کسی ملک کے لیے مشکل وقت وہ ہوتا ہے جب مسائل حل کرنے کے لیے تمام تدبیریں بے سود ثابت ہونے لگیں۔ مثبت عمل کا ردعمل منفی ہوجائے اور جتنا راستہ طے ہوجائے منزل اتنی ہی دور ہونے لگے۔ ایسے حالات میں درست فیصلے کرنا مشکل ہو جاتے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اس امید کے ساتھ ہوا میں تیر چلانا پڑتا ہے کہ شاید نشانے پر لگ جائے اور مقصد حاصل ہو سکے۔ پاکستان بھی اس وقت ایسی صورتحال سے دو چار ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پیش کی جانے والی حالیہ مانیٹری پالیسی اس کی واضح مثال ہے۔ اس وقت پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پانچ ارب ڈالرز سے بڑھ چکا ہے۔ اگر اس کی رفتار کم نہ کی گئی تو سال مکمل ہونے تک یہ پندرہ ارب ڈالرز تک پہنچ سکتا ہے جو کہ پاکستانی معیشت کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کروائی تھی کہ سالانہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ چھ سے نو ارب ڈالرز تک رکھا جائے گا۔ اس لیے قرض بحالی سے پہلے ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے جس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کیا جا سکے جو کہ درآمدات کم کیے بغیر ناممکن ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے درآمدی ٹیکسز میں اضافہ کیا گیا۔ سرکار نے تشہیری مہم بھی چلائی‘تاجروں سے مذاکرات بھی کیے اور مقامی صنعت لگانے کی حوصلہ افزائی کی تا کہ امپورٹڈ کی بجائے ملک کے اندر بننے والی اشیا استعمال کرنے کا رجحان بڑھ سکے لیکن درآمدات میں کمی آنے کی بجائے خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اکتوبر کے مہینے میں گاڑیوں کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔ کچھ کمپنیوں نے تیس سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ گاڑیاں اس سال اکتوبر کے مہینے میں فروخت کیں۔ وزیراعظم نے ای سی سی کے پچھلے اجلاس میں گاڑیوں کی درآمدات کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے۔ ان حالات میں شرح سود بڑھا کر درآمدات کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ فیصلہ کارآمد ثابت ہو گا یا نہیں اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اس سے مہنگائی میں اضافہ ہو جائے گا۔
سٹیٹ بینک نے شرح سود میں ڈیڑھ فیصد اضافہ کیا ہے جو کہ مارکیٹ کے اندازوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ شرح سود بڑھانے سے بینکوں سے قرض لینے کا رجحان کم ہو گا جس سے درآمدات میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شوکت ترین صاحب شرح نمو کو پانچ فیصد تک لے جانے کی بات کرتے ہیں‘ کیا شرح سود میں اضافے کے ساتھ یہ ہدف حاصل کیا جا سکے گا؟ کیا ترین صاحب اس امید پر ہیں کہ اس سال کپاس کی پیداوار توقع سے زیادہ ہوئی ہے جس کی وجہ سے شرح سود میں اضافے کے باوجود شرح نمو متاثر نہیں ہو گی؟ ممکن ہے کہ اعدادوشمار پر زیادہ فرق نہ پڑے لیکن عوام کی نبض اور سرکاری حساب کتاب میں فرق ہوتا ہے۔ شرح سود میں اضافے سے مہنگائی میں اضافہ ہونا طے ہے جس سے عوام کی مشکلات بڑھیں گی۔ سرکار سے گزارش ہے کہ شرح سود میں اضافے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے تا کہ مہنگائی میں پسے ہوئے ہوئی عوام کے بوجھ میں مزید اضافہ نہ ہو۔
ایک طرف شرح سود بڑھا دی گئی ہے اور دوسری طرف گیس کا شدید بحران سر پر منڈلا رہا ہے۔ خصوصی طور پر صنعتوں کو ملنے والی گیس کاپریشر کم ہے جس کے باعث ڈیزل سے حاصل ہونے والی توانائی پر فیکٹریاں چلائی جا رہی ہیں جو کہ گیس کی نسبت تین گنا مہنگا ہے۔ سرکار اس سال موسم سرما میں ایک مرتبہ پھر گیس فراہم کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ تحریک انصاف کے تین سالہ دورِ حکومت میں وزرا نت نئے دعوؤں کے ساتھ گیس بحران پر قابو پانے کے منصوبے پیش کرتے آئے ہیں لیکن ان تین سالوں میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا یاجا سکا۔ 2018ء میں غلام سرور صاحب امیدیں دلاتے رہے‘ ناکامی کے بعد انہیں وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ان کے بعد یہ ذمہ داری ندیم بابر صاحب کو سونپی گئی وہ بھی صرف پریس کانفرنس کی حد تک گیس فراہم کرنے کے منصوبے بتاتے رہے۔ تیسرے سال یہ ذمہ داری حماد اظہر صاحب کے کاندھوں پر ڈالی گئی ‘وہ اس عہدے پر براجمان ہیں لیکن گیس کا بحران کم نہیں ہو سکا۔ گیس کی قلت پر قابو پانے کے لیے ملک میں گیس کے نئے ذخائر تلاش کیے جا سکتے ہیں لیکن سرکار وسائل کی کمی کو بطور عذر پیش کرنے پر بضد ہے۔ اگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبوں پر نظر دوڑائی جائے تو تین سالوں میں کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی بلکہ (ن) لیگ کے دور میں روس کے ساتھ کیے گئے گیس پائپ لائن منصوبے کو تحریک انصاف کی حکومت نے تبدیل کر دیاہے حالانکہ تحریک انصاف کے منشور میں گیس پائپ لائن منصوبوں کو پرائمری حیثیت حاصل تھی۔اگلا آپشن ایل این جی ہے جو کہ نسبتاً آسان ہے لیکن اسے بھی درست انداز میں ہینڈل نہیں کیا جا سکا۔ (ن) لیگ دور میں دو ایل این جی ٹرمینل لگائے گئے تھے۔ تحریک انصاف کے مطابق ان کا یومیہ کرایہ پاکستان جیسی معیشت پر ایک بوجھ ہے۔ ہماری سرکار ایسے ایل این جی ٹرمینل لگائے گی جس کا کرایہ صفر ہو گا۔ یہ دعویٰ سننے میں اچھا لگتا ہے لیکن تین سال میں ایل این جی کا ایک بھی منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکا جس کی ممکنہ وجہ بیوروکریسی اور وزرا کی عدم دلچسپی ہے۔ سرکار اپنی نااہلی عوام کے سامنے رکھنے کی بجائے نئے منصوبے پیش کر رہی ہے جو کہ اصل مدعے سے توجہ ہٹانے کے مترادف ہے۔ تحریک انصاف نے سردیوں میں نومبر 2021 ء سے فروری 2022ء تک تین سو یونٹس ماہانہ سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے سات سے نو روپے سبسڈی دینے کا منصوبہ پیش کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سردیوں میں بجلی کے کم استعمال کے باعث نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ آئی پی پیز کو کیپسٹی چارجز ادا کرنا پڑتے ہیں‘ بجلی کے زیادہ استعمال سے یہ نقصان کم کیا جا سکے گا‘ لیکن عملی طور پر اس کا فائدہ غریب عوام کو ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ پاکستانی عوام کی اکثریت 300 یونٹس سے کم بجلی استعمال کرتی ہے۔ جو طبقہ زیادہ بجلی استعمال کرتا ہے اسے سبسڈی کی ضرورت نہیں ہے۔ سبسڈی غریب عوام کا حق ہے جسے امرا کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ 11کمپنیوں سے نومبر میں ایل این جی فراہم کرنے کا معاہدہ کیا گیا تھا‘ جن میں سے دو کمپنیوں نے معاہدہ ختم کر دیا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ سرکاری بابوؤں کو اس کا اندازہ تھا لیکن معاہدے میں خلاف ورزی کرنے کی صورت میں صرف 30 فیصد جرمانہ رکھا گیا جو کہ حالات کے پیش نظر 200 فیصد تک رکھا جانا چاہیے تھا لیکن مبینہ طور پر ملی بھگت کر کے دانستہ طور پر گیس بحران پیدا کیا گیا تا کہ مخصوص کمیشن مافیا مستفید ہو سکے۔
پاکستان میں آٹا‘ چینی‘ مرغی کا بحران پیدا کر کے ایمرجنسی حالات سے فائدہ اٹھانے کا رجحان عام ہے۔ حالیہ گیس بحران بھی اس کی ایک کڑی دکھائی دیتا ہے۔ تین سال قبل گیس بحران پر وزیراعظم فرماتے تھے کہ حکومت میں آتے ہی سردیاں آ گئیں اور گیس بحران پیدا ہو گیا اس لیے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تین سال بعد بھی صورتحال جوں کی توں ہے۔ اب آپ کسے قصوروار ٹھہرائیں گے؟عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ وزیراعظم عذر تلاش کرنے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں‘ اپنے وزرا کا احتساب کریں‘ بیوروکریسی کو کٹہرے میں لائیں۔ اسی طریقے سے ذمہ داری کا تعین کیا جا سکے گا اور مسائل کا حل نکالا جا سکے گا۔