فلم میکنگ کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے فرد کے لیے ٹیکسٹ بُک کا درجہ رکھنے والی کے آصف کی معرکہ آراء تخلیق ''مغلِ اعظم‘‘ میں شہنشاہ اکبر (پرتھوی راج کپور) کی زبان سے شہزادہ سلیم (جہانگیر) کی محبوبہ انار کلی لیے ایک شاہکار جملہ کہلوایا گیا۔ جملہ یوں تھا ''ایک کنیز نے ہندوستان کی ملکہ بننے کا خواب دیکھا اور محبت کا خوبصورت بہانہ ڈھونڈ لیا!‘‘
یہ خوبصورت‘ بلکہ شاہکار جملہ قدم قدم پر ٹکراتا ہے۔ ہم زندگی بھر یہی تو کرتے ہیں۔ کرنا کچھ چاہتے ہیں اور بہانہ کچھ تلاش کرتے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ کسی بھی کام کو براہِ راست اُس کے نام اور شناخت سے کرنے میں شرم سی محسوس ہوتی ہے مگر بہانہ گھڑنے میں ذرا سی بھی شرم محسوس نہیں کی جاتی!
اب یہی دیکھیے کہ وقت سی نعمت کو ہم کس کس طور قتل کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ دنیا بھر میں وقت کو سب سے بڑی دولت کے طور پر لیا جاتا ہے‘ اُسے زیادہ سے زیادہ اور احسن طریقے سے بروئے کار لانے کے بارے میں سوچا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں اب تک وقت کو دولت تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ کسی بھی انسان کے پاس سب سے قیمتی اثاثہ وقت ہے۔ یہ تو بالکل سامنے کی بات ہے کہ اور کسی بھی چیز کا ضیاع حتمی نہیں ہوتا یعنی وہ چیز کسی نہ کسی طور دوبارہ حاصل کی جاسکتی ہے‘ اُس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے مگر وقت وہ دولت ہے کہ گئی تو گئی۔ یہ کسی بھی صورت دوبارہ ہاتھ آنے والی نہیں۔ کوئی کتنے ہی جتن کرلے‘ کتنی ہی دولت خرچ کرلے‘ گزرے ہوئے وقت کو واپس نہیں لاسکتا۔ قدرت نے یہ اہتمام اس لیے کیا ہے کہ وقت کو سمجھا جائے‘ اُس سے کماحقہ مستفید ہونے کے بارے میں سوچا جائے۔ اور ہم ہیں کہ اس طرف مائل ہونے کے لیے تیار ہی نہیں۔ وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے پر مائل کیا ہوں گے‘ ابھی تک تو ہم نے اسے دولت گرداننے کی راہ پر بھی قدم نہیں رکھا۔
آج کا پاکستان جن چند باتوں کے لیے جانا جاتا ہے اُن میں وقت کا ضیاع نمایاں ہے۔ نئی نسل کو کچھ احساس ہی نہیں کہ وہ وقت کے بارے میں کیا رویہ رکھتی ہے اور کوئی رویہ رکھتی بھی ہے یا نہیں۔ وقت کو یوں لیا جارہا ہے گویا کوئی بہت بڑا ذخیرہ ہے جسے جی بھرکے اُڑانا اور لٹانا ہے۔ کیا واقعی؟ وقت کے بارے میں یہ روش کیا ہے؟ کیا ایسی کسی بھی روش کو درست قرار دیا جاسکتا ہے؟ درست تو کیا قرار دیا جائے گا‘ ایسی روش کو درست قرار دینے کے بارے میں سوچنا بھی درست نہیں۔
میڈیا کی مہربانی ہے کہ اُس نے لوگوں کو بہت سے نئے تصورات سے رو شناس کرایا ہے اور بعض پرانے تصورات کو نئی زندگی دے کر دل و دماغ میں راسخ کردیا ہے۔ سوشل لائف کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ مل جل کر رہنا انسان کی فطرت ہے۔ مل بیٹھنا‘ گفت و شنید کے ذریعے ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرنا اور مسائل کی تفہیم کے ذریعے ایک دوسرے کی مدد کرنے کے بارے میں سوچنا بھی معاشرتی زندگی کا ایک اہم حصہ اور ایک بنیادی ضرورت ہے۔ انسان گھر والوں کو بھی وقت دیتا ہے اور اڑوس پڑوس میں رہنے والوں کو بھی۔ یہ سب کچھ اپنی اپنی حدود میں ناگزیر ہے۔ سوال حدود کا ہے۔ کوئی بھی چیز حد سے زیادہ ہو تو فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بنتی ہے۔ بری باتوں ہی کا نہیں‘ اچھی باتوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ سوشل لائف یعنی مِلنا جلنا‘ مل بیٹھنا بھی ہماری بنیادی ضرورتوں میں سے ہے مگر اِس ضرورت کو ہم نے سَر پر سوار کرلیا ہے۔
جس طور‘ شہنشاہ اکبر کے خیال میں‘ انار کلی نے ہندوستان کی ملکہ بننے کے لیے محبت کا خوبصورت بہانہ ڈھونڈ لیا تھا بالکل اُسی طور ہم نے بھی وقت کو اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق ٹھکانے لگانے کے لیے سوشل لائف کا خوبصورت بہانہ ڈھونڈ لیا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ جسے اپنے وقت کو بروئے کار نہ لانا ہو یعنی محض ضائع کرنا ہو وہ زیادہ نہیں سوچتا‘ کہیں دور نہیں جاتا۔ اب اپنی سوچ والے کو پسند کرتا ہے یعنی وقت کو قتل کرنے والے کسی اور انسان کو تلاش کرتا ہے‘ اُسے ڈھونڈ نکالتا ہے اور مل بیٹھتا ہے۔ سوشل لائف کے نام پر مل بیٹھ کر وقت کو ٹھکانے لگانے کا عمل قدرے آسان ہو جاتا ہے اور دل کے بہلانے کو یہ خیال بھی ہاتھ آجاتا ہے کہ ہم تو مل بیٹھ کر دل کا بوجھ ہلکا کر رہے تھے۔
کراچی سمیت ملک کے بہت سے بڑے اور چھوٹے شہروں میں وقت کو kill کرنے کا معاملہ اُس مقام تک پہنچتا دکھائی دے رہا ہے جہاں سے واپسی ناممکن ہو نہ ہو‘ انتہائی دشوار ضرور ہوتی ہے۔ نئی نسل کا معاملہ بہت پیچیدہ ہوچکا ہے۔ جو وقت علم و فن کے حصول اور مستقبل سے متعلق منصوبہ سازی پر صرف ہونا چاہیے وہ مل بیٹھنے پر ضائع کیا جارہا ہے اور اس خوبی کے ساتھ کہ نقصان کا ذرا سا بھی احساس تک نہیں۔ اقبالؔ نے خوب کہا ہے ؎
وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے جو بھی عقائد ہوں‘ ہر مسلم کا تو یہ انتہائی بنیادی عقیدہ ہے کہ زندگی ایک بار ملتی ہے اور اس زندگی کا حساب دینا پڑے گا۔ زندگی کا حساب؟ زندگی یعنی وقت۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا حساب دینا پڑے گا کہ اللہ نے وجود بخشنے کے ساتھ ساتھ روئے ارض پر رہنے کے لیے وقت کی جو میعاد بخشی تھی اُسے کس طور بروئے کار لایا گیا۔ اگر وقت کو احسن طریقے سے بروئے کار لایا جائے تو اللہ کی طرف سے جزا ملے گی‘ نعمتوں سے نوازا جائے گا اور اگر وقت کے ضیاع کا رجحان دل و دماغ پر حاوی و مسلّط رہا تو سزا کا سامنا ہوگا۔
سوشل لائف کے نام پر آج ہمارے معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے مستحسن نہیں۔ حق یہ ہے کہ زندگی جیسی نعمت کو لاحاصل بیٹھکوں اور فضول مباحث کے گڑھے میں دھکیلا جارہا ہے۔ سوشل لائف کے حوالے سے دنیا بھر میں جو تصور پایا جاتا ہے وہ بھی ہمارے ہاں نہیں پایا جاتا۔ ایک دنیا ہے کہ ہفتے کے پانچ دن (یعنی پیر سے جمعہ تک) بدن توڑ قسم کی محنت کرتی ہے۔ ان پانچ دنوں میں لوگوں سے ملنا ملانا بھی کم ہوتا ہے اور بالعموم اہلِ خانہ کے لیے زیادہ وقت نہیں نکل پاتا۔ سیدھی سی بات ہے‘ انسان کام میں جُتا ہوا ہوگا تو کسی اور تو کیا‘ اپنے وجود کو بھی خاطر خواہ وقت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔ مسلسل پانچ دن صبح سے شام تک غیر معمولی محنت کی جاتی ہے تو تھکن بھی اُسی حساب سے ہوتی ہے۔ جب جسم تھکن سے چُور ہو جاتا ہے تب ایک دن یعنی ہفتے کو فراغت کے لمحات سے خوب محظوظ ہوا جاتا ہے۔ فراغت کے لمحات سے کماحقہ مستفید ہونا اُسی وقت ممکن ہے جب تھکن انتہا کی ہو۔ حقیقت پسند معاشروں میں پانچ دن محنت کے بعد ہفتے کو خوب مل ملانا بھی ہوتا ہے‘ مل بیٹھ کر گپّیں ہانکنے کے مرحلے سے بھی گزرا جاتا ہے‘ کھانا پینا اور سیر سپاٹا بھی ہوتا ہے۔ یہ بات وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں اور سمجھتے ہیں جو پیر سے جمعہ تک محنت شاقّہ کے مرحلے سے گزرتے ہیں۔ ہفتے کو فراغت کے لمحات سے بھرپور سوشل لائف گزارنے کے بعد اتوار کا دن گھر میں گزارنے کو اور چھوٹے موٹے کام کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اتوار کی رات گہری اور پُرسکون نیند لی جاتی ہے تاکہ پیر کی صبح کام پر جاتے وقت دل و دماغ میں تازگی اور توانائی ہو۔ ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگ زیادہ محنت کریں نہ کریں‘ یومیہ بنیاد پر فراغت کے لمحات بھی چاہتے ہیں اور سوشل لائف کے نام پر کسی جواز اور مقصد کے بغیر مل بیٹھ کر وقت کے ضیاع کو زندگی کا بنیادی شعار بنا بیٹھے ہیں۔
ویسے تو خیر پورے معاشرے کو وقت کے حوالے سے ذہن سازی درکار ہے مگر نئی نسل کو زیادہ راہنمائی درکار ہے۔ نئی نسل کو آنے والے وقت کے لیے ڈھنگ سے تیار کرنا لازم ہے اور اور اِس کی ایک اچھی صورت یہ ہے کہ اُنہیں سب سے بڑھ کر وقت کی قدر و قیمت سے آگاہ کیا جائے۔ اس کے لیے سب سے پہلے تو ذہنوں سے غیر ضروری سوشل لائف کا کانٹا نکالنا ہوگا۔