تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     19-11-2021

کب ڈوبے گا جہالت کا سفینہ

اگرچہ ہمارے ممتاز کالم نگار بھائی جناب اظہارالحق کے کالم کا نام ''تلخ نوائی‘‘ ہے مگر وہ اکثر شیریں کلامی سے کام لیتے ہیں۔ تاہم آج ہمارا آزردہ دل تلخ نوائی پر مجبور ہے جس کے لیے ہم بزبانِ غالب پیشگی معذرت خواہ ہیں۔
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
جن واقعات کا میں تذکرہ کرنے لگا ہوں وہ گزشتہ کئی برس سے ہمارے معاشرے میں روزمرہ بن چکے ہیں۔ آئے روز یہ خونچکاں خبریں ہمارے سنگ بستہ احساس کے کواڑوں پر دستک دیتی رہتی ہیں اور ہم بھی ایسے سنگ دل واقع ہوئے ہیں کہ ان پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔ ذرا دو تین روز پہلے ہونے والے واقعات کے بارے میں سن لیجئے۔ پہلا واقعہ نارووال کے متعلق ہے۔ وہاں تیسری بیٹی پیدا ہونے کے خدشے کے پیش نظر متوقع ڈلیوری سے صرف دو روز قبل خاوند نے اپنی ماں کے ساتھ مل کر اپنی بیوی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مرد کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ افریقہ کے تاریک جنگلوں کا رہائشی نہیں‘ نارووال کی تحصیل شکرگڑھ کا ایک تاجر ہے۔ خاتون کے بھائی نے پولیس کو رپورٹ کرتے ہوئے لکھوایا ہے کہ اس کی بہن کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں تاہم تیسری بیٹی کی آمد کا سن کر عورت کے خاوند اور اُس کی ماں اس گھنائونے جرم کے مرتکب ہوئے۔
یہاں ہر طرف جہالت کا راج ہے۔ جاہل تو جاہل پڑھے لکھے جاہل بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں اور بیٹے نہیں پیدا ہوتے تو یہ عورت کا جرم ہے حالانکہ اس سلسلے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ جسے چاہتا ہوں بیٹے عطا کرتا ہوں اور جسے چاہتا ہوں بیٹیاں دیتا ہوں اور جسے چاہتا ہوں اسے دونوں نعمتوں سے سرفراز کرتا ہوں۔ میرے ذاتی علم میں ایسی کئی مثالیں ہیں کہ جن میں ایک سے دو بیٹیاں پیدا ہونے کی صورت میں عورت کو نشانۂ تضحیک و تعذیب بنایا گیا۔
میں پنجاب ہی کی ایک تحصیل سے تعلق رکھنے والی ایک لیڈی ٹیچر کو جانتا ہوں کہ جو خود بھی ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے سسرال والے نسبتاً بڑے لینڈلارڈ ہیں۔ جب اس ٹیچر کے ہاں دو بیٹیاں پیدا ہو گئیں تو اس کی ساس نے رات دن طعنے دے دے کر اسے گھر سے نکال دیا جبکہ اس کا شوہر خاموش تماشائی بن کر اپنی ماں کا یہ ظلم دیکھتا رہا۔ پھر اس ظالم ساس نے جبراً بیٹے کی شادی کروا دی اور کرنا خدا کا کیا ہوا کہ اب دوسری شادی سے بھی دو بیٹیاں پیدا ہوچکی ہیں اور بیٹا کوئی نہیں۔
بلوچستان میں صورت حال بہت ابتر ہے۔ وہاں چند ماہ قبل ایک لرزہ خیز واقعہ بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے علاقے توبہ اچکزئی میںپیش آیا۔ لڑکی کے والد کی رپورٹ کے مطابق انہیں 18 جون 2020ء کی صبح کال کی گئی کہ اُن کی بیٹی نے خود کشی کرلی ہے اور وہ آکر لاش پشین سول ہسپتال سے لے جائیں۔ جب بدقسمت باپ نے اپنی بیٹی کی لاش دیکھی تو اس پر بدترین تشدد کے نشانات بہت واضح تھے لہٰذا انہوں نے لاش کا پوسٹ مارٹم سنڈیمن ہسپتال کوئٹہ سے کروایا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق خاتون‘ جس کی عمر بمشکل 22 سال تھی‘ کو لکڑی کے ایک ڈنڈے سے بری طرح مارا گیا اور منہ کو ناخنوں سے نوچا گیا اور یوں دورانِ مزاحمت اس بے گناہ کا انتقال ہوگیا۔ مظلوم خاتون کے والد کے مطابق اُس پر یہ تشدد تیسری بیٹی کی پیدائش کی بنا پر کیا گیا۔ قرآن پاک میں ہے کہ زمین میں زندہ گاڑی جانے والی لڑکی قیامت کے روز اللہ کے حضور فریاد کرے گی کہ وہ کس گناہ میں ماری گئی تھی۔ یہی فریاد بلوچستان کی اس معصوم عورت پر صادق آتی ہے۔
یوں تو اس جہالت کا راج سارے پاکستان میں ہے مگر بلوچستان کے قبائلی علاقوں میں پرانی روایات کے نام پر کمسن بچیوں اور خواتین پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جاتے ہیں اور اُنہیں زیورِ تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ایسے جان لیوا تشدد کے پچاس واقعات میں سے بمشکل دو واقعات ہی منظرعام پر آپاتے ہیں۔
اب ذرا انہی دنوں پیش آنے والے جہالت کے ایک دو اور مناظر بھی دیکھ لیجئے۔ آٹھ سال کی گھریلو ملازمہ بچی پر اس کے مالک اور مالکن نے گرم کھولتی ہوئی چائے انڈیل دی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اُن کے خیال میں چائے ٹھیک نہیں بنی تھی۔ ہم اس بھیانک واقعے میں معاشرے کا مکروہ چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ آٹھ سال؟ کھلونوں اور گڑیوں سے دل بہلانے کے دن‘ اجلی اجلی یونیفارم میں سکول جانے کے دن‘ ہمجولیوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرنے کے دن اور اس آسمانی پری کے ساتھ ایسی درندگی۔ ایسے واقعات پر تو من حیث القوم ہمارے سر شرمندگی سے جھک جانے چاہئیں۔
سوموار کے روز کراچی میں دن دہاڑے شارع فیصل پر گاڑی میں سوار دُلہا اور دلہن پر گولیوں کی بارش کی دی گئی۔ دُلہا موقع پر دم توڑ گیا جبکہ دلہن اور دُلہا کا بھائی اور گاڑی کا ڈرائیور شدید زخمی ہیں۔ سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ دونوں نے پسند کی شادی کی تھی اس لیے دلہن کے رشتہ داروں نے اُن پر حملہ کر دیا۔ اکثر اسلامی ممالک میں والدین کی رسمی اشیرباد کے ساتھ دُلہا دلہن باہمی رضامندی سے شادی کرتے ہیں۔ یہاں جاہل تو جاہل‘ پڑھے لکھے والدین بھی اپنی معاشرتی‘ تجارتی اور سیاسی اغراض کی خاطر نوجوانوں پر اپنی مرضی مسلط کرنا اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔ جبکہ معاشرے کے نچلے طبقات میں اکثر باپ مالی فوائد کے لیے بچی کی انمل بے جوڑ شادی کر دیتے ہیں۔
یورپی یونین کی نائب صدر ہیری ہوتالا نے صرف دو تین روز قبل اسلام آباد میں کہا ہے کہ پاکستان کی ڈیوٹی فری مارکیٹ تک تسلسل کے ساتھ مستقبل میں بھی رسائی انسانی حقوق کی تکمیل سے مشروط ہے۔ یورپی یونین کی نائب صدر نے کہا کہ گھروں میں خواتین کی مارپیٹ اور کمسن بچیوں پر جنسی تشدد کا خاتمہ ہونا چاہئے۔
جب کسی مغربی شخصیت یا ادارے کا کوئی ایسا بیان منظرعام پر آتا ہے تو ہم خم ٹھونک کر میدان میں آجاتے ہیں کہ تم کہاں سے آگئے ہمیں عورتوں اور بچوں کے حقوق بتانے والے۔ اسلامی تعلیمات کا نور پھیلنے سے پہلے دنیا میں عورتوں پر تشدد کیا جاتا تھا اور بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ اسلام نے آکر عورت کو برابری کے حقوق دیے اور اسے معاشرے میں عزت کا مقام عطا کیا۔ یقینا ایسا ہی ہے۔ مگر کیا ہمارا معاشرہ اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہے یا دورِ جہالت کی روایات پر کاربند ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ عورتوں کو حقِ ملکیت‘ حقِ وراثت‘ شادی کے معاملے میں حقِ انتخاب اور حق تعلیم دیتا ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ ننھے منے بچوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اسی لیے تو آئے روز بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد ہوتا ہے اور پھر انہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔
ہمیں افسوس تو یہ ہے کہ اس اہم ترین پہلو کی طرف حکمران متوجہ ہوتے ہیں نہ سیاست دان اور نہ ہی علمائے کرام۔ آبادی بے ہنگم طریقے سے بڑھتی جا رہی ہے۔ اڑھائی کروڑ سے زیادہ بچے بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اگر تعلیم عام ہو جاتی ہے تو پھر بہت سی برائیوں کا ازخود خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ سمجھ لیجئے جب تک جہالت کا سفینہ نہیں ڈوبتا اس وقت تک خوشگوار اور خوشحال زندگی کا سورج طلوع نہیں ہو سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved