آج کل تو جوش ملیح آبادی کے شعر لاہور پر صادق ہیں:
بخارات و دود و دخان و غبار
ہوا پر مسلط، سروں پر سوار
بلا در بلا و بلا در بلا
رفیقو رندھا جا رہا ہے گلا
زمیں تیرگی تیرگی تیرگی
ارے روشنی روشنی روشنی
ایک جملے میں کہا جائے تو یہ کہ ہوا میں ہر طرف عجیب سرمئی، ملگجی اداسی ہے۔ غبار اور گرد مل کر نومبر کی فضا میں لاہوریوں کے لیے عذاب جاں بنے ہوئے ہیں۔ یہ بارش کے دن نہیں اس لیے یہ امید بھی کم ہے کہ جلد یہ آلودگی ختم ہوجائے گی۔ ہر چیز ملگجی ہوجائے تو موسم اور منظر ہی ختم ہوجاتا ہے۔ یقین کریں کہ لاہور میں ایئر کوالٹی انڈیکس 373 ہے اور اس طرح سموگ میں دہلی سے آگے، جہاں بدترین سموگ ہوا کرتی ہے۔ دہلی میں انڈیکس 322 ہے۔ لاہور کے حوالے سے کل ایک کارٹون کہیں دیکھا کہ ایک کالا طوطا اپنے ساتھ شاخ پر بیٹھے دو سبز طوطوں سے معذرتی انداز میں کہہ رہا ہے کہ بھائیو! یقین کرو میں کوّا نہیں، تم جیسا ہی سبز طوطا ہوں‘ بس ابھی لاہور سے اُڑ کر آپ کے درمیان پہنچا ہوں۔
ایک عشرے سے سموگ اور آتی سردیاں بھی لازم و ملزوم ہیں۔ میری پیدائش لاہور کی ہے اور ساری عمر یہیں گزری ہے لیکن یہ موسم اور یہ لفظ کم و بیش ایک عشرے سے لاحق ہوا ہے ورنہ یہ ہمارے موسموں میں شامل نہیں تھا۔ فضا کا یہ رنگ لاہور نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا لیکن اب ہر سال دیکھنا پڑتا ہے۔ سموک یعنی دھواں اور فوگ یعنی دھند کے لفظوں کو جوڑکر بنایا گیا یہ لفظ سموگ لغت میں کافی کم عمر ہے اور یہ مسئلہ زیادہ تر پاکستانی پنجاب، بھارتی پنجاب، ہریانہ اور ملحقہ علاقوںمیں شدت سے ہے۔ وہ سارا علاقہ جو دھان کی فصل اٹھاتا ہے سموگ کا منبع ہے۔ دراصل چاول کی فصل کاٹی جاتی ہے تو اوپر کا بڑا حصہ تو کاٹ لیا جاتا ہے لیکن نیچے ڈنٹھلیں بچ جاتی ہیں جو پورے کھیت میں اپنی جڑیں گاڑے کھڑی رہتی ہیں۔ یہ مڈھی کہلاتی ہیں۔ اسی طرح فصل اٹھانے کے دوران پورے کھیت میں جو بھوسہ بکھرتا ہے اسے پیال کہتے ہیں۔ نئی فصل بیجنے کا موسم یعنی اکتوبر‘ نومبر کا موسم آتا ہے تو کھیت سے یہ دونوں چیزیں صاف کرنا ضروری ہوتی ہیں۔ اس کے بغیر نئی فصل کا بیج نہیں ڈالا جا سکتا۔ اب یہ محنت اور مشقت طلب کام ہے اور آسان حل کسانوں کے پاس یہ ہے کہ خشک پیال اور مڈھی کو آگ لگا دی جائے۔ آگ انہیں صرف جلا کر راکھ ہی نہیں کرتی، ان کے جلنے سے زمین کی زرخیزی میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور اگلی فصل میں مدد ملتی ہے؛ چنانچہ اس موسم میں بھارت کے پنجاب اور ہریانہ کے صوبے اور پاکستانی پنجاب کے میدان شعلے اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ ناسا کی کھینچی ہوئی وہ تصویر یاد آتی ہے جس میں بھارت اور پاکستان کے یہ سرحدی علاقے سرخ ہیں اور یہ سرخی آگ کی ہے جو ان میدانوں میں لگی رہتی ہے۔ بہت بڑی مقدار کا یہ دھواں ان میدانوں کے اوپر فضا میں چھتری کی طرح چھا جاتا ہے۔
لیکن یہ دھواں کب تک میدانوں کے اوپر رہ سکتا ہے۔ تیز ہوائیں اسے بکھیرتی ہیں اور کبھی اسے دھکیل کر پاکستان میں اور کبھی دہلی اور دیگر شہروں کے اوپر پہنچا دیتی ہیں۔ ہوا میں نمی، ملوں اور فیکٹریوں کی فضائی آلودگی، گاڑیوں کا دھواں اور دیگر عناصر اس دھویں کے ساتھ ملتے ہیں اور سموگ بنا دیتے ہیں۔ وہ سموگ جو نہ صرف صحت کیلئے خطرناک ہے بلکہ حد نظر کو بھی اس حد تک محدود کردیتی ہے کہ پروازیں بھی منسوخ کرنا پڑتی ہیں اور ٹرینیں روک لی جاتی ہیں۔ سڑکوں پر سفر بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ ہوا کی یہ آلودگی سرحد اور اس کے قریبی علاقوں میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ آلودگی ماپنے کا جو بین الاقوامی معیار ہے اسے ایئر کوالٹی انڈیکس، (اے کیو آئی) کہتے ہیں۔ اگر یہ صفر سے 50 کے درمیان ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ہوا کی کوالٹی اچھی ہے۔ 51 سے 100 کے درمیان کا مطلب ہے درمیانے درجے کی کوالٹی۔ 101 سے 150 کا مطلب ہے کہ سانس کے مریضوں اور حساس لوگوں کیلئے خطرہ۔ 151 سے 200 اے کیو آئی کا مطلب ہے کہ عام لوگوں کی صحت کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ اب ذرا غور کیجیے کہ اے کیو آئی لاہور میں اس وقت 373 کو پہنچا ہوا ہے جبکہ دو سال قبل واہگہ میں یہ اے کیو آئی 334، ڈی ایچ اے میں 203، اقبال ٹاؤن میں 196تھا‘ جبکہ لاہور کا اوسط اے کیو آئی 160 تھا۔ ایک بار لاہور کا اے کیو آئی 580 تک بھی پہنچ چکا ہے۔ سرحد کے دوسری طرف صورتحال زیادہ خراب ہے۔ بہت سے شہروں میں سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے اور چیخ و پکار شروع ہوجاتی ہے۔ اس وقت دہلی میں اے کیو آئی 322 ہے۔ گزشتہ سال دہلی میں اے کیو آئی 392 تھا جبکہ مختلف شہروں میں 411 سے 432 تک پہنچا ہوا تھا۔
لاہور میں اس بار سموگ وقت سے پہلے شروع ہوگئی یعنی اکتوبر کے وسط میں۔ اس کی ایک بڑی وجہ شہر میں تین جگہ ہونے والی کھدائیاں اور تعمیر کا کام ہے۔ گلاب دیوی ہسپتال کے قریب انڈر پاس، شیرانوالہ گیٹ کے قریب پل کی تعمیر، اور شاہکام چوک فلائی اوور کی وجہ سے لاہور میں گردوغبار سموگ سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا۔ یہ کالم توبنیادی طور پر لاہورکی آلودگی پر ہے لیکن لگے ہاتھوں ان تینوں منصوبوں کی بات بھی کرتے چلیں۔ شاہکام چوک فلائی اوور سوا چار ارب روپے سے بنایا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ دس کلومیٹر لمبی سڑکوں کا نیٹ ورک ہوگا اور اسی منصوبے میں روہی نالے پر ایک پل اور ڈیفنس روڈ کو دہرا بنانے کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ شیرانوالہ گیٹ فلائی اوور ایک کلومیٹر لمبا پل یعنی لاہور کا سب سے لمبا پل ہوگا۔ لگ بھگ پانچ ارب روپے کا منصوبہ ہے۔ 400 میٹر بلند پل سے ایک لاکھ اکیس ہزار گاڑیاں ہرروز گزرا کریں گی۔ اسی طرح گلاب دیوی ہسپتال انڈر پاس جو قریب قریب دوارب روپے کا منصوبہ ہے، فیروزپور روڈ سے بہت سی ٹریفک کی مشکلات کا حل بتایا جاتا ہے۔ خیر ہمیں اس پرکیا اعتراض ہوسکتا ہے بلکہ خوشی ہے کہ ٹریفک کے کچھ منصوبے شروع تو ہوئے اور شروع ہوئے ہیں تو مکمل بھی ہوجائیں گے کہ اب آئندہ سالوں میں الیکشن بھی توآنے ہیں۔ ووٹ مانگنے کیلئے بھی تو کچھ دکھانا پڑے گا۔
لیکن اس ہوا پر مسلط سروں پر سوار دھویں کا کیا کریں جس کا کوئی حل شہریوں کے پاس نہیں ہے۔ سموگ سے بچنے کیلئے ہندوستان اور پاکستان دونوں حکومتوں نے کسانوں پر مڈھی اور بھوسے کوآگ لگانے پر پابندیاں عائد توکر رکھی ہیں لیکن کوئی مانتا ہے بھلا؟ آگ ہی آسان حل ہے کسانوں کے پاس۔ جو حل حکومتیں تجویز کرتی ہیں اس کیلئے کسان وسائل کہاں سے لائیں اور پھر یہ واحد سبب بھی نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 43 فیصد سموگ گاڑیوں کے دھویں سے، 25فیصد فیکٹریوں کے دھویں سے اور 20فیصد زراعت سے بنتی ہے۔ اب ایک عام آدمی کیا کرسکتا ہے؟ کیا گاڑی چلانا چھوڑ دے جو پٹرول کی مہنگائی کی وجہ سے پہلے ہی مشکل ہوتی جارہی ہے؟ فیکٹریوں اور کھیتوں کا وہ کیا کرے؟ اور سب سے بڑا مسئلہ اپنی اور اپنے بچوں کی صحت کا کیا کرے؟ یہ حل کہ شہری ماسک لگا کر نکلا کریں، جھنجھلا دیتا ہے۔ اس لیے کہ دوسال سے کووڈ کے ماسک لگا لگا کر تھک جانے والے لوگ اب سموگ کیلئے ماسک پوشی نہیںکرنا چاہتے۔ کوئی آسان حل بتائیں کہ ڈیڑھ کروڑ آبادی والا لاہوریہ وقت خیروعافیت سے گزار لے۔