاش کرنے کی ترغیب بنی۔ 2018ء کی سیاسی تبدیلی کی بدولت ملک بڑھتے ہوئے قرضوں کے وبال اور اقتصادی محاذ پر برہم کن تجارتی عدم توازن کا شکار ہوا جس کی تلافی کی خاطر اب نئے انداز کی کتربیونت نے ایک بار پھر ہمارے سیاسی نظام کو وقفِ اضطراب کرکے طاقت کا توازن بگاڑ دیا ہے اور قومی سیاست کے مزاحمتی کرداروں نے انہی نامطلوب تنازعات کی لہروں کو منظم ادارہ جاتی ڈھانچے کی طرف دھکیل کر اِس ہائبرڈ نظام کی چولیں ہلا ڈالیں۔
وزیراعظم کی جانب سے ایک اہم تعیناتی میں پس و پیش نے جس تنازع کی بنیاد رکھی‘ وہی اُس رومانوی بندوبست‘ جسے 2018ء میں بڑی امیدوں کے ساتھ استوار کیا گیا تھا‘ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی ۔ اس تنازع نے'ایک صفحہ‘کے تاثر کو توڑ ڈالا۔ سویلین حکومت اور اس کے محسنوں کے تعلقات میں دراڑیں سامنے آنا شروع ہو چکی ہیں۔ اگرچہ حکمران جماعت کے بعض ارکان کہتے ہیں کہ خان صاحب نے 'ربڑ سٹمپ‘ بننے سے انکار کر دیا لیکن زیادہ تر حکومتی وزرا خود ساختہ بحران کو کم کرنے کی خاطر سرگرداں ہیں۔ ہرچند کہ فریقِ ثانی نے اس معاملے پہ خاموشی اختیار کر لی؛ تاہم ایک ذمہ ادارے کے ایک سابق سربراہ کہتے ہیں ''خاموشی بھی اظہار کی ایک صورت ہے‘‘۔
حالات کے تیور بتا رہے ہیں کہ اس 'ہائبرڈ رجیم‘ کے دن گنے جا چکے ہیں۔ ملک میں جس قسم کی صورتِ حال پیدا کر دی گئی ہے‘ اُس سے تو یہی لگتا ہے کہ پی ٹی آئی آئندہ انتخابات میں کامیاب نہیں ہو پائے گی، بلکہ فی الحال تو یہ بھی یقینی نہیں رہا کہ وہ موجودہ مدت پوری کر پائے گی یا نہیں۔
حکومت سے مایوسی کی بہت سی وجوہات ہیں‘ جن میں گورننس کی ناکامی اور معیشت کی تباہی زیادہ اہم ہیں۔ ناپختہ کاری نے سیاسی پولرائزیشن بڑھا کے سیاست اور معاشرے کو تصادم کی دہلیز پہ لاکھڑا کیا ہے، سفارتی سطح پر امریکیوں کو نالاں‘، عربوں کو جدا اور چینیوں کو ناراض کیا گیا، بھارت کے ساتھ تعلقات خرابی کی بدترین سطح پہ پہنچ گئے، حکومت کی سہل انگاری کے باعث ورکنگ ریلیشن شپ اور بیک چینل ڈپلومیسی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ تاہم یہ سب کچھ نظر انداز کیا جا سکتا تھا اگر''سیم پیج‘‘ کا تاثر برقرار رکھا جاتا اور بے وجہ کا بحران کھڑا نہ کیا جاتا۔ یہ تو واضح نہیں کہ کس زعم نے اپنے پاؤں کے نیچے سے قالین کھینچنے کی ترغیب دی کہ اس حساس معاملے کو نہایت غلط طریقے سے مینج کیا گیا۔ باہمی اعتماد کا رشتہ کمزور ہوا تو فریقین محتاط ہو گئے اور پھر 'آں چہ دانا کند، کند نادان، ولیکن بعد از خرابیٔ بسیار‘ کے مصداق آخر کار سمجھوتا طے پا گیا۔ مذکورہ عہدے پر تعیناتی بھی ہو گئی مگر اقتدار کی ہیئت مقتدرہ میں ایسی گہری تبدیلیاں رونما ہوئیں جنہوں نے قومی سیاست کے بہتے دھارے کو بدل ڈالا۔ بلاشبہ جس طرح اس واقعے نے سیاست کے بارے میں سربراہِ حکومت کے تصور کو یکسر بدل دیا ہے‘ اسی طرح حکومت کے حوالے سے خوش فہمیاں بھی کافور ہو گئیں۔ سیزر نے کہا تھا کہ ''مختلف طریقے اپنانے کے باوجود انسان ایک جیسے انجام سے دوچار ہوتے ہیں‘‘ ۔
اگر حکومت سویلین بالادستی کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہو گی کیونکہ وہ انہی گھاٹیوں سے ہو کر مسندِ اقتدار تک پہنچ پائی ہے اور انہی حمایتوں سے عہدے پر برقرار ہے۔ طرفہ تماشا دیکھئے کہ 2023ء میں اپنے لئے ایک اور مدت یقینی بنانے کے لئے وہ جس پر انحصار کر رہی تھی‘ ناقص حکمت عملی سے اسی کو اپنے سامنے لا کھڑے کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کم از کم دو مواقع پر اسلامی تاریخ سے کچھ ایسے واقعات کے حوالے دیے جن سے بہت سوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ بنیادی تنازع کے بھڑک اٹھنے کے چند ہی دن بعد وزیراعظم نے خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے اعلیٰ ترین جنرل خالدؓ بن ولید سے کمان لے کر کسی اور کو سونپ دی تھی۔ یہ واضح اشارہ تھا کہ عسکری کمانڈر کا عزل و نصب سویلین حاکم کا حتمی اختیار ہے۔ بعد میں ایک موقع پر انہوں نے مدینہ کی ریاست کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہاں کمان داروں کو صرف ان کی کارکردگی کی بنیاد پر اعلیٰ عہدے پر ترقی ملتی تھی، اسے مذکورہ شخص کے ٹیلنٹ کے اعتراف کے طور پر دیکھا گیا۔ البتہ جب تک سربراہِ حکومت حقائق سے تمام تر روابط کھو نہیں دیتے‘ اس وقت تک پاکستان کو اُس ریاست مدینہ کا آئینہ دار سمجھیں گے، جہاں وہ خلفا کی طرح کمان داروں کو حکم دے سکتے ہوں۔ انہیں شاید معلوم نہیں کہ ان باتوں سے وہ معاملات کو صرف اور صرف خراب کر رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ اکیسویں صدی میں وہ تقسیم اختیارات کی اساس پہ استوار نظام مملکت میں توازن قائم کرنے کے بجائے اپنے دل میں اس آمریت کی آرزو پال رہے ہیں جس میں تمام تر اختیارات کا مرکز ایک ذات ہوا کرتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved