لُبِّ لُبَاب: لُبّ کے معنی ہیں: ''سمجھ، عقل، دل‘‘، اس کی جمع ''اَلْبَابْ‘‘ ہے اور اس کے مزید معنی ہیں: ''مغز، مِینگ، خالص‘‘، ان معانی میں اس کی جمع ہے: ''لُبُوبْ‘‘۔ ایک صاحب ''لَبِّ لُباب‘‘ بول رہے تھے، یہ غلط ہے۔ لُبِّ لُباب کے معنی ہیں: ''کسی بحث کا مغز، نچوڑ، جوہر یا خلاصہ‘‘، قرآنِ کریم میں اہلِ عقل و خِرد کو ''اُوْلُو الاَلْبَاب‘‘ کہا گیا ہے۔ علامہ علاء الدین علی بن محمد خازن نے قرآنِ کریم کی تفسیر ''لُبابُ التّاوِیل فِیْ مَعانِی التَّنزیل‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے، جو ''تفسیرِخازن‘‘ کے نام سے معروف ہے، اس کے معنی ہیں: ''قرآنِ کریم کے کلمات کی تاویل کا مغز یا جوہر‘‘۔ تاویل کے معنی ہیں: ''ایک کلمہ جو کئی معانی کا احتمال رکھتا ہے، دلائل کی بنیاد پر اُن میں سے کسی ایک معنی کو ترجیح دینا‘‘۔
قلع قمع: ''قَلَع‘‘ کے معنی ہیں: ''ڈھانا، گرانا، بیخ کنی‘‘ اور ''قَمَع‘‘ کے معنی ہیں: ''توڑنا پھوڑنا، انہدام، بیخ کنی‘‘۔ پس ''قَلع قَمع‘‘ کے معنی ہیں: ''کسی چیز کو ڈھا دینا، جڑ سے اکھیڑ دینا، توڑ پھوڑ کرنا‘‘۔ جبکہ ''قَلعہ‘‘ کے معنی ہیں: ''گڑھ، کوٹ، کوٹلہ، حِصار‘‘ یا ''فصیل کے اندر محفوظ عمارت جس میں بادشاہ حاکم یا فوج رہے‘‘۔ کئی لوگ ''قَلَعْ‘‘ اور ''قَلْعَہ‘‘ کو ''ق‘‘ کی زیر کے ساتھ بولتے ہیں، یہ درست نہیں ہے۔
قَمقَمَہ: یہ لفظ دونوں قاف کی زبر کے ساتھ ہے، اس کے معنی ہیں: ''چھوٹی قِندیل‘‘، کئی لوگ اسے دونوں قاف کی پیش کے ساتھ بولتے ہیں، یہ درست نہیں ہے۔
مُنْتَخَب: خ کے زبر کے ساتھ ''مُنْتَخَب‘‘ کے معنی ہیں: ''چنا ہوا‘‘، اکثر لوگ اسے خ کی زیر کے ساتھ''مُنتَخِب‘‘ بولتے ہیں، یہ درست نہیں ہے۔
غَلغَلہ: دونوں غین کے زبر کے ساتھ ''غَلغَلہ‘‘ کے معنی ہیں: ''شور و غوغا، ہنگامہ‘‘ اور دونوں غین کی پیش کے ساتھ ''غُلْغُلہ‘‘ کے معنی ہیں: ''دھوم دھام، دھوم مچانا‘‘۔ الغرض کسی حد تک یہ دونوں ہم معنی یا قریب المعنی ہیں اور دونوں طرح سے پڑھنا درست ہے۔
مُفاہَمَتی اور مُزَاحَمَتی: ان دونوں الفاظ کا صحیح تلفظ بالترتیب ''ھ‘‘ و ''م‘‘ اور ''ح‘‘ اور ''م‘‘ کے زبر کے ساتھ مُفَاہَمَتی اور مُزَاحَمَتی ہے، یہ بابِ ''مُفاعَلہ‘‘ کا مصدر ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک اینکر ان الفاظ کو مستقل ''مُفاہَمْتی اور مُزاحَمْتی‘‘ بولتے ہیں، جو درست نہیں ہے۔
مُختَلِف: ''ت‘‘ کے زبر کے ساتھ اس کاصحیح تلفظ ''مُفْتَعِلٌ‘‘ کے وزن پر ''مُختَلِف‘‘ ہے، جبکہ پنجاب کے دوست اس کا تلفظ ''مُخْتْلِف‘‘ کرتے ہیں، یعنی ''ت‘‘ ساکن محسوس ہوتی ہے اور اس طرح دو ساکن حروف جمع ہو جاتے ہیں، جو درست نہیں ہے، بس ذرا سی توجہ کی ضرورت ہے۔
دَرْیَا بُرْد: ''وہ زمین جو دریا کے سیلاب سے ڈوب گئی ہو یا بہہ گئی ہو‘‘، دریا بُرد ہونے کے معنی ہیں: ''تیز بہائو کی وجہ سے دریا کے کناروں سے زمین کا کٹ کر دریا میں بہہ جانا‘‘ یا ''دریا کا زمین کو بہا لے جانا‘‘۔ ایک بزرگ صاحبِ طرز کالم نگار اور تجزیہ کار نے ''ب‘‘ کی زبر کے ساتھ ''دریا بَرد‘‘ کا لفظ استعمال کیا، انہیں زبان و بیان پر کافی عبور ہے، ان کی معلومات بھی کافی وسیع ہیں، ہمارا حُسنِ ظن یہ ہے کہ سبقتِ لسانی سے ایسا ہو گیا، لیکن دوسروں کی اصلاح کے لیے یہ سطور لکھی جا رہی ہیں۔
مَسْخ: عربی کا اصول ہے: ''التقائے ساکنین ممنوع ہے‘‘، یعنی ایک لفظ یا ایک کلمے میں ایک ساتھ دو ساکن حروف نہیں آ سکتے، لہٰذا ہمارے پنجاب کے دوست ایک کو حرکت دیدیتے ہیں؛ چنانچہ وہ ''مَسْخ‘‘ کو ''مَسَخْ‘‘ اور ''وَقْف‘‘ کو ''وَقَف‘‘ اور ''وَقْت‘‘ کو ''وَقَت‘‘ بولتے ہیں‘‘، یہ درست نہیں ہے، اصل میں ان الفاظ میں دوسرا حرف بالترتیب سین اور قاف ساکن ہیں، جبکہ ان کلمات کے آخری حروف بالترتیب خاء، فاء اور تاء پر وقف ہوتا ہے، اس لیے اُن پر حرکت نہیں پڑھی جاتی۔
چِتکُبرا: ''چ‘‘ کی زیر اور ''ک‘‘ کے پیش کے ساتھ یہ ہندی لفظ ہے‘ اس کے معنی ہیں: ''داغ دار، دھبے والا، جس پر سیاہ و سفید لکیریں ہوں، اَبلق‘‘۔ ایک سوشل میڈیا سکالر ''چ‘‘ کے زبر کے ساتھ ''چَتکُبرا‘‘بول رہے تھے‘ یہ غلط ہے۔
اُسْتُوَار: ''الف‘‘ اور ''ت‘‘ کے پیش کے ساتھ یہ لفظ ''اُسْتُوَار‘‘ ہے، اس کے معنی ہیں: ''مضبوط، پائیدار، مستحکم‘‘، سوشل میڈیا پر ایک صاحب الف کی زیر کے ساتھ ''اِستوار‘‘ بول رہے تھے، یہ غلط ہے۔
اُزْبِکِسْتَان: ''الف‘‘ کے پیش اور ''ب‘‘ کی زیر کے ساتھ یہ وسطی ایشیا کے ایک ملک کا نام ہے، سوشل میڈیا پر ایک بزرگ تجزیہ کار ''الف‘‘ اور''ب‘‘ کے زبر کے ساتھ ''اَزْبَکِسْتان‘‘ بول رہے تھے، ہم نے چیک کیا تواس ملک کانام ''اُزْبِکِسْتَان‘‘ہے۔
بلا شرکتِ غیرے: یعنی کسی دوسرے کی شراکت کے بغیر، جیسے کوئی کہے: ''میں بلا شرکتِ غیرے اس کا مالک ہوں‘‘، سوشل میڈیا پر ایک صاحب ''غیرے‘‘ کی جگہ ''غیر‘‘ بول رہے تھے، جو معنوی اعتبار سے تو غلط نہیں ہے، لیکن اردو محاورے کے اعتبار سے درست نہیں ہے۔ ''غیرے‘‘ میں ''ے‘‘ وحدت کی ہے، یعنی کسی ایک کی بھی شرکت کے بغیر۔
مُتَنَازَع: اس کے معنی ہیں: ''وہ چیز جس پر جھگڑا ہو، جھگڑا کیا گیا‘‘، جس چیز کی بابت جھگڑا ہو، اُسے''مُتَنَازَعَہ فِیْہ‘‘بھی کہتے ہیں، جبکہ ''مُتَنَازِعْ‘‘ کے معنی ہیں: ''ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑا کرنے والے‘‘، بعض حضرات یہ لفظ بولتے ہوئے اس معنوی فرق کا لحاظ نہیں کرتے، اس کے نتیجے میں بعض اوقات اس لفظ کا صحیح استعمال نہیں ہوتا۔
اِبلاغ: ''ب‘‘ کے زبر کے ساتھ''بَلاغ‘‘ کے معنی ''پیغام‘‘ کے ہیں ا ور الف کی زیر کے ساتھ اِبلاغ کے معنی ہیں: ''پیغام یا خبر پہنچانا‘‘، اسی سے ''ذرائعِ اِبلاغ‘‘ آیا ہے، اسے ماس کمیونیکیشن بھی کہتے ہیں، سوشل میڈیا پر ایک صاحب ''الف‘‘ کے زبر کے ساتھ ''اَبلاغ‘‘ بول رہے تھے‘ یہ غلط ہے۔
مُؤَیّد: یا کی زیر کے ساتھ مُؤَیِّد کے معنی ہیں: ''کسی شخص یا موقف کی تائید کرنے والا‘‘ اور یا کی زبر کے ساتھ ''مُؤَیَّد‘‘ کے معنی ہیں: ''جس کی تائید کی گئی ہو‘‘۔
ہمشیر: اس کے لفظی معنی ہیں: ''ایک ماں کا دودھ پینے والے‘‘، یعنی بہن بھائی، اپنی اصل کے اعتبار سے یہ لفظ Common Gender یعنی مذکر و مؤنث‘ دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، لیکن ہمارے عرف میں یہ ''بہن‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے، تنویر سپرا کا شعر ہے:
غموں کی دھوپ میں برگد کی چھاؤں جیسی ہے
مرے لیے مری ہمشیر ماؤں جیسی ہے
میر انیس کے مرثیے کا شعر ہے:
سمجھاتی نہیں بھائی کو اے شاہ کی ہمشیر
مسلم کا خط آ لے تو کریں کوچ کی تدبیر
جمیل مظہری کے مرثیے کا شعر ہے:
ہاتھ رکھیے کہ ٹھہرتا نہیں ہمشیر کا دل
ہے یہ زینب کا کلیجہ، نہیں شبیر کا دل
لہٰذا ہماری نظر میں بہن کے لیے ''ہمشیر‘‘ کا لفظ زیادہ فصیح ہے؛ اگرچہ ہمارے ہاں ''ہمشیرہ‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے، ہماری دلیل یہ ہے کہ لفظِ ''ہمشیر‘‘، ''ہم‘‘ اور ''شِیر‘‘ کا مرکب ہے اور مرکب کی تانیث ''ہ‘‘ کے ساتھ نہیں بنائی جاتی، جیسے: ہم مسلک، ہم مذہب، ہم مشرَب، ہم جماعت، ہم راز، ہم درد، ہم سفر وغیرہ، بس اضافت سے تذکیر و تانیث کا فرق واضح ہو جاتا ہے، جیسے: میرا ہمسفر، میرا ہمدرد وغیرہ، اسی طرح میری ہم سفر اور میری ہمدرد وغیرہ؛ تاہم ہمارے ہاں چونکہ ہمشیرہ بکثرت استعمال ہوتا ہے، اس لیے اسے بھی فصیح مانا جائے گا۔
ہماری تجویز یہ ہے کہ یورنیورسٹیوں میں اردو لٹریچر اور لسانیات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے ابتدائی فارسی اور عربی کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ ہماری اعلیٰ شہادات (Degrees) کے حامل اردو سکالرز اور محققین کے لیے ہمارے کلاسیکل اردو ادب اور شاعری سے استفادہ آسان ہو، ورنہ بہت مشکل پیش آئے گی۔
تَسَلْسُل: دوسرے سین کی پیش کے ساتھ یہ لفظ تَسَلْسُل ہے، اس کے معنی ہیں: ''کسی چیز کا لگے بندھے طریقے سے برابر جاری رہنا‘‘، کئی حضرات اسے دوسرے سین کے زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں، یہ غلط ہے۔
مَجَاز اور مُجاز: میم کے پیش کے ساتھ یہ لفظ ''مُجاز‘‘ ہے، یعنی جسے کسی بات کا اختیار دیا گیا ہو، انگریزی میں Authorized Person کہتے ہیں، نیز اسے Competent Authority بھی کہتے ہیں، جبکہ میم کے زبر کے ساتھ یہ لفظ ''مَجاز‘‘ ہے اور یہ حقیقت کی ضد ہے، لفظ جس معنی کے لیے وضع کیا گیا ہے، اسے اُسی معنی میں استعمال کرنا حقیقت ہے اور کسی مناسبت کی وجہ سے حقیقت سے عدول کر کے دوسرے معنی میں استعمال کرنا مَجاز ہے۔ بعض حضرات ان الفاظ کا استعمال کرتے وقت معنوی فرق کا لحاظ نہیں کرتے، یہ دونوں لفظ عربی ہیں۔
مُحَال: میم کے پیش کے ساتھ یہ لفظ ''مُحَال‘‘ ہے، اس کے معنی ہیں: ''ناممکن‘‘، ہمارے ہاں مشکل ترین کو بھی مُحَال کہتے ہیں، جگر مراد آبادی نے کہا ہے:
ابتدا وہ تھی کہ جینا تھا محبت میں مُحال
انتہا یہ ہے کہ اب مرنا بھی مشکل ہو گیا
میم کے زبر کے ساتھ یہ لفظ ''مَحَال‘‘ہے، عربی میں ''مَحَالَۃ‘‘ کے معنی ہیں: ''ہوشیاری، تصرّف کی قدرت‘‘، مقامات، مکانات، منازل، فرود گاہیں۔ یہ حَالَ یَحُوْلُ سے ظرف کا صیغہ بھی ہے، اس کے معنی ہیں: ''پھرنے کی جگہ‘‘، اسی سے عربی کا کلمہ ہے: ''لَا مَحَالۃ‘‘، اس کے لفظی معنی ہیں: ''اس سے پھرنے یا فرار کی کوئی جگہ نہیں ہے، یعنی یہ امر ضروری ہے‘‘، ''لَا مَحَالۃ‘‘ کا لفظ اردو میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے، جیسے کوئی کہے: ''آپ کو لامحالہ شادی کی تقریب میں آنا ہو گا‘‘۔
حامی: یہ عربی لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں: ''حِمایت کرنے والا‘‘، جیسے کہاجاتا ہے: ''میں آپ کے موقف کا حَامِی ہوں‘‘۔ اس کے ہم وزن ''ہ‘‘ کے ساتھ لفظِ ''ہامی‘‘ ہے، یہ ہندی لفظ ہے، ہاں اور میں کا مخفّف ہے، اس کے معنی ہیں: ''ہاں، اقرار‘‘ اردو میں ''ہامی بھرنا‘‘ استعمال ہوتا ہے، جیسے کوئی کہے: ''اُس نے میرا ساتھ دینے کی ہامی بھری‘‘، بعض حضرات معنوی فرق کی رعایت کیے بغیر ان الفاظ کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کر لیتے ہیں۔
نَفْسِیْ نَفْسِیْ: اس کے معنی ہیں: ''میرا نفس، میرا نفس‘‘، یہ قیامت کے دن کی طرف اشارہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی پڑی ہو گی اور وہ''نفسی نفسی‘‘ پکار رہا ہو گا، یعنی محض اپنی ذات کی فکر کرنا اور اپنے غم میں مبتلا ہونا، دوسرے کی خبر گیری سے بے پروائی، اپنا ہی بھلا چاہنا، خود غرضی۔ اردو لغت میں ''نَفسا نفسی‘‘ بھی اسی معنی میں آیا ہے، لیکن ہماری نظر میں ''نفسی نفسی‘‘ زیادہ فصیح ہے۔ احوالِ قیامت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''جس دن انسان (ہر ایک سے دامن چھڑا کر) بھاگے گا، اپنے بھائی سے، اپنے ماں باپ سے، اپنی بیوی اور بیٹوں سے، آج کے دن اُن میں سے ہر ایک کو ایک ایسی پریشانی لاحق ہوگی جو اُسے دوسروں سے بے پروا کر دے گی‘‘ (عبس: 34 تا 37)۔ (جاری)