تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     21-11-2021

نا مکمل کہانی

ایک لمحے کے لیے ہی سہی فرض کرلیجئے کہ ٹام‘ ہیری اور زید کے برطانیہ میں مزید قیام کے لیے ویزہ کی مدت میں اضافے کی درخواست مسترد ہو گئی ہے جس کے لیے انہوں نے امیگریشن عدالت میں اپیل دائر کر رکھی ہے ۔ اس اپیل میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اُن کے ملک کے اداروں نے ان کو ذاتی مخاصمت کی بنا پر نشانہ بنایا اورکسی خاص مقصد کی غرض سے انہیں سزا دی گئی۔اب ٹام ‘ ہیری اور زید کو ایک ایسا بیان درکار ہے جو ان کے موقف کو وزن دے سکے اور برطانوی عدالتی نظام میں اسے کیس کا حصہ بنایا جاسکے۔
لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ تقریباً چار سال کی طویل مدت کے بعد سابق جج رانا شمیم صاحب کابیان ایک بھونچال بن کر آیا ہے اوراس کے لیے برطانیہ کے نوٹری پبلک کی تصدیق بھی کروائی گئی ۔ سیدھا سادہ ایک جواب تو یہ ہے کہ یو کے کی امیگریشن اپیلٹ عدالتیں برطانیہ سے باہر کی کسی بھی گواہی یا حلفیہ بیان کی تصدیق کو تسلیم نہیں کرتیں۔ برطانوی امیگریشن عدالتوں کے لیے نوٹری پبلک کا مقامی ہونا ضروری ہے۔ مان لیجئے کہ یہی وہ قانونی مجبوری تھی جس کے لیے ایک سابق جج صاحب کو ریٹائرمنٹ کے قریب چار برس بعد لندن پہنچ کر نوٹری پبلک کے سامنے اپنا حلفیہ بیان ریکارڈ کروانا پڑا۔ ہو سکتا ہے لندن کی امیگریشن اپیلٹ کورٹ سابق جج صاحب کو ان پرسن گواہی کے لیے سمن بھی جاری کردے‘ جس طرح سپریم کورٹ آف پاکستان نے قطری شہزادے کو ان کے مبینہ خط کی تصدیق کے لیے پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔رانا شمیم چونکہ خود چیف جج رہ چکے ہیں اس لئے ان کی گواہی اہمیت کی حامل ہوگی۔قابل غور بات یہ ہے کہCharles Drostan Guthrie‘ جنہوں نے بحیثیت نوٹری پبلک سابق چیف جج صاحب کے بیا ن کی تصدیق کی ہے اتفاق سے 13 ستمبر 2019ء کومیاں نواز شریف کے بیان کی تصدیق بھی کر چکے ہیں اوراس سلسلے میں دستاویزی ثبوت میڈیا پر کئی دنوں تک گردش کرتے رہے ہیں۔ اب کمال دیکھئے کہ اس کھیل کو لکھنے‘ اس کی ایڈیٹنگ اور ہدایات کاری کے فن کی مہارت کہ یہ بظاہر اس لیے کیا گیا کہ جب اپیلٹ کورٹ کا جج اپیل کنندہ کے متعلق مقدمات یا موجو دہ صورتحال سے متعلق سوال کرے تو اسے بتایا جا سکے کہ ایک جج‘ جن کے پاس ان کا مقدمہ زیر سماعت ہے‘ پارٹی بن چکا ہے اور ایک سابق چیف جسٹس ججز پر اثر انداز ہو رہے ہیں‘ اس لئے انہیں جو بھی سزائیں دی گئیں وہ انصاف پر نہیں بلکہ ذاتی پرخاش کی بنا پر سنائی گئی ہیں اورا س کے لیے خبریں اور ٹاک شوز کی ویڈیوز اضافی طور پر منسلک کی جاسکتی ہیں ۔
سابق چیف جسٹس ایک مدت سے ایک سیاسی جماعت کے نشانے پر ہیں اور بھاشا ڈیم کے نام پر عوام سے اکٹھا گئے چندے اور امداد کی نہ جانے کتنی کہانیوں سے انہیں دن رات رگیدا جاتا رہا ہے کہ وہ بھاشا ڈیم کے نام پر اکٹھے گئے اربوں روپے لے گئے ہیں۔ گوئبلز کہتا تھا کہ جھوٹ بولتے جائو اور کبھی مت سوچو کہ آپ کے اس جھوٹ پر لوگ ہنسیں گے یا برے الفاظ سے آپ کو یاد کر یں گے‘ بس اتنا جھوٹ بولو کو لوگوں کو یہ سچ معلوم ہونے لگے اور لوگ اس جھوٹ پر یقین کرنے لگیں۔ مگر توفیق ہو تو کبھی دن کی روشنی میں جا کر دیکھئے کہ بھاشا ڈیم تکمیل کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس میں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کی اپیل پر اکٹھے کئے گئے چندے کا پیسہ بھی استعمال ہو رہا ہے۔اس اہم منصوبے میں تھوڑی سی رکاوٹ اسی وقت آئی جب اس سال جولائی میں نریندر مودی کے ہمدردوں نے داسو ہائیڈرو پاور منصوبے پر کام کرنے والی چینی کمپنی کی بس کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جس کے بعد چینی عملے کو چھٹی دے کر تیزی سے جاری کام کو کچھ وقت کے لیے روکنا پڑا۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں چینی انجینئرز سمیت کم از کم 13 افراد لقمۂ اجل بنے تھے۔ اکتوبر کے آخر میں چینی کمپنی کی جانب سے کام دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دہشت گردی کے اس وقوعے کے نتیجے میں دشمن تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی‘ اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے میں کچھ کامیاب تو ہوا لیکن دو‘ ڈھائی ماہ کے وقفے کے بعد پھر سے بھاشا ڈیم پر کام جاری و ساری ہے اور اگر ان دنوں کبھی آپ کا گلگت بلتستان جانے کا اتفاق ہو تو اجازت نامہ حاصل کرنے کے بعد ڈیم پر ہونے والے تعمیری اور فنی کام کا نظارہ کر سکتے ہیں‘ لیکن ان کا کیا کیا جائے جن کی توپوںکا رخ محترم ثاقب نثار سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ کیا سابق چیف جسٹس آف پاکستان کاجرم یہ ہے کہ انہوں نے ملک میں نئے ڈیم کی تعمیر کو ایک تحریک کی شکل دی‘ اس پر خود بات کی‘ قومی اداروں اور حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ ملک کا مستقبل نئے آبی ذخائر کی تعمیر سے وابستہ ہے۔انہی کے دور میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں واٹر کانفرنس منعقد ہوئی جس میںپانی کی قلت کو دور کرنے اور زیادہ سے زیادہ وسائل پیدا کرنے پر غور کیا گیا۔ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ان الفاظ کو خاص شہرت ملی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیم پر پہرہ دوں گا اور اگر وہاں جھونپڑی بنا کر رہنا پڑا تو رہوں گا‘ یہ پانی کی ضرورت و اہمیت کا اجاگر کرنے والی سوچ کی تحریک تھی جس سے بڑے آبی وسائل کی تعمیر کی جانب سنجیدگی کا رویہ پیدا ہوا۔ ثاقب نثار صاحب کو شاید اس لیے بھی ہدف تنقید بنایا جاتا ہے کہ انہوں نے قطری خط کے خالق کو حاضری کے لیے بلایا تاکہ وہ خود عدالت کے سامنے پیش ہو کر اس خط اور اس کے مند رجات کی تصدیق کر یں۔ مگراس میں کون سی بات انہوں نے خلافِ قانون کہہ دی تھی؟ جائداد کی خرید کے ذرائع ہی تو مانگے تھے اور انہوں نے صرف یہی پوچھا تھا کہ آپ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی خرید و فروخت کا کوئی ثبوت دے دیں ۔اس کے لیے انہوں نے تاریخ پر تاریخ دی لیکن نہ تو کیلبری فونٹ کا مسئلہ حل کیا گیا نہ ہی قطری شہزادے کا اور نہ ہی ان ذرائع کا جن سے یہ اپارٹمنٹس خریدے گئے تھے۔کیا یہ ثبوت مانگنا ایک چیف جسٹس کا فرض نہ تھا؟
مگر افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کردھمکیاں دی جا رہی ہیں‘ کہا جا رہا ہے کہ ان کے پاس قابلِ اعتراض ویڈیوز اور حلفیہ بیانات کی کمی نہیں‘ اور جس انداز سے یہ کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب بڑا واضح ہے اوریوں لگتا ہے کہ اس طرح وہ عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔مگر ان سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے‘ کیونکہ ان کے ہاتھوں سے تو محترمہ بے نظیر بھٹو اور سابق خاتون اول بیگم نصرت بھٹوتک محفوظ نہ رہیں۔پیٹر گالبرائتھ کے جعلی دستخط تک کرائے گئے ۔بھٹو فیملی کی خواتین کے ذکر میں شرافت سے بعید الفاظ برتے گئے۔سیاستدانوں کو چاہیے کہ ویڈیوز کا افسوسناک کھیل کھیلنا بند کریں‘ اس سے وہ قوم کو مزید الجھاؤ میں ڈالنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔سیاسی رہنماؤں کو اپنا اچھا ورثہ چھوڑ کر جانے کا سوچنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو لمبی عمر عطا کرے‘ مگر ہر آدمی کو ایک نہ ایک دن دنیا سے جانا ہے ‘ تو آدمی کو یہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ وہ کیا چھوڑ کر جا رہا ہے اور اسے کن الفاظ سے یاد کیا جائے گا؟ ہمارے رہنماؤں کے سامنے قائد اعظم محمد عملی جناح کی روشن مثال بھی ہے اور ایسے لوگوں کی عبرتناک مثالیں بھی ہیں جن کا ذکر اچھے الفاظ میں نہیں کیا جاتا‘ تو کیوں نہ سیاسی رہنماؤں میں قائد اعظم جیسے کردار کو اپنے لیے پسند کیا جائے‘ کیوں خود کو اس درجہ گرا لیا جائے گا تاریخ میں کوئی اچھے الفاظ سے یاد کرنے والا بھی نہ ہو۔ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر ویڈیوز کی بات چل نکلی تو کچھ لوگوں کے ذرائع آپ سے کئی گنا محفوظ اور زیا دہ ہو سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved