تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     19-11-2021

زلیخا کا زنگ آلود صندوق

نگورنو کاراباخ کے علاقے میں مشہور شہر شوشا کی ستائیس برس بعد آرمینائی فوج کے قبضے سے آزادی کی خبر سنتے ہی ترکی کے نواحی علاقے میں مقیم زلیخا شاناراوف نامی 75 سالہ بڑھیا اپنے گھر کے سٹور میں رکھا زنگ آلود صندوق صحن میں لا کر اس کے ارد گرد آذر بائیجان کا قومی ترانہ گاتے ہوئے ناچنے لگی۔ یہ وہ بیکار اور انتہائی خستہ حال صندوق تھا جسے بڑھیا کے بیٹوں اور بہوئوں نے کئی مرتبہ کوڑے دان میں پھینکنے کی کوشش کی لیکن جیسے ہی کوئی باہر پھینکنے کیلئے اسے ہاتھ لگاتا تو بوڑھی اماں زارو قطار روتے ہوئے اس زنگ آلود صندو ق کے ساتھ چمٹ کر چیختے چلاتے ہوئے اس طرح آسمان سر پر اٹھا تی کہ ارد گرد کے لوگ بھی اکٹھے ہو جاتے۔ یہ تماشا ایک‘ آدھ دفعہ نہیں بلکہ کئی بار ہو چکا تھا۔ اس سالخوردہ صندوق میں نہ تو اس بڑھیا کے قیمتی یا سہاگ کے کپڑے تھے نہ اس نے کوئی مال و دولت یا سونے اور ہیرو ں کے زیورات اس میں سنبھال رکھے تھے۔ نہ تو اس میں کسی خفیہ جائیداد کے کاغذات تھے جن کے چھن جانے کا خوف اماں جی کو گوارا نہ تھا اور نہ ہی کوئی اور قیمتی یا قابلِ ذکر چیز تھی۔ اس میں جو نادر اثاثہ تھا وہ اس وقت باہر آیا جب آذر بائیجان سے ہجرت کر کے ترکی کے نواح میں مقیم ہونے والی زلیخا شانا راوف کو پتا چلا کہ اس کے آبائی وطن آذر بائیجان کی فوجیںنگورنو کاراباخ کے شہر شوشا میں داخل ہوکر آرمینائی فوجوں کو وہاں سے بھگا نے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ یہ سنتے ہی ایسے لگا کہ بڑھیا کے جسم میں برقی رو دوڑ گئی ہو‘ وہ بھاگ کر سٹور میں رکھے اس زنگ آلودہ صندوق کو اٹھا کر باہر لائی‘ جس کے اندر اس نے ایک کپڑا میں ایک پرانی سی چابی لپیٹ کر رکھی ہوئی تھی۔ زلیخا شانا راوف نے گھر میں موجود افراد کو اپنے سامنے یہ صندوق کھولنے کا حکم دیا اور جب اس کے پوتے‘ پوتیوں نے بڑے تجسس سے یہ صندوق کھولا تو وہاں موجود ہر کوئی یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس صندوق میں بڑی بی کا کوئی قیمتی خزانہ نہیں بلکہ آذر بائیجان کا ایک انتہائی بوسیدہ قومی پرچم ایک کپڑے میں لپیٹ کر رکھا ہوا تھا۔ بڑھیا نے اپنے پوتوں کو صندوق کے سب سے نچلے حصے سے ایک چابی نکال کر دیتے ہوئے بتایا: میرے بچو! یہ اس گھر کی چابی ہے جسے میں نے اور آپ کے دادا نے بڑی محنت سے تعمیر کیا تھا اور جہاں ہمارا خاندان ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا کہ1992 میں آرمینائی فوجوں نے سامراج کی مدد سے اس پر قبضہ کر کے ہم سب کو بے سرو سامانی کی حالت میں بچوں کے ساتھ وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ جس طرح ہم اپنی جانیں بچا کر وہاں سے نکلے اور گرتے پڑے یہاں تک پہنچے‘ آج ستائیس برس سے عرصہ بیت چکنے کے بعد بھی وہ لمحات اور وہ گھڑیاں زہریلے سانپوں کی طرح مجھے ڈستی ہیں اور جب بھی میں اس وقت کو یاد کرتی ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
آذر بائیجان کے بوسیدہ پرچم کو بار بار چومتے اور عقیدت سے سینے سے لگاتے ہوئے زلیخااپنے پوتے‘ پوتیوں سے یہ وعدہ لے رہی تھی کہ تم لوگ جیسے ہی شوشامیں اپنے دادا کے آبائی گھر میں داخل ہو‘ اگر وہ زندہ نہ رہی‘ تویہ پرچم ہمارے اس گھر پر ضرور نصب کرنا۔ زنگ آلود صندوق میں28 برسوں سے سنبھال کر رکھا ہوا پرچم محض کپڑے کا ٹکڑا نہیں بلکہ قومی حمیت اور اپنے وطن سے محبت اور عقیدت کی ایک لازوال اور انوکھی داستان بیان کر رہا تھا۔ یہ زنگ آلودہ صندوق ان نام نہاد لبرلز اور چند ڈالروں کے عوض اپنا آپ بیچ کر دشمن اور ملک کے اندر اور باہر بیٹھے اس کے ایجنٹوں کے اشاروں پر ناچنے والوں کے چہروں پر وہ زناٹے دار تھپڑ ہے جو '' کبھی انسانی حقوق، کبھی مسنگ پرسنز اورکبھی اظہارِ رائے کی شتر بے مہار آزادی کے نام پر اغیار کے سامنے اپنے ملک و قوم کی دھجیاں اڑانا باعث فخر سمجھے ہوئے ہیں۔
1990ء کے اوائل میں آرمینیا نے آذر بائیجان کے بیس فیصد سے زائد رقبے پر قبضہ کر نے کے بعد تین دہائیوں تک جو ظلم اور جو بر بریت وہاں روا رکھی‘ اس کو بیان بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی حقوق، شہری آزادیوں، آزاد میڈیا اور مذہبی رواداری کے نام پر ہر غریب اور اپنی مرضی سے جینے والے ممالک کے خلاف پابندیاں لگانے اور ان کی ناکہ بندی کا کھیل رچانے والوں کے سامنے آذربائیجان کے علاقے پر قبضہ ہوا اور تین دہائیوں تک وہاں ظلم و بربریت کا بازام گرم کیا گیا مگر انسانی حقوق، ایمنسٹی اور دیگر خوشنما ناموں سے کام کرنے والے اداروں، تنظیمیں اور تھنک ٹینکس‘ سب اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود غفلت کی نیند سوتے رہے۔ جب آذر بائیجان کے آٹھ لاکھ سے زائد شہریوں کو ان کے گھروں سے نکال کر دنیا بھر میں در بدر‘ بھوک اور پیاس سے مرنے پر مجبور کیاگیاتو کسی نے بھی ان کے حقوق پر آواز نہیں اٹھائی۔ مغرب اورامریکا ہی نہیں‘ ان کے اتحادی مشرق بعید کے وہ تمام ممالک بھی ‘جو ایک کیڑے کے مرنے پر بھی سوگ منانے لگتے ہیں‘ یہ تمام گھنائونے اور شرمناک مناظر شاید اس لیے چپ چاپ دیکھتے رہے کہ بہنے والا خون کسی اور کا نہیں‘ مسلمانوں کا تھا۔ اسی لیے انہوں نے اپنے لب سیئے رکھے کہ خونِ مسلم بہہ رہا تھا۔ انہوں نے اپنے تعصب کی عینکوں سے آرمینیا کی جانب سے جبری قبضے میں لیے گئے آذربائیجان کے بیس فیصد حصے کی تمام تاریخی عمارتوں، ان کی لائبریریوں، ان کے گھروں ان کے مساجد کو نشانے باندھ باندھ کر تباہ کرتے دیکھا لیکن خاموش رہے۔
لگ بھگ تین دہائیوں بعد جب آذر بائیجان نے اپنے یہ تمام علاقے آرمینیائی افواج سے ایک زبر دست جنگ کرتے ہوئے خالی کرائے تو یکدم دنیا بھر میں ایک بھونچال سا آ گیا، اور توا ور پاکستان کے اندر ان آوازوں کے ہمنوائوں نے اپنے ہی ملک کی اداروں اور ان کے سربراہوں کے خلاف بے بنیاد قصے کہانیوں پر مبنی پروپیگنڈا شروع کردیا کہ پرائی جنگ میں کودا جا رہا ہے۔ ایسا کرنے والوں نے یہ تک نہ سوچا کہ آرمینیاکی افواج نے آذربائیجان کے جس 20 فیصد حصے پر جبری قبضہ کیا تھا، وہاں پر انہوں نے کل 67 مساجد میں سے65 کوجانوروں کے باڑوں میں تبدیل کر دیا تھا، کیا اس جنگ کے حوالے سے پروپیگنڈا کرنے والے اس حقیقت سے نا واقف تھے؟ اگر آذربائیجان کی مدد کرتے ہوئے کسی بھی ملک کی فوجی یا اخلاقی مدد نے آرمینیائی افواج کو وہاں سے نکال باہر کیا تو اس میں کیا برا تھا؟ یہ تو اس صدی کا سب سے بڑا جہاد تھا۔ ان مساجد کو‘ جن میں سے چالیس سے زائد کو اب بڑی حد تک ان کی ا صلی حالت میں بحال کر دیا گیا ہے‘ غاصب افواج کے قبضے سے چھڑانا کوئی غلط عمل تھا؟ تیس برسوں کے جبری قبضے کے دوران 920 لائبریریوں اور46 لاکھ قیمتی اور نادر کتب کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔ تیس ہزار سے زائد مسلم خواتین کا ریپ کیا گیا۔ مسلمانوں کی ایک لاکھ قبرو ں کو ادھیڑنے کے بعد ان پرلگے پتھر اکھاڑ کر آرمینیا کے لوگوں نے اپنے گھر تعمیر کر لیے،مقبوضہ علاقے میں موجود ہر تاریخی عمارت کو زمین بوس یا جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ آرمینیا کے جبری تسلط سے آزادکرانے کیلئے اگر آذربائیجان کی کوئی اخلاقی مدد کی گئی تو اس میں کیا برائی تھی؟
ادھر مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ پندرہ دنوں میں33 مسلم نوجوانوں کو بھارتی فوج نے اندھا دھند برسٹ برسا کر شہید کر دیا ہے، لگتا ہے کہ کساد بازاری کی اس عالمی منڈی میں شام، عراق، یمن، لیبیا اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا خون ہی سب سے ارزاں ہے۔ ہمارے اندر سے ہی کچھ گھس بیٹھئے شور مچا رہے ہیں کہ ہمیں آذر بائیجان اور افغانستان جیسے پرائے معاملے میں ٹانگ اڑانے کی کیا ضرورت ہے ؟یہ لوگ تو کشمیر کو بھلا کر بھارت سے تعلق بڑھانے کا مشورہ دیتے بھی نہیں ہچکچاتے۔ ایسے ضمیر فروشوں سے تو شوشا کی 75 سالہ بڑھیا زلیخا شاناراوف کابوسیدہ صندوق ہزار درجے بہتر اور متبرک ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved