ہمارے صحافی دوست خاور گھمن کے والد صاحب کی نمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے ان کے گائوں ماجرا کلاں کا سفر درپیش تھا۔ خاور گھمن اور میں نے اسلام آباد میں تقریباً آگے پیچھے ہی جرنلزم شروع کی تھی۔ انگریزی اخبار ڈان میں ضیاء الدین صاحب ہمارے بیوروچیف تھے۔ ڈان اسلام آباد کے پاس رپورٹروں کی ایک زبردست ٹیم تھی جس میں احمد حسن علوی صاحب، حسن اختر صاحب، محمد یاسین صاحب، محمد الیاس صاحب، احتشام الحق، ناصر ملک، رفاقت علی، فراز ہاشمی، اکرام ہوتی، انصار عباسی، عرفان رضا شامل تھے۔ اس اخبار کا اپنا ایک کلچر تھا۔ اپنی روایات تھیں۔ شام کو ایچ کے برکی صاحب آجاتے اور اکثر ہم رپورٹرز کی کلاس لیتے۔ وہ اپنے دور کے بڑے صحافی تھے۔ اس اخبار کے اس کلچر سے ارشد شریف، خاور گھمن اور میں نے جرنلزم سیکھی جو بعد میں ہمارے کام آئی۔
خاور گھمن کے گائوں جانے کے لیے تین چار گھنٹے کا سفر درپیش تھا۔ ارشد شریف، ضمیر حیدر، عدیل راجہ، شاہد بھائی، علی عثمان اور میں صبح صبح الگ الگ گاڑیوں میں روانہ ہوئے تاکہ دن کے دو بجے جنازے میں شریک ہو سکیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اس موقع پر اپنے معاون خصوصی شہباز گل کو بھی جنازے پر بھیجا تھا کہ وہ خاور کو ان کا تعزیتی پیغام پہنچائیں۔
برسوں سے سنتے آئے تھے کہ جی ٹی روڈ اور کسی کا نہیں نواز لیگ کا گڑھ ہے بلکہ کچھ ناقدین تو نواز لیگ کو طنزیہ جی ٹی روڈ کی پارٹی بھی کہتے کہ سینٹرل پنجاب کے علاوہ ان کے پاس کوئی پکا ووٹ بینک نہیں ہے۔ میرا خیال تھا‘ تیس سال اقتدار میں رہ کر نواز لیگ نے ان علاقوں کو جنت نظیر بنا دیا ہوگا خصوصاً جی ٹی روڈ تو ایسی ایکسپریس روڈ بن چکی ہوگی کہ ٹریول کرنے کا مزہ آئے گا‘ لیکن جی ٹی روڈ کی حالت دیکھ کر جو میری حالت ہوئی وہ دیکھنے لائق تھی۔ میں میانوالی مظفرگڑھ روڈ یا ایم ایم روڈ کو روتا رہتا ہوں‘ لیکن جو حالت اس جی ٹی روڈ کی ہوچکی ہے اس پر میرا کم از کم یہ گلہ تو دور ہوا کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے ان علاقوں کو بہت ترقی دے دی تھی جبکہ ہمارے سرائیکی علاقوں کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا تھا۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ پوٹھوہار سے لے کر سینٹرل پنجاب تک کے اہم شہروں اور یہاں کے رہائشوں سے کیا بدلہ لیا گیا ہے کہ اس سے بدترین سڑک شاید ہی کہیں ملے۔ اب موجودہ حکومت ان سے بدلے لے رہی ہے۔ ان علاقے کے لوگوں نے کیا جرم کیا ہے کہ انہیں سفر کرنے کے لیے مناسب سڑک بھی میسر نہیں اور اس جی ٹی روڈ پر ہر گاڑی سے ٹال ٹیکس کئی جگہوں پر اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ روزانہ کا لاکھوں میں اکٹھا ہونے والا ٹال ٹیکس کس کی جیب میں جا رہا ہے کیونکہ سڑک پر تو نہیں لگ رہا؟
رہی سہی کسر ان علاقوں کے گائوں دیکھ کر پوری ہوگئی۔ اگرچہ سارے پنجاب کے دیہات کی حالت بہت خراب اور گندی ہوچکی ہے لیکن اس دوران جن دیہات سے ہم گزرے ان کی حالت دیکھ کر میری حالت خراب ہوگئی۔ بعض گائوں دیکھ کر تو یوں لگا جیسے آپ قدیم ہندوستان میں پہنچ گئے ہیں جہاں نہ سڑک کا تصور تھا نہ صفائی کا اور نہ لوگوں کو صفائی سے کوئی دلچسپی تھی۔ ہر طرف ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور پھر گائوں کے اندر گندی گلیاں اور ان گلیوں کے اندر نالیوں میں صدیوں سے کھڑا گندا پانی اور چہار سو پھیلی بدبو۔ کبھی ہمارے یہ گائوں کتنے خوبصورت تھے۔ چار اطراف پھیلی فصلوں کے درمیان کچے گھروں کی قطاریں ایک ایسا منظر پیدا کرتیں کہ دل چاہتا بندہ کہیں نہ جائے۔ میں پہلے ہی اپنے جیسل کلاسرا گائوں کی بدترین حالت سے مایوس ہوکر لوٹا تھا اور اب سینٹرل پنجاب کے ان دیہات کی حالت دیکھ کر دل دکھ سے بھر گیا۔
یہاں بھی ہر طرف گندگی دیکھ کر مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ایک دن پتہ چلا گائوں میں صفائی انسپکٹر آرہا ہے۔ ان دنوں باقاعدہ گائوں گائوں پھرکر صفائی انسپکٹر چیک کرتا تھا اور اگر صفائی نہ ہوتی تو جرمانے ہوتے تھے۔ یہ خبر اماں تک بھی پہنچ گئی۔ اماں نے ہم سب بچوں کو ساتھ لیا اور گھر کے آگے سب کچھ صاف کرایا۔ میں خود اس گینگ میں شامل تھا جس سے اماں نے صفائی کرائی تھی۔ پوری گلی میں صفائی کے بعد پانی کا چھڑکائو کرایا گیا تاکہ دھول نہ اڑے‘ پھر جانوروں کے فضلے پر چونا بھی چھڑکایا جاتا تھا۔
کہاں مرگئے ہیں وہ صفائی انسپکٹر جن کا سن کرمیری ماں اپنے بچوں کو جھاڑو پکڑا کر پوری گلی تک صفائی کراتی تھی؟ بیوروکریسی میں جب سے سٹیٹس، دولت اورپاور کے بھوکے نوجوانوں نے شمولیت اختیار کی ہے اس کے بعد کسی ضلع کا ڈپٹی کمشنر اس بات کواپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے کہ وہ ذرا چیک کرے کہ پنجاب کے دیہات کی کیا حالت ہوچکی ہیں۔ بلدیاتی نظام کب کا اپنی موت مرچکا۔ کبھی اضلاع میں ٹائون پلاننگ کا عہدہ ہوتا تھا۔ اب بھی شاید ہوگا۔ وہ بابوز اب بھی اس عہدے کی تنخواہ لیتے ہوں گے لیکن مجال ہے آپ کو کہیں ٹائون پلاننگ نظر آئے۔ جس کا جہاں دل کیا اس نے اپنا گھر تعمیر کر لیا یا کوٹھا کھڑا کرلیا۔ گائوں کے سیوریج سسٹم اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے یہاں پکی نالیاں نہ ہی بنتیں تواچھا تھا۔
جی ٹی روڈ پر سفر اتنا دردناک تھاکہ فیصلہ کیا واپسی اب جی ٹی روڈ کے بجائے سیالکوٹ لاہور موٹروے سے ہوتے ہوئے اسلام آباد موٹروے پکڑا جائے۔ پھر خاور گھمن کے گائوں سے لے کر سمبڑیال شہر تک سڑک اور اردگرد کے ماحول کی حالت دیکھی تو رونا آگیا۔ خاور گھمن کے گائوں کی بری حالت دیکھ کر پہلے ہی افسردہ تھا حالانکہ ہربچہ وہاں موٹرسائیکل پرسوار سکول سے واپس آرہا تھا‘ لیکن اطراف میں سیم کا پانی اور نالیوں میں مدتوں سے کھڑا پانی عجیب منظر پیش کررہا تھا۔ لگتا تھا برسوں سے یہاں صفائی نہیں ہوئی۔
واپسی پر ہم نے دو گھنٹے زیادہ لگانے کا فیصلہ کیا لیکن جی ٹی روڈ سے سفر کرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ سیالکوٹ لاہور موٹروے پر گاڑی چڑھائی اور ابھی کچھ سکھ کا سانس لیا ہی تھاکہ یوں لگا سانس رک رہی ہو۔ موٹروے کے دونوں اطراف سیالکوٹ سے لے کر لاہور تک صرف دوہی کام ہورہے تھے۔ زرعی زمین پر ہائوسنگ سوسائٹی بنائی جارہی تھی یا پھر فصلوں کی باقیات کوآگ لگائی جارہی تھی۔
ہم سب حیرانی سے دیکھ رہے تھے کہ پورا لاہور سموگ میں ڈوب چکا ہے اور یہاں ہرطرف فصلوں کو آگ لگا کر زمین کو کلیئر کیا جارہا تھا۔ کسی ڈپٹی کمشنر یا ڈی پی او کو کوئی پروا نہیں کہ ان زرعی علاقوں میں فصلیں جلائی جارہی ہیں جس سے انسانی جانوں کو خطرہ ہے۔ بابوز اپنے دفاتر سے باہر نکلنے کوتیار نہیں۔ لاہور اسلام آباد موٹروے پر چڑھے تو زیادہ خطرناک کام دیکھا۔ موٹروے کے دونوں اطراف زرعی زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بن رہی تھی یا پھر فصلوں کو آگ لگی ہوئی تھی جس کا دھواں موٹروے پر پھیلا ہوا تھا۔ اس دھویں سے موٹروے پر پہلے بھی کئی حادثے ہوچکے ہیں، کئی لوگ مارے گئے لیکن مجال ہے کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ سب زرعی زمینیں تیزی سے ہائوسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں۔ اس سال دس ارب ڈالرز کی گندم، چینی، دالیں اور کاٹن باہر سے منگوائی گئی ہیں۔ ایک دن ہم کنسٹرکشن میٹریل کھائیں گے۔
مجھے کوئی شک نہیں اس قوم کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے ہم خود کافی ہیں خود کو تباہ کرنے کیلئے۔ جون ایلیا یاد آئے:
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں