تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     27-07-2013

اسے کہتے ہیں خوفِ خدا!

جمعرات کی شام دوست کا فون آیا کہ ضروری کام ہے۔ ضروری کام کا سن کر میں ہمیشہ خوفزدہ ہوجاتا ہوں کہ یقینا نوکری، ٹرانسفر یا پروموشن کا مسئلہ ہوگا جو میں نہیں کر سکوں گا ۔ جن کو براہ راست انکار نہیں کرسکتا ان کے لیے سوچنا شروع کردیتا ہوں کہ کیسا پروٹوکول دوں کہ وہ انکار کے صدمے کو کسی حد تک بھول سکیں۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ اس دوست کو کیا کام ہوسکتا ہے۔ چند دن پہلے ایک پولیس کانسٹیبل کو گاڑی پر لفٹ دی تو اس کی کہانی سن کر افسردہ ہوا۔ وہ تین بچوں کے ساتھ کسی کے سرکاری مکان کے سرونٹ کوارٹر کے ا یک کمرے میں رہ رہا تھا ۔اسے اتارا تو اس نے پوچھ لیا‘ کیا کرتے ہیں؟ بتایا ٹی وی میں کام کرتا ہوں تو اس نے کارڈ مانگ لیا۔ ایک دن صبح دنیا ٹی وی پر شو ’’خبر یہ ہے‘‘ کرنے کے بعد فارغ ہوا تو پتہ چلا ایک کانسٹیبل اور ٹیکسی ڈرائیور ملنا چاہتے ہیں۔ وہ ٹیکسی ڈرائیور لیہ کا تھا۔ خیر بٹھایا‘ دونوں کو ناشتہ کرایا۔ کانسٹیبل بولا‘ آپ سے کام ہے۔ میں نے عادتاً کہا: حکم کریں۔ بولا‘ ایک تھانے سے دوسرے تھانے ٹرانسفر کرادیں۔ پہلا تھانہ بہت دور ہے اور بچوں کو مسائل درپیش ہیں۔ میں بچوں کے نام پر جلدی بلیک میل ہوجاتا ہوں۔ یاد آیا ایک ڈی آئی جی کے پرائیویٹ سیکرٹری میرا مارننگ نیوز شو دیکھ کر کبھی کبھار کوئی تعریفی پیغام بھیج دیتے ہیں اور قسمت دیکھیں کہ ٹرانسفر بھی اس نے ہی کرنا تھا ۔ میں نے فون اٹھایا اور ان سے کہا: یہ کام کر دو۔ وہ ہنس کر بولا‘ سر آپ کو پتہ ہے اس تھانے میں پوسٹنگ کا کیا ریٹ ہے۔ سب سے زیادہ دبائو اس علاقے کے لیے ہے؛ تاہم کوشش کر کے دیکھتا ہوں۔ میں حیران ہوا اور پوچھا وہاں کون سی گیدڑ سنگھی ہے جو دوسرے تھانوں میں نہیں ملتی۔ بولا یہ تھانہ اسلام آباد پشاور روڈ کے سنگم پر ہے اور پشاور سے آنے والی ہر گاڑی، ٹرک میں جائز و ناجائز سامان اسی تھانے کی حدود سے گزرتا ہے۔ میں نے ایک نظر اپنے سامنے بیٹھے کانسٹیبل پر ڈالی ۔ ترس بھی آیا اور غصہ بھی۔ مجھے شرمندگی ہوئی کہ وہ پی ایس کیا سوچتاہوگا۔خیر میں نے بتایا یہ کام نہیں ہوسکتا ۔ وہ بولے‘ ہم تو جناب بڑی امیدیں لے کر حاضر ہوئے ہیں۔ میرا جواب تھا میں ہی نالائق ہوں ورنہ سفارش تو آپ نے درست ڈھونڈی ہے۔ میں سوچنے لگا کہ جس دوست نے ٹیلی فون کیا ہے اس سے کیا بہانہ کروں گا۔ اسی دوران وہ اندر داخل ہوا۔ اس کے ساتھ ایک آدمی بھی تھا۔ دوست نے کہا‘ یہ میرے فیصل آباد کے جاننے والے ہیں۔ ان کا ایک کام ہے جو آپ کرا سکتے ہیں۔ میں نے حسب عادت کہا: حکم کریں۔ بولے‘ انہوں نے متروکہ وقف املاک بورڈ کے ساتھ ایک کنٹریکٹ کیا تھا۔ ان کے دو کروڑ روپے پھنسے ہوئے ہیں اور عدالت کے حکم کے باوجود کوئی رقم ادا کرنے کو تیار نہیں۔ متروکہ وقف املاک بورڈ سے مجھے یاد آیا کہ گیلانی صاحب اور ان کے دوست آصف ہاشمی نے جو تباہی اس ادارے میں مچائی تھی، وہ اپنی جگہ ایک داستان ہے۔ اس وقت ہاشمی صاحب بیرون ملک فرار ہیں۔ ایک دفعہ اسلام آباد کلب میں ایک دوست سے ملا تو ان کے ساتھ ایک چھوٹے قد کا آدمی تھا۔ وہ آصف ہاشمی تھے۔ اتفاقاً چند دنوں بعد ان کے خلاف ایک سکینڈل فائل کیا کہ کیسے ہندوئوں اور سکھوں کی زمین پر مسلمان افسروں نے اپنی ہائوسنگ سوسائٹی بنا کر پلاٹ بانٹ لیے۔ آصف ہاشمی نے خط لکھا کہ رئوف کلاسرا مجھے کلب میں ملے تھے، ایک کام انہوں نے کہا، وہ میں نے نہیں کیا تو اس پر یہ خبر فائل کر دی۔ ہاتھ ملانا پہلے کبھی اتنا مہنگا نہیں پڑا تھا۔ میں نے کہا: موصوف تو بیرون ملک فرار ہیں اور میرے دوست گیلانی صاحب گرفتاری دینے کے لیے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔اب آپ کی کیا مدد ہوسکتی ہے؟ بولے: نگران چیئرمین کو کہہ دیں‘ وہ آپ کے کہنے پر کام کر دے گا۔ میں نے کہا: پہلے تو میں کسی انجان کو فون نہیں کرتا کہ ناں ہو جائے تو بے عزتی محسوس ہوتی ہے۔ دوسرے کیونکہ آپ کے کام میں رقم شامل ہے‘ لہٰذا اس صورت میں تو بالکل نہیں کروں گا کیونکہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کچھ میری چونچ بھی گیلی ہورہی ہوگی۔ تیسرے‘ جو کام عدالت کے کہنے پر نہیں ہورہا وہ میرے کہنے پر کیسے ہوگا ؟ چوتھے آپ پہلے کس طرح بل کلیئر کراتے تھے؟ ان صاحب نے ایک گہرا سانس لیا اور بولا‘ ایک سابق وزیرکہتے ہیں دس لاکھ روپے دیں تو میں دلوا دیتا ہوں۔ میں ہنس پڑا اور کہا پھر کیا مسئلہ ہے‘ دے دیں۔ بولا ڈر لگتا ہے‘ وہ اب سابق وزیر ہوگئے ہیں۔ پتہ نہیں کوئی ان کی سنتا ہے کہ نہیں۔ ان کے ایک ’بندے‘ نے کہا ہے ڈیڑھ لاکھ روپے ابھی خرچہ پانی دے دو، باقی بعد میں دے دینا۔ پھر بولا‘ بات دراصل یہ ہے کہ اس سابق وزیر سے پہلے ہم یہ کام لاہور کے ایک ایم این اے سے کراتے تھے۔ پنجاب میں انہی کی حکومت ہونے کی وجہ سے ان کا کہا ہوا کام جلدی ہوجاتا تھا۔ اب مرکز میں بھی ان کی اپنی حکومت بن گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کچھ دن صبر کر لیں، دو تین ماہ بعد رقم ریلیز کرا دیں گے۔ میں نے پہلی دفعہ دلچسپی لی اور پوچھا وہ صاحب کون ہیں۔ اس کے منہ سے نام سن کر ایک لمحے کے لیے میں دنگ رہ گیا۔ وہ حالیہ الیکشن کے بعد ایک اہم آئینی عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ میں نے کہا‘ میں نہیں مان سکتا۔ وہ کتنا کمیشن لیتے ہیں؟ میں نے پوچھا۔ بولے دو فیصد لیتے تھے اور کہہ رہے ہیں اب بھی دو فیصد ہی لیں گے لیکن کچھ دن انتظار کرنا ہوگا ۔ ہم بہت مشکل میں ہیں اس لیے دس لاکھ روپے تک دینے کو تیار ہیں تاکہ دو کروڑ روپے ہمیں مل جائیں۔ میں نے کہا: جس شخص کا آپ نے نام لیا ہے وہ تو اب بڑی توپ چیز بن چکے ہیں۔ وہ تو اپنے سیکرٹریٹ کی خاتون افسروں کو سرعام ایف آئی اے سے ٹنگوانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ وہ درست فرماتے ہیں‘ ابھی ان کی نئی نئی حکومت آئی ہے۔ دوسرے ابھی تک ان کی حکومت نے نیا چیئرمین بھی نہیں لگایا۔ قائم مقام چیئرمین ایک روپیہ بھی جاری نہیں کرے گا کیونکہ پہلے ہی ایف آئی اے متروکہ وقف املاک بورڈ کے خلاف تحقیقات کررہی ہے۔ بہتر ہوگا آپ کچھ دن صبر کرلیں۔ وہ آدمی مجھے کچھ بے صبرا لگا۔ کہنے لگا کہ آپ ہی کوئی بندہ ڈھونڈ دیں۔ میںنے کہا: انگریزی میں کہتے ہیں Its better to deal with the devil you know, than the one you don\'t know جو صاحب ماضی میں آپ کو رقم ریلیز کرا کے دیتے رہے ہیں اور صرف دو فیصد پر ہی مطمئن ہوجاتے تھے، اب بھی وہی آپ کے لیے بہتر رہیں گے۔ اب ان کی لاٹری نکل آئی ہے۔ انہیں سنبھلنے میں کچھ وقت لگے گا‘ انہیں وقت دیں‘ وہ آپ کو مایوس نہیں کرے گا؛ بلکہ ہوسکتا ہے اب آپ اپنے جیسی پارٹیاں ان صاحب کے پاس لے جایا کریں گے اور ان کا دو فیصد نکال کر دو تین فیصد آپ بھی کما لیا کریں گے۔ مجھے لگا وہ میری بات سے کچھ قائل ہوگئے ہیں۔ دوست میرے مشورے سے خوش خوش گیا۔ اس سمجھدار سیاستدان کی قناعت پسندی نے متاثر کیا۔ آج کل کی مہنگائی کے اس طوفان میں بھلا مسٹر ٹو پرسنٹ کہاں ملتا ہے۔ اب تک مسٹر ٹین پرسنٹ کے کارنامے سنے تھے اور اب ریٹ گر کر ٹو پرسنٹ ہو چکا ہے۔ لگتا ہے وزیروں اور ایم این ایز میں مقابلہ سخت ہونے سے ریٹ گر گیا ہے۔ داد دیں ان صاحب کو جنہوں نے اتنا بڑا عہدے ملنے کے باوجود اپنا ریٹ نہیں بڑھایا۔ اسے کہتے ہیں خوف خدا، اس کی مخلوق سے پیار اور تھوڑے پر قناعت!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved