2008ء سے پہلے دو دہائیوں پر مشتمل سرمایہ داری کے معاشی ابھار نے سطح کے نیچے پنپنے والے سماجی تضادات کوعارضی طور پر دبائے رکھا، لیکن یہ تضادات ختم نہیں ہوپائے۔معاشی خوشحالی کے ثمرات کی معاشرتی تقسیم انتہائی غیر مساوی تھی۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق امیر ترین 2فیصد افراد دنیا کی 50 فیصد دولت پر قابض ہیںجبکہ غریب ترین 50فیصد آبادی کا عالمی دولت میں حصہ بمشکل 1فیصد ہے۔2008ء میں شروع ہونے والے عالمی مالیاتی بحران نے سرمایہ داری کے مکروہ چہرے کو عیاں کر کے بطور نظام اس کی متروکیت کو ثابت کر دیا ہے۔یونان پچھلے چار سال سے شدید معاشی بحران اورسماجی انتشار کا شکار ہے۔عالمی سرمایہ داری کے انہدام نے اگرچہ ہر ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کئے لیکن یونان سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ایک کروڑ دس لاکھ آبادی والے اس ملک میں 40لاکھ افراد خط غربت سے نیچے گر چکے ہیں۔نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 62فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔وحشیانہ کٹوتیوں اور ریاست کے فلاحی منصوبوں کے خاتمے نے آبادی کے بڑے حصے کو علاج، تعلیم اور اس طرح کے دوسرے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا ہے۔ یہ اصلاحات اور حقوق محنت کشوں نے ریاست اور حکمرانوں سے لمبے عرصے کی جدوجہد اور طبقاتی لڑائیوں کے بعد حاصل کئے تھے۔عدم استحکام اور بدتر ہوتے ہوئے معاشی حالات کے باعث خودکشیوں کی شرح میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔سرمایہ داری کی اس کھلی بربریت کے خلاف عوام میں غم و غصہ اور بغاوت پنپ رہی ہے۔پچھلے چار سالوں میں 29ملک گیرعام ہڑتالیں ہوچکی ہیں جن میں سے کئی دو دنوں پر مشتمل تھیں۔ یونان جیسے یورپی ممالک کے بارے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ انقلاب اپنے پہلے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔یہ عمل غیر ہموار ہے ۔ جنوبی یورپ کے ممالک میںاس عمل کی رفتار اور شدت نسبتاً تیز ہے‘ جبکہ ایسے ممالک میں یہ عمل سست روی کا شکار ہے جہاں معاشی ابھار کے دور میں سرمائے کا اجتماع زیادہ تھا۔ہر دو صورتوں میں معاشی ابتری یورپ کو سماجی انقلاب کی سمت میں لے جارہی ہے۔محنت کشوں اور نوجوانوں میں جدوجہد کے لئے عزم اور حوصلے کی کمی نہیں ہے لیکن فی الوقت وہ ایک انقلابی پروگرام سے محروم ہیں۔وہ سماج اور نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں لیکن اس مقصد کے لئے انقلابی لائحہ عمل اور قیادت میسر نہیں ہے۔ایک مضبوط مارکسی قیادت کی موجودگی میںیونان میں کامیاب انقلابی سرکشی بہت جلد اور نسبتاً آسانی سے برپا کی جاسکتی ہے۔محنت کشوں نے بار بار عام ہڑتالیں برپا کیں لیکن خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔اس ناکامی نے تحریک میں عارضی جمود اور کسی حد تک مایوسی کو جنم دیا ہے۔عمومی مزاج، بہرحال،انقلابی ہے۔اصلاح پسند ٹریڈ یونین رہنما اور سٹالنسٹ قیادت محنت کش طبقے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں‘ لیکن ریاستی براڈ کاسٹنگ کمپنیوں کی بندش کے خلاف محنت کشوں کی جدوجہد ثابت کرتی ہے تحریک کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے اور عوام پسپاہونے کوتیار نہیں ہیں۔ سماراس کی دائیں بازو کی حکومت کھوکھلی اور کمزور ہے۔ واقعات کے تھپیڑے اورایک کے بعد دوسرا بحران اسے ادھر اُدھر ہانک رہے ہیں۔ اسے خود نہیںپتا کہ وہ کدھر جارہا ہے۔حکومت نہایت نحیف کیفیت میں ہے اور کچھ کرنے سے قاصر ہے۔اس میں سیاسی تقسیم بھی موجود ہے اور یہ زیادہ عرصے تک نہیں چل پائے گی۔ جلد یا بدیر حکمران طبقات کو کانٹوں سے بھرا اقتدار کا تاج سیریزا کے لیڈر سپراس کے سر پر رکھنا پڑے گا۔اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ حکمران طبقے کا ایک دھڑا رجعت کی طرف مائل ہونا چاہے گا، لیکن حکمران بخوبی آگاہ ہیں کہ حد سے زیادہ ریاستی جبر خانہ جنگی کا باعث بن سکتاہے جس میں انہیں اپنی فتح کا مکمل یقین نہیں ہے۔چنانچہ وہ اصلاح پسندی کو ترجیح دیں گے۔محنت کشوں کو اصلاح پسندی کے اس عمل میں مزید تلخ تجربات سے گزرنا پڑے گا اور وہ کئی اسباق سیکھیں گے۔سیریزا کی حکومت کے سامنے دو متضاد راستے ہوں گے: بورژوازی کے خلاف کھڑے ہوکر محنت کش طبقے کے مفادات کی حفاظت کی جائے یا پھر بورژوازی کے دبائو میں آکر دائیں بازو کی وحشیانہ معاشی پالیسیوں کو جاری رکھا جائے۔کوئی تیسرا راستہ موجود نہیں۔ سپراس کی مقبولیت کی وجہ کٹوتیوں کے خلاف اس کا جرات مندانہ موقف تھا لیکن جوں جوں وہ اقتدار کے قریب پہنچتا گیا، ’’اعتدال پسندی ‘‘اس کے نقطہ نظر اور لب ولہجے میں سرایت کرتی گئی۔فی الوقت وہ بہت زیادہ وعدے نہیں کررہا تاکہ حکمران زیادہ خوفزدہ نہ ہوں اور عوام زیادہ امیدیں وابستہ نہ کریں۔’درمیانے راستے‘ پر یقین رکھنے والی اصلاح پسند قیادتوں کا یہ پرانا طریقہ کار ہے؛ تاہم عوام امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔سیریزا کی سربراہی میں بائیں بازو کے اتحاد کی حکومت سرمایہ داروں کے خلاف ضروری اقدامات کرنے میں ناکام رہی تو اس سے عوام میں بد دلی اور مایوسی پھیلے گی جو دائیں بازو کی حکومت کا راستہ ہموار کرے گی۔ایسی حکومت New Democracy اور گولڈن ڈان (جو کہ ایک نیو فاشسٹ پارٹی ہے) کے اشتراک سے قائم ہوسکتی ہے۔ان حالات میں گولڈن ڈان کا جھکائو مزید دائیں طرف جبکہ KKE (کمیونسٹ پارٹی) کا جھکائو مزید بائیں طرف ہو جائے گا۔ ایک بات طے ہے کہ جب تک سرمایہ داری کو اکھاڑا نہیں جاتاایک کے بعد دوسری غیر مستحکم حکومت آئے گی۔بائیں بازو کے اتحاد ، دائیں بازو کے اتحادوں کا راستہ ہموار کریں گے۔ مختصر عرصے کا اقتدار ہی گولڈن ڈان کو اس کے درمیانے طبقے کے حامیوں کے سامنے بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہوگا؛ تاہم یونان میں بڑے پیمانے کی رجعت کے امکانات مستقبل قریب میں کم ہیں۔زیادہ امکانات اس بات کے ہیں کہ دائیں بازو کی حکومت کا دور اقتدار بحرانوں سے بھرپور ہوگا جوکہ New Democracyکے اندر نئی پھوٹ کا باعث بنے گا۔ عین ممکن ہے کہ New Democracyمیں گولڈن ڈان کی باقیات کی سرایت زیادہ خطرناک دائیں بازو کو جنم دے۔ہر صورت میں یونان کا حکمران طبقہ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے آگے بڑھے گااور رفتہ رفتہ عوام دشمن رجعتی قوانین نافذ کر کے جمہوری حقوق محدود کئے جائیں گے۔کھلی آمریت سے پہلے پارلیمانی بونا پارٹ ازم کا راستہ ہموار کیا جائے گا۔لیکن رد انقلاب کی حتمی فتح سے پہلے سماجی دھماکوں اور انقلابی ابھاروں کے کئی سلسلے آئیں گے جن میں بار بار محنت کش طبقے کو اقتدار پر قبضے کے مواقع ملیں گے۔ تحریک کی شعوری سطح اور تاریخی فرائض کے مابین تضاد موجود ہے۔ صرف عوام کے تجربات اس تضادکو حل کرسکتے ہے۔عوامی شعورعمومی طور پر واقعات کے پیچھے چلتا ہے لیکن غیر معمولی ادوار میں یہ جست لگا کر واقعات سے آن ملتا ہے۔اسی عمل کو انقلاب کہا جاتا ہے۔انقلاب کا اصل مطلب عوام کے رویوں میں برق رفتار ترقی پسندانہ تبدیلی ہے۔سماجی دھماکے یک دم، بنا کسی انتباہ یا توقع کے وقوع پزیر ہو سکتے ہیں۔ترکی اور برازیل میں یہی ہوا۔جیسے جیسے بحران بڑھتا ہے عوام کا مزاج بدلتا ہے۔آج ہر طرف حکومتی کٹوتیوں کے خلاف ایک رد عمل موجود ہے۔حکمران طبقے کے باشعور حصے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں۔عوام کی برداشت کی حدود ہوتی ہیںاور برداشت اب ان حدود سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ معاشی ابھار کے عہد میں زیادہ کام اور استحصال کے باوجود محنت کش اوور ٹائم اور اس طرح کے دوسرے انفرادی طریقوں سے گزر بسر کر لیتے ہیں۔اب یہ بھی ممکن نہیں رہا۔معیار زندگی میں بہتری تو بہت دور کی بات اسے گرنے سے روکنے کے لئے بھی اب جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔محنت کشوں کی نفسیات میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔غم و غصہ اندر ہی اندر پک رہا ہے۔ایک کے بعد محنت کشوں کی دوسری پرت جدوجہد میں شامل ہورہی ہے۔اساتذہ، حکومتی ملازمین، ڈاکٹر، نرسیں اور اس طرح کے دوسروں شعبوں کے محنت کش‘ جنہیں ماضی میں مراعات یافتہ سمجھا جاتا تھا‘ اب روایتی پرولتاریہ کے شانہ بشانہ اس نظام کے خلاف جنگ میں شامل ہورہے ہیں۔لمبے عرصے تک ورزش یا مشق نہ کرنے والے کھلاڑی کے پٹھے آرام پسند ہوجاتے ہیں۔محنت کش طبقے کو بھی ’طبقاتی امن‘کے لمبے عہد کے بعد بڑی لڑائی کی تیاری کے لئے وقت درکار ہے۔ عوامی ہڑتالیں اور مظاہرے دراصل بڑے واقعات کی تیاری ہی ہیں۔اس بحران کے آغاز پر بہت سے محنت کش ششدر تھے کیونکہ انہیں اس کی توقع نہیں تھی۔وہ نفسیاتی صدمے سے دوچار تھے اور بعض صورتوں میں تو کوئی رد عمل دکھانے سے بھی قاصر تھے۔لیکن حالات اب بدل رہے ہیں۔ایک کے بعد دوسرے ملک میں محنت کش اور نوجوان جدوجہد کا راستہ اختیار کر رہے ہیں اور اس جدوجہد کے تجربات انہیں طبقاتی شعور عطا کر رہے ہیں۔ آنے والے عرصے میں اس نظام کے اندر رہتے ہوئے بہتری اور اصلاح پسندی کی خوش فہمیاں محنت کشوں کے شعور سے دھل جائیں گی۔وہ انقلابی نتائج اخذ کریں گے اور محنت کشوں کی عوامی تنظیموں میں انقلابی تطہیر کا عمل شروع ہو جائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved