تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     21-11-2021

سرخیاں، متن اور ڈاکٹر ابرار احمد

عمران خاں ووٹ پر ڈاکا ڈالنے اور روٹی، کپڑا مکان چھیننے کی کوشش کر رہا ہے، بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عمران خاں ووٹ پر ڈاکا ڈالنے ، روٹی کپڑا اور مکان چھیننے کی کوشش کر رہا ہے‘‘ اور یہ روٹی کپڑا اور مکان وہی ہے جو ہم اپنے منشور اور مسلسل اعلانات کے باوجود انہیں مہیا نہیں کر سکے تھے۔ اس لئے بھوکے ‘ ننگے اور بے گھر عوام سے یہ چیزیں جو اِن کے پاس ہیں ہی نہیں، چھیننے کی کوشش کرنا ایک سعیٔ لا حاصل کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے اور اگر وہ یہ کام کرنا ہی چاہتے ہیں تو اس وقت تک انتظار کریں جب تک ہم یہ چیزیں عوام کو مہیا نہیں کر دیتے کیونکہ وہی چیز چھینی جا سکتی ہے جو کسی کے پاس موجود ہو، افسوس کہ یہ حکومت اتنا بھی نہیں کر سکتی۔ آپ اگلے روز نوشہرہ میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
سندھ کے عوام کو گرانفروشوں کے
رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا، فرخ حبیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''سندھ کے عوام کو گرانفروشوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا‘‘ اور یہ صاف ہماری نقل اتارنے کی کوشش ہے جبکہ ہم یہ کام زیادہ کامیابی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ نیز ہمارے گرانفروش ان سے زیادہ بے رحم واقع ہو رہے ہیں۔ اس لئے سندھ حکومت کو وہ کام کرنا چاہئے جو پہلے تسلی بخش حد تک سرانجام نہ دیا جا رہا ہو، اب تو لاہور کو آلودہ ترین شہر قرار دیا جانے لگا ہے‘ یعنی ہم نے کراچی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور بہت آگے نکل گئے ہیں جبکہ بے روزگاری میں ہمارا ایک اپنا ہی مقام ہے۔ اس لئے سندھ حکومت کسی لحاظ سے بھی ہمارے مقابلے میں آنے کی کوشش نہ کرے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
عمران نیازی کی بادشاہت قائم
نہیں ہونے دیں گے، شہبازشریف
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، نواز لیگ کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''عمران نیازی کی بادشاہت قائم نہیں ہونے دیں گے‘‘کیونکہ اگر ہماری بادشاہت قائم نہیں رہی تو عمران خان کی کیسے قائم رہ سکتی ہے حالانکہ ہمیں اس کی عادت بھی پڑ چکی تھی اور کہتے ہیں کہ عادتیںجلدی نہیں چھوٹیں ہیں۔علاوہ ازیں جنگل کا بادشاہ شیر ہوتا ہے اور شیر ہمارا انتخابی نشان ہے مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ یہاں خاکسار کی بادشاہت قائم ہوتی ہے یا کسی دوسرے کی حالانکہ اس میں مردانگی کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے نواز لیگ کی طرف سے ایک اعلامیہ جاری کر رہے تھے۔
وقت آنے پر روزہ افطار کروں گا، چودھری نثار
نواز لیگ کے ناراض رہنما چودھری نثار علی خاں نے کہا ہے کہ ''میں وقت آنے پر روزہ افطار کروں گا کیونکہ روزہ کھولنے کے لیے کھانے پینے کے پسندیدہ اشیاء کا ہونا بھی ضروری ہے اور جن کاابھی اہتمام نہیں ہوا اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ میرا چپ کا روزہ کھولنے کا وقت نہیں آیا کیونکہ وفاقی اورپنجاب حکومت دونوں ہی میری پسندیدہ ڈشیں ہیں، اور دونوںمیں سے ابھی کوئی بھی تیار نہیں ہوئی ہے، اور جہاں تک افطاری کے لیے کسی پارٹی میں شمولیت کا سوال ہے تو سب کا ایک ہی جیسا برا حال ہے اور میں اس طرح اپنے منہ کا ذائقہ خراب نہیں کرنا چاہتا جبکہ ویسے بھی روزہ مجھے اچھی طرح لگا ہوا نہیں ہے اور میں کافی عرصہ اور بھی انتظار کر سکتا ہوں جبکہ افطاری کم از کم ایسی تو ہو جو روزے کی شایان شان ہو۔ آپ اگلے روز ایک تعزیتی اجلاس میں گفتگو کر رہے تھے۔
سموگ کے خاتمہ پر غفلت
برداشت نہیں کروں گا، بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''سموگ کے خاتمہ پر غفلت برداشت نہیں کروں گا‘‘ تاہم اب تک اتنی چیزوں پر غفلت برداشت نہ کرنے کا اعلان کر چکا ہوں کہ اب کچھ برداشت کرنے کو بھی جی چاہتا ہے جبکہ ہمارے قائد کی تلقین بھی یہی ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لینا چاہئے جبکہ سموگ کا معاملہ تو ویسے بھی ہوائوں کے اختیار میں ہے۔ ہوائیں ہمارا کہنا کم ہی مانتی ہیں بلکہ کبھی کبھی تو یہ ہمارے خلاف بھی چلنا شروع ہو جاتی ہیں اور انہیں روکتے اس لئے نہیں ہیں کہ یہ بقول شخصے ہمیں اونچا اڑانے کیلئے چلتی ہیں لیکن یہ ابھی کامیاب نظر نہیں آتیں اور ہمیں ابھی انتظار کرنا پڑے گا۔ آپ اگلے روز ہسپتال میں چودھری شجاعت حسین کی عیادت کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
ایک چہرہ
میرے ماتھے کی چمک میں ہے
کسی اور زمانے کی جھلک
میرے ہونٹوں پہ لرزتے ہیں
کسی اور ہی دل کے نغمے
میرے کاندھے پہ چہکتے ہیں
کسی اورز میں کے پنچھی...
دور افتادہ کسی بستی میں
بادلوں میں کہیں
برفیلی ہوائوں سے لرزتے ہوئے دروازوں میں
یاد کرتا ہے مجھے
ایک چہرہ کوئی میرے جیسا
یا پھر آنکھیں ہیں کوئی، گہرے سمندر جیسی
جن میں بہتا چلا جاتا ہے، وہ چہرہ
کسی ٹوٹے ہوئے پتے کی طرح
یا وہ چہرہ ہے کہیں مٹی میں
پاس آتا ہے، بلاتا ہے مجھے
مجھ سے ملتا ہے نہ ملنے کی طرح
کسی آئندہ زمانے کی تھکن کے مانند
عہدِ رفتہ کی جھلک کی صورت
جانے اس چہرے کی پہچان ہے کیا
جانے اس کا یا مرا نام ہے کیا؟؟
آج کا مطلع
وصل تھا وہ نہ جدائی ہوئی تھی
یوں ہی اک بات بنائی ہوئی تھی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved