تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     19-11-2021

قطری‘کیلبری کے بعد گوتھری کا ضمیر جاگ گیا

مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ ووٹ کو عزت دینے کی جلدی میں وہ جلدی جلدی سے مٹھائی کھا لیتے ہیں۔ اس طرح ایک بار نہیں بلکہ کئی بار دوسروں کے وڈیو آڈیو والے راز فاش کرتے کرتے خود اپنا ہی مَکّو ٹھپ لیتے ہیں۔ نام لینے کی کیا ضرورت ہے‘ ان کا کام ہی کافی ہے۔ آپ سوشل میڈیا پر مٹھائی لکھ کر ڈالیں تو سپریم کورٹ کے سامنے پانامہ کمیشن کی تشکیل کے وقت سرخرو ہونے کی مٹھائی والی وڈیو آپ کو مل جائے گی۔ اگلے روز پی ایم ایل این کے اپوزیشن بلاک نے یہ مٹھائی نامہ قومی اسمبلی کے فلور پر بھی پیش کر کے چھوڑا‘ جس کے جواب میں انہیں بتایا گیا کہ آئین کا آرٹیکل 68 آپ کو منع کرتا ہے کہ عدلیہ کے حوالے سے فلور آف دی ہائوس پر گفتگو نہیں کی جا سکتی۔ اُس وقت نون لیگ مٹھائی کے موڈ میں تھی؛ چنانچہ پارلیمنٹری افیئرز کے اس آئینی اعتراض کی پروا نہ کرتے ہوئے مٹھائی نامہ کے تین باب ان لفظوں میںکھول دیے گئے۔
پہلا باب: یہ کون لوگ ہیں جو سیاست دانوں کے خلاف مقدمے بنواتے ہیں اور چلواتے ہیں۔ ماضی مرحوم میں جانے کی ضرورت نہیں‘ صرف نواز شریف صاحب کی تین عدد وزارتِ عظمیٰ کے تین ورق اُلٹ لیجئے آپ کو لگ پتا جائے گا کہ یہ کون لوگ ہیں جو سیاست دانوں پر کیس بنواتے ہیں اور چلواتے ہیں۔
پہلے چلئے کیس چلوانے کی طرف‘ اُن چہروں کی شناخت پریڈ کرنے کے لیے جو سیاست دانوں کے خلاف کیس بنواتے بھی ہیں اور چلواتے بھی ہیں۔ پہلے منظر میں آپ کو رائے ونڈ کا شاہی دربار نظر آئے گا‘ جس میں احتساب کا راگ درباری چھیڑنے والے خاندان کا سمدھی پی ایم ایل این کا سینیٹر اور سیاسی بزنس ایمپائر کا فرنٹ مین ادارۂ احتساب کا سربراہ بنایا جاتا ہے۔ وہ اپنے وقت کی رولنگ پی ایم ایل این کی پارلیمانی پارٹی کا ممبر بھی تھا۔ موصوف کے احتساب کا وقت گزرے ہوئے تقریباً تین عشرے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک وہ ٹرانسپیرنسی سمیت یا تو قطر میں پائے جاتے ہیں یا مے فیئر کے فلیٹس میں۔ اسی ٹرانسپیرنسی برائے اکائوٹیبلٹی کی وجہ سے وہ نواز شریف کے تیسرے اور آخری اقتدار کے دوران بھی پاکستان واپس آنے کی ہمت نہ کر سکے اور صرف مواصلاتی ذرائع سے ہی پاکستان کی ٹی وی سکرینوں پر ظاہر ہوتے رہے۔
صحافتی حلقوں نے انہیں اپنی حسِ مزاح کی تسکین کے لیے احتساب الرحمان کا لقب دے رکھا تھا۔ ہاں البتہ اُس کا ایک بیان‘ جو نواز شریف صاحب کی تیسری حکومت کے دنوں میں بڑا ہٹ ہوا‘ آج بھی توجہ کے قابل ہے۔ مفرورِ احتساب نے کہا کہ میں 35 سال سے قطر اور پاکستان کے مابین ایل این جی کی ڈیل کروانے میں لگا ہوا تھا‘ آج میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ باقی آپ سمجھ دار ہیں کہ یہ ایک ایسی ایل این جی ڈیل کی بات ہو رہی ہے جس کی گونج احتساب عدالتوں کے برآمدوں میں پکارے جانے والے زیر سماعت مقدموں کی آواز میں شامل ہے۔
دوسرا باب اپوزیشن لیڈر شہباز شریف صاحب نے ایسے دن کھولا جو پاکستان کی تاریخ بنانے والا دن ہے۔ اس روز قومی اسمبلی اور سینیٹ آف پاکستان کے مشترکہ اجلاس نے 65 نکاتی ایجنڈے کو منظور کرنے کی تاریخ رقم کی جس میں بیرون ملک مقیم ایک کروڑ سے زائد پاکستانی خواتین و حضرات کو‘ 74 سال بعد‘ بیرون ملک رہتے ہوئے پاکستان میں اپنا رائٹ آف ووٹ استعمال کرنے کا حق دیا گیا۔ اسی روز دوسری تاریخ یہ رقم ہوئی کہ انتخابات میں دھاندلی کو روکنے کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کا قانون جوائنٹ پارلیمانی سیشن سے پاس ہو گیا۔ اس قانون کے خالق وزیر اعظم کے مشیر پارلیمانی امور نے خود اسے ایوان کے سامنے پہلی اور دوسری خواندگی کے لیے پیش کیا۔ ای وی ایم لاء کے ذریعے انتخابی دھاندلی کا دروازہ بند ہو جائے گا لیکن اس موقع پر اپوزیشن لیڈر نے لطافتوں کا دروازہ بند کرنے سے انکار کر دیا۔ کہنے لگے: اگر یہ قانون پاس ہو گیا تو یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ‘ پارلیمنٹ کو توڑنے کے مترادف ہو گا۔ پھر فرمایا: حکومت قانون پاس کر کے پارلیمنٹ سے باہر نکلے‘ 22 کروڑ عوام کے ہاتھ اُن کے گریبان تک پہنچ جائیں گے۔ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں نے اپوزیشن کی طرف سے اخلاقی حدوں سے ماورا گزر جانے کے واقعات کو لائیو دیکھا مگر اُنہیں نہ پارلیمنٹ کے اندر عوام کے منتخب نمائندوں کی تائید ملی اور نہ ہی سڑکوں پر 22 کروڑ لوگ اُن کے لیے حکومت کا گریبان پکڑنے باہر نکلے۔ اس موقع پر شہباز شریف صاحب کا ضمیر اتنا جاگ اٹھا تھا کہ کہنے لگے: سپیکر اسد قیصر صاحب پی ٹی آئی سے استعفیٰ دے دیں تب ہی ہم ان کو قانونی سپیکر ماننے پر تیار ہوں گے۔ پوچھا گیا: آپ نے سپیکر ایاز صادق صاحب سے استعفیٰ مانگا تھا تا کہ وہ بھی قانونی ہو جائیں؟ اس پر شہباز شریف صاحب اور ان کی پارٹی نے ہلڑ بازی اور پھر بائیکاٹ کی پتلی گلی سے نکل کر دکھا دیا۔
تیسرا باب یہ کھولا گیا کہ مریم نواز صاحبہ کے ساتھ بڑا ظلم ہوا‘ انہیں جرمِ بے گناہی کی سزا سنائی گئی۔ کیلبری فونٹ کا تذکرہ بھی آیا۔ عدلیہ پر تقریروں کی جھاگ اُڑائی گئی‘ اور زورِ بیان سے ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی کہ ان کے خلاف نہ کوئی کاغذ ہے نہ ہی کوئی گواہ‘ ثبوت تو دور کی بات ہے۔ پھر نواز شریف صاحب کو زبردستی لندن بھجوانے کا ذکر چھیڑا گیا۔ یہ ظلم بالکل ویسے ہی ہوا‘ جیسا انہیں جدہ بھیجنے والا ظلم تھا۔ اس حالتِ مجبوری میں نواز شریف نے بحیرہ احمر کے کنارے بادشاہ کے مظلوم محل میں جلا وطنی کا خرچہ نکالنے کے لیے عزیزیہ مل لگائی تھی اور اب کی بار نواز شریف بیمار نہیں تھے اور اس کے باوجود پتہ نہیں کیسے انہیں زبردستی دوسری مرتبہ چارٹرڈ ڈریم ایئر لائنر میں دریائے تھیمز کے کنارے لے جا کر بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ اس بیچارگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا! نواز شریف صاحب کے حق میں اتنی زور دار تقریریں ہوئیں کہ قومی اسمبلی کے مائیک نے اس مظلومیت پر خون کے الیکٹرانک آنسو بہا دیے۔ اس دوران قطری خط کا ذکر بھی آیا۔ حکومتی بینچوں کی جانب سے صرف اتنا پوچھا گیا کہ اگر آپ اتنے بڑے بے گناہ ہیں‘ یا آپ کی بے گناہی کی گواہی پہلے خط کے ذریعے قطری نے دی۔ پھر سرینڈر ڈیڈ کے ذریعے فونٹ آف کیلبری نے دی اور اب نواز شریف کے پسندیدہ نوٹری کرنے والے انگلستانی چارلز گوتھری نے بھی بیانِ حلفی نوٹر آئیز کر کے دے دیا ہے تو آپ اتنے سارے ثبوت لے کر پریس کانفرنس اور تقریروں کے بجائے عدالتوں میں یہ ثبوت پیش کرنے کیوں نہیں چلے جاتے؟ اس معصوم سوال کے جواب میں اس مظلوم گروہ کا ضمیر جاگ اٹھا۔ بالکل ویسے ہی‘ جیسے قطری اور کیلبری کے بعد گوتھری کا ضمیر جاگ گیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved