تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     20-11-2021

کوتاہ نظر لوگ

جس طرح دور اندیشی زیرک افراد اور زندہ قوموں کا شیوہ ہے اسی طرح کوتاہ نظری لاپروا افراد اور مستقبل سے بے نیاز اقوام کا وتیرہ ہے۔ دور اندیش لوگ عشروں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں جبکہ کوتاہ نظر حکومتیں اور عوام ڈنگ ٹپائو قسم کی پالیسیاں بناتے ہیں اور آنے والے کل کا شاذو نادرہی سوچتے ہیں۔ پیش بندی کرنے والے لوگوں کا مستقبل روشن ہوتا ہے جبکہ کوتاہ نظر افراد اور حکومتیں ایک مسئلے سے نکل کر دوسرے پرابلم کا شکار نظر آتی ہیں۔
چلیں چھوٹی چھوٹی چیزوں سے شروع کرتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ پلاسٹک شاپر ہمارے مستقبل کے لیے زہر قاتل ہیں۔ دو سال پہلے حکومت نے پلاسٹک شاپر پر پابندی لگائی۔ دکانوں پر چھاپے پڑے۔ حکومتی دعوے ہوئے کہ اس مضر صحت آئٹم کو ختم کر دیا گیا ہے مگر آج بھی پلاسٹک شاپر کھلے عام استعمال ہو رہے ہیں۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر استعمال پر پابندی ناکام ہوئی تو کیا حکومت نے کوئی متبادل حل سوچا‘ کیا کسی متعلقہ وزیر یا بیورو کریٹ نے تجویز دی کہ پلاسٹک شاپر بنانے والی فیکٹریاں بتدریج بند کر دی جائیں یا انہیں کوئی متبادل کام شروع کرنے کے لیے ترغیب دی جائے۔
پاکستان سٹیل مل، پاکستان ریلوے اور پی آئی اے وہ حکومتی ادارے ہیں جنہیں زندہ رکھنے کے لیے حکومت کروڑوں روپے روزانہ اپنے خزانے سے خرچ کرتی ہے۔ مسئلے کا حل نجکاری ہے۔ حکومت نجکاری کا نام لیتی ہے تو اپوزیشن مزدوروں کے حقوق کے نام پر مخالفت کرتی ہے۔ حکومت خوفزدہ ہو کر پھر ڈنگ ٹپائو پالیسی کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ گاہے بگاہے تنخواہوں کے لیے فنڈز جاری کر دیتی ہے۔ یہ سب ادارے انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل ہیں۔ ان کی آکسیجن کا خرچ عوام اپنے ٹیکسوں سے ادا کرتے ہیں۔ ان اداروں کی نجکاری کئی سال پہلے ہو جانی چاہئے تھی۔ اس صورت میںپاکستان کی اقتصادی حالت اس قدر دگرگوں نہ ہوتی جتنی آج ہے مگر ہم مسلسل یہ سوچتے رہے کہ آج کا دن کسی طرح گزر جائے، کل جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے بلی کا خطرہ ٹل نہیں جاتا بلکہ اس کے شکار ہونے کا چانس بڑھ جاتا ہے۔
فرض کیجئے کہ کوئی بندوق بردار نان سٹیٹ ایکٹر طاقت کے زور پر حکومت سے اپنی بات منوانا چاہتا ہے یا اپنی قوت ظاہر کرنے کے لیے سکول کے معصوم بچوں کو قتل کرتا ہے‘ کئی روز تک شاہراہیں بند کر دیتا ہے‘ پولیس کے کارندے ناحق قتل ہوتے ہیں تو سکہ بند طریقہ تو یہ ہے کہ ہر قانون توڑنے والے سے قانون کے مطابق ڈیل کیا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ نقص ِامن سے وقتی طور پر بچنے کے لیے ایسے تمام جتھوں سے مصالحت کرلی جائے اور اسے اپنی دانش مندی پر محمول کیا جائے۔ ایسے میں دور اندیش قومیں قانون کا دامن نہیں چھوڑتیں۔ نان سٹیٹ ایکٹرز سے مرعوب ہونے والی ریاستیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ اس کی واضح مثالیں ہمیں آج کے مڈل ایسٹ میں نظر آتی ہیں۔
افراد کی سطح پر دیکھیں تو ہم ووٹ اس امیدوار کو دیتے ہیں جو ہماری برادری یا دھڑے کا ہو۔ ہمارے ساتھ تھانے کچہری جانے کو تیار ہو۔ مثل مشہور ہے دھرم جائے مگر دھڑا نہ جائے۔ دھڑے اور برادری سے رشتہ مضبوط کرنے کے لیے عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں تک دی جاتی ہیں۔ اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کرنے والے لوگ صرف اپنی دولت کا سوچتے ہیں قوم کی صحت سے انہیں کوئی غرض نہیں۔ کوتاہ بیں اقوام کے افراد اکثر خود غرض ہوتے ہیں۔ ایسے ممالک میں قومی سوچ خاصی کمزور ہوتی ہے۔ نقل لگا کر ایم بی بی ایس کرنے والا ڈاکٹر تو بن جائے گا لیکن وہ کتنے لوگوں کی زندگی سے کھیلے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ایک ناپختہ انجینئر کیسے پل بنائے گا اس کی سڑکوں کی کوالٹی کیسی ہو گی۔ اس کا تصور بھی خوفناک ہے۔
1980ء کی دہائی کے آغاز میں برطانیہ اور پاکستان کی آبادی مساوی تھی۔ آج ہماری آبادی برطانیہ سے تین گنا زیادہ ہے۔ برٹش ہائی کمیشن جا کر دیکھیں تو پاکستانیوں کی لمبی قطار ویزہ کا انٹرویو دینے کے لیے کھڑی نظر آتی ہے۔1971ء میں بنگلہ دیش کی آبادی ہم سے زیادہ تھی آج وہ تعداد میں ہم سے کم ہیں لیکن فی کس آمدنی میں ہم سے آگے نکل چکے ہیں۔ اسی طرح ایران نے اپنی آبادی کے پھیلائو کو کامیابی سے کنٹرول کیا ہے۔ بنگلہ دیش اور ایران دونوں میں علمائے کرام نے فیملی پلاننگ پروگرام کا ساتھ دیا ہے۔ برطانیہ، ایران اور بنگلہ دیش کو اس بات کا ادراک تھا کہ آبادی کا سیلاب معاشی ترقی کے ثمرات کو ہڑپ کر جائے گالہٰذا ان ملکوں نے آبادی کو کنٹرول کے منصوبے بنائے اور ان پر سختی سے عمل کیا۔ پاکستان میں بھی ہمیں آبادی کی بے ہنگم گروتھ کا علم تھا اور اس کے نتائج کا بھی لیکن اس سیلاب کو روکنے کیلئے ہم نے طویل مدت کی کوئی سنجیدہ منصوبہ بندی نہیں کی۔ ہمارے ہاں صنفی مساوات کا فقدان ہے کئی جوڑے ولی عہد کی تلاش میں بیٹیاں پیدا کرتے چلے جاتے ہیں حالانکہ یہ بات بھی فی زمانہ درست نہیں رہی کہ صرف لڑکے کماتے ہیں یا یہ کہ لڑکے والدین کا زیادہ خیال رکھتے ہیں دراصل ہوا یہ ہے کہ ہمارے ہاں جہالت اور غربت نے مل کر انتہا پسندی کے جن کو بوتل سے نکال دیا ہے۔ انتہا پسند لوگ منطقی سوچ سے دور چلے جاتے ہیں۔ آج کے پاکستان کا یہی مسئلہ ہے۔
ہمارے خود غرض حکمرانوں نے کوئی نہ کوئی دلکش نعرہ اپنے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے استعمال کیا۔ ایوب خان بنیادی جمہوریت لے کر آئے اور ترقی کا عشرہ دھوم دھام سے منایا، بعد میں پتہ چلا کہ ترقی صرف بائیس خاندانوں نے کی ہے۔ بھٹو صاحب روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ لے کر آئے جو بہت مقبول ہوا مگر نہ کسی کو روٹی مل سکی اور نہ ہی کپڑا اور مکان۔ ضیاء الحق نے کہا کہ میری وجہ سے اسلام آئے گا لہٰذا ریفرنڈم میں مجھے کامیاب کریں۔ پیپلزپارٹی 2008ء میں امریکہ کی مدد سے این آر او کے کندھے پر بیٹھ کر اقتدار تک پہنچی۔ نوازشریف نے تیسری بار وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کے لیے اٹھارہویں ترمیم پر آنکھیں بند کرکے دستخط کئے اور مرکز کو کمزور کر دیا۔ یہاں پر کوتاہ نظر اور خود غرض حکمران اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے مختلف لبادے اوڑھتے رہے۔
ہمارے ہاں اقتصادی فیصلے سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔ ایک پاور فل سیاست دان کو خوش کرنے کے لیے لاہور، اسلام آباد موٹروے کو ان کے علاقے سے گزارا گیا۔ نوازشریف اور بینظیر بھٹو دس سال تک باریاں لیتے رہے لیکن ایک بھی ڈیم شروع نہیں کیا۔ میں پچھلے ہفتے لاہور سے ہو کر آیا ہوں وہاں ٹریفک اتنی زیادہ ہے کہ کار چلانا مشکل ہے۔ دھواں چھوڑتی ہوئی گاڑیاں سموگ میں اضافہ کر رہی ہیں۔ بلندو بالا عمارتیں بن رہی ہیں لیکن پارکنگ کا کوئی بندوبست نہیں۔ فضائی آلودگی میں لاہور پوری دنیا کا چیمپئن بن گیا ہے۔سعودی عرب کے زیر تعمیر شہر نیوم میں کوئی ذاتی گاڑی نہیں ہوگی۔ سب لوگ بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے منزل مقصود تک جائیں گے اور یہ بجلی سے چلیں گی یعنی آلودگی نہ ہونے کے برابر ہوگی۔وہاں کے حکمران دور اندیش ہیں جبکہ ہم پلاسٹک شاپر چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ہماری آئندہ نسلوں کا کیا بنے گا اس کی کسی کو پرواہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved