پاکستانی جمہوریت نے دنیا کو یہ منظر بھی دکھایا کہ چھ گھنٹے کے لگ بھگ جاری رہنے والے پارلیمینٹ کے اجلاس میں آدھا وقت شورشرابے، دھینگا مشتی اور حلق آزمائی کی نذر ہوا، تو آدھے میں 33 بل منظور کرلیے گئے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے‘ جو مشترکہ اجلاس کی صدارت کے بھی دستوری طور پر حقدار ہیں، جس برق رفتاری سے قوانین منظور کرائے، اُس نے یقینا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہوگا۔ اکثر سیاسی مبصرین کا حافظہ بتاتا ہے کہ اس عجلت کے ساتھ اس طرح کا کام کسی دوسرے اس طرح کے ادارے میں شاید ہی کرکے دکھایا گیا ہو۔ ناانصافی ہوگی اگر اس کی داد ایوان میں اکثریتی پارٹی اور اس کے زعما کونہ دی جائے۔ قائد ایوان کسی کارروائی میں کم ہی شریک ہوتے ہیں، لیکن آج تو وہ بنفسِ نفیس تشریف فرما تھے۔ ان کو اوران کے شاہ محمود قریشیوں اور عمر اسدوں کو بھی بھرپور مبارکباد دی جانی چاہیے کہ ان سب نے یہ ریکارڈ قائم کرنے میں بھرپور حصہ ڈالا۔ وزیر ریلوے اعظم سواتی کے بقول یوں سیاست کا ورلڈکپ جیت لیا گیا۔ مروجہ پارلیمانی روایت کے مطابق ''آواز‘‘ کے بل پر قوانین منظور ہوتے چلے گئے کہ ہمارے ہاں اسی طرح ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اگر ''ہاں‘‘ کی آواز سے ہال گونج اٹھے تو منظور، اور اگر ''ناں‘‘ کی آواز بھاری پڑجائے تو نامنظور۔ دنیا کے کسی اور منتخب ایوان میں بھی یہ طریقہ رائج ہے یا نہیں، اس کیلئے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب سے تحقیق کی درخواست کرنا ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ ہائوس میں الیکٹرانک کائونٹنگ (برقی گنتی) کیلئے آلات نصب کیے گئے تھے لیکن برسوںگزر جانے کے باوجود انہیں فعال نہیں کیا گیا۔ دنیا کے اکثر منتخب ایوانوں میں ارکان نشست پر بیٹھے بیٹھے ایک بٹن دبا کر، ہاں یا ناں کا اظہارکردیتے ہیں، اور چند منٹ میں پورے ایوان کی گنتی مکمل ہوجاتی ہے، لیکن پاکستان بھرمیں فی الفور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کے انعقاد پر مصر تحریک انصاف، اس کے عالی مرتبت چیئرمین، اور اس کے ذی وقار سپیکر کویہ خیال نہیں آیاکہ پارلیمنٹ ہائوس میں برقی گنتی کا نظام سب سے پہلے بحال کرائیںتاکہ ارکان کو گلا پھاڑ کر اپنے وجود کا احساس نہ دلانا پڑے۔
مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ ایوان میں کسی بھی بل کو منظور کرانے کیلئے قطعی اکثریت کا حصول درکار نہیں ہے۔ ایسا صرف وزیراعظم کے انتخاب یا عدم اعتماد کیلئے لازم ہے یا سپیکر کی تقرری اور برطرفی کیلئے۔ مذکورہ مواقع پر ایک ایک ووٹ کو گننے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جہاں تک عام قوانین کا تعلق ہے، اس کیلئے موجود ارکان کی اکثریت کافی ہے۔ اس نکتے کا نہ قائد حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف کو ادراک تھا، نہ ہی ان کے دستِ راست بلاول بھٹو زرداری کو۔ دونوں اس بات پر (ایک ساتھ کھڑے ہوکر) غم و غصے کا اظہار کرتے پائے گئے کہ حکومت کو 222 ووٹوں کی عددی اکثریت حاصل نہیں تھی، پھربھی سپیکر نے بلوں کی منظوری کا اعلان کردیا۔ یاد رہنا چاہئے کہ گنتی بار بار نہیں ہوئی، ایک موقع پراس کا مطالبہ کیا گیا تو حکومت کے حق میں 221 ووٹ آئے، جبکہ مخالفین کو203 حاصل ہوئے۔
حکومت نے پارلیمانی معرکہ توسر کرلیا، لیکن اُس سے بڑا مرحلہ درپیش ہوگا، جب انہیں عدالت میں چیلنج کیا جائے گا، اور سڑکوں پراودھم مچایا جائے گا۔ ان قوانین میں سب سے اہم تو الیکشن ایکٹ 2017ء میں دوترامیم تھیں، جن کو انقلابی اور بنیادی کہا جارہا ہے۔ ایک ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کا پابند بنایا گیا ہے، دوسری ترمیم کے مطابق سمندر پار پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ کے استعمال کا حق دے دیا گیا ہے۔ اب وہ بیرون ملک بیٹھ کرپولنگ میں حصہ لیں گے، انتخابی عمل کوبراہِ راست متاثر کرسکیں گے۔ سمندرپار پاکستانیوں کو دستورِ پاکستان کے تحت ووٹ کا حق حاصل ہے، دوہری شہریت کے حاملین البتہ امیدوار نہیں بن سکتے۔ انہیں کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے پہلے اپنی دوسری شہریت سے دستبردارہونا پڑتا تھا، لیکن اب وہ (کامیابی کی صورت میں) حلف اٹھانے سے پہلے دستبرداری کا اعلان کرسکتے ہیں۔ گویا ناکامی کی صورت میں اُن کی غیرملکی شہریت محفوظ رہ جائے گی۔ رائج قانون کے تحت سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کیلئے الیکشن ڈے پر ملک آنا، اورجس حلقے میں ان کا ووٹ درج ہو، وہاں جاکر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا پڑتا تھا۔ اب جوقانون سازی کی گئی ہے، اس کے تحت وہ انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ ڈال سکیں گے۔ یوں پاکستان دنیا کا پہلا ملک بن جائے گا جس کے بیرون ملک رہنے والے شہریوں کواس طرح کا حق حاصل ہوگا۔ کسی بھی ملک نے اپنے بیرون ملک مقیم شہریوں کو یہ ''سہولت‘‘ فراہم نہیں کی۔ اپوزیشن جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ سمندرپار پاکستانیوں کیلئے نشستیں مخصوص کردی جائیں۔ وہ اپنے نمائندے چن کر ایوان میں پہنچا دیں، یا ایوان اُسی طرح ان کا انتخاب کرلے، جس طرح عورتوں اور اقلیتوں کیلئے مختص نشستوں کاکیا جاتا ہے۔
دونوں ترامیم کتابِ قانون کا حصہ توبن گئی ہیں لیکن ان پرعمل کب اور کیسے ہوگا، اس پر کئی سوالات پیدا ہوچکے ہیں۔ دستور کے مطابق انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ کوئی دوسرا ادارہ مداخلت کا مجازنہیں۔ الیکشن کمیشن کو ابھی تک اطمینان نہیں کہ برقی مشینوں کے ذریعے آئندہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہے۔ دنیا میں بہت کم ممالک میں یہ نظام رائج ہے۔ بھارت میں اس کا تجربہ 1982ء سے شروع کردیا گیاتھا، برسوں کی آزمائش اورکوشش کے بعد انتخابی عمل کو مشینی بنایا جاسکا، پاکستان میں یہ سب دوسال کے اندر کیسے ہوگا۔ وسائل کے ساتھ عملے اور رائے دہندگان کی تربیت اورآگاہی کا مسئلہ بھی درپیش ہوگا۔ پاکستان میں الیکشن کمیشن کوانتخابی عملہ مختلف سرکاری محکموں سے لینا پڑتا ہے۔ اس کی تربیت ایک بڑی مشق کی متقاضی ہوگی۔ مشین کی کارکردگی کے حوالے سے بھی کئی سنگین سوالات پیدا ہوچکے ہیں۔ مزید یہ کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی انٹرنیٹ کے ذریعے جب اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے تواس کو خفیہ اور محفوظ رکھنے کا آئینی تقاضا کیونکر پورا ہوگا؟ بل تومنظور کرالیے گئے، لیکن اس کیلئے اپوزیشن اور الیکشن کمیشن سے بامعنی مشاورت کا کوئی اہتمام نہیں ہوسکا۔ حکومت باربار یہ کہہ رہی ہے کہ وہ الیکشن کو شفاف بنانے کیلئے یہ سب پاپڑ بیل رہی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی الیکشن میں ووٹوں کی گنتی پرکوئی بڑا تنازعہ کبھی کھڑا نہیں ہوا۔ گنتی سے پہلے جوکچھ ہوتا ہے، اوربعد میں جوکچھ کیا جاتا ہے، مسائل اس سے پیدا ہوتے ہیں۔ ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کے بارے میں الیکشن کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر آچکی ہے، اس کے مطابق انتظامیہ نے جو حرکتیں کیں، ان کا سدِباب مشینی ووٹنگ کے ذریعے کیسے ممکن ہو گا،اس کا جواب بہرحال اربابِ اقتدار کے ذمے ہے۔
انتخابی عمل کوشفاف بنانے کا اولین تقاضا یہ ہے کہ جو اقدام کیا جائے، اس کے پیچھے اتفاقِ رائے کی طاقت ہو۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے نفاذ سے پہلے پارلیمنٹ کی کل جماعتی کمیٹی نے ایک سو سے زائد اجلاس منعقد کیے تھے۔تین سال کا عرصہ لگا تھا۔ اس پر سب جماعتیں متفق ہوئیں تبھی نفاذ عمل میں آیا۔ اب203 ووٹوں کے مقابلے میں 221 ووٹ حاصل کرکے بغلیں بجائی جارہی ہیں، حالانکہ 203 ووٹوں کے پیچھے بھی کم و بیش نصف آبادی کھڑی ہے۔ جلد بازی کے اس مظاہرے کا کوئی جوازکسی ذی ہوش کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ اس پنجابی محاورے سے جناب وزیراعظم تو اچھی طرح واقف ہوں گے کہ ''کاہلی اگے ٹوئے‘‘ یعنی جلدبازی کے سامنے گڑھے۔ گڑھے کھودنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان میں کوئی بھی گرسکتا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)