تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     22-11-2021

ووٹ کی درگت اور ٹیکنالوجی کی توہین

الیکٹرانک ووٹنگ مشین سیاسی سرکس کا ٹاپ ٹرینڈبن چکی ہے۔ حکومت اس کی افادیت اور اہمیت ثابت کرنے کے لیے ہر ممکن جواز اور توجیہات پیش کررہی ہے جبکہ اپوزیشن کسی طور یہ ماننے کو تیار نہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین حق رائے دہی کی شفافیت برقرار رکھ سکتی ہے۔ دونوں طرف سے منطق اور دلائل کی گولہ باری جاری ہے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا اونٹ فی الحال کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی نہیں دیتا۔ حکومتی چیمپئنز کی سنیںتو لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں الیکٹرانک مشین کا استعمال نہ کیا گیا تو نہ صرف ووٹ کی چوری نہیں روکی جاسکے گی بلکہ دھاندلی اور جھرلو جیسے ہتھکنڈوں کا خاتمہ بھی نہیں ہوسکے گا۔ اپوزیشن کی منطق اور اعتراضات حکومتی توجیہات کے برعکس ہیں۔یہ الزام بھی اپوزیشن لگا رہی ہے کہ اس مشین کے ذریعے الیکشن ہائی جیک کرنے کا منصوبہ بنایا جاچکا ہے اور حکومت اپنی ممکنہ شکست سے فرار کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا ڈرامہ کررہی ہے۔دونوں فریقوں کے چیمپئن ایک دوسرے کے بیانات کو کائونٹر کرنے کے لیے کیسے کیسے جواز گھڑتے چلے جارہے ہیں ۔
بل پاس ہونے سے لے کر لمحۂ موجود تک عجب سماں ہے‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کے پیش نظر صرف ایک ہی قومی مسئلہ ہے حالانکہ مینوئل ووٹنگ کے نتیجے میں عوامی مینڈیٹ کی جو درگت اب تک بنتی چلی آئی ہے اس کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ سے نجانے کون سا انقلاب آ جائے گا اور مینڈیٹ دینے والوں کو کون سی مالا پہنائی جائے گی۔ ووٹ مینوئل طریقہ سے دیا گیا ہو یا الیکٹرانک ذرائع سے‘ اس کی بے حرمتی جوں کی توں رہے گی۔ نہ ووٹ کا احترام کل تھا اور نہ ہی آئندہ نظر آتا ہے۔ ووٹ دینے والے کو تو ہماری سیاسی اشرافیہ غلام ابنِ غلام ہی سمجھتی ہے جس کا کام صرف مینڈیٹ دینا ہے اور مینڈیٹ دینے کے بعد کوئی سر پیٹتا نظر آتا ہے تو کوئی خاک اڑاتا دکھائی دیتا ہے۔ ان نیتائوں کو تو بس ووٹ سے غرض ہے‘ ووٹ دینے والا جائے بھاڑ میں‘ ان کی بلا سے۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر جاری مباحثے کا مفادِ عامہ سے دور دور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ اس مشین کے حق میں دلائل دینے والے ہوں یا اس میں تکنیکی نقائص کو بنیاد بنا کر اس کی مخالفت کرنے والے‘ کوئی بھی شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کے درد میں اپنے اپنے موقف پر نہیں ڈٹا ہوا بلکہ سبھی کا اپنا اپنا ہدف ہے کہ کس کو انتخابات میں کس طرح فائدہ ہو سکتا ہے۔ جسے جو طریقہ اپنے لیے موافق اور سود مند نظر آتا ہے وہ اس طریقے کے تحت انتخابات کروانے کے لیے بضد ہے۔ عوام الناس کواس مباحثے کا حصہ بننے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ حکومت ہو یا اپوزیشن ووٹنگ مشین کا تنازع اپنے اپنے مفادات کا ٹکرائو ہے‘ اس میں عوام کا کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی انہیں عوام کو اس سے کوئی سروکار ہے۔ عوام خاطر جمع رکھیں انتخابات روایتی مینوئل طریقے سے ہوں یا جدید الیکٹرانک ذرائع سے‘ ووٹ کی درگت اور بے حرمتی کے سبھی مناظر جوں کے توں رہیں گے۔ ووٹنگ کے طریقہ کار کی تبدیلی نہ نیت بدل سکتی ہے نہ ہی ارادے۔ اُسی مائنڈ سیٹ‘ اُسی نیت اور انہی ارادوں کے تحت الیکشن کروائے جاتے رہیں گے اور نتائج کسی کے حق میں آئیں‘ نتیجہ عوام کے خلاف ہی آئے گا۔ اس لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو لے کر شادیانے بجانے والے ہوں یا خاک اڑانے والے‘ سبھی کو خبر ہونی چاہیے کہ شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کے لیے نیت اور ارادہ درکار ہوتا ہے۔ مشینی یا غیر مشینی کی بحث میں الجھا کر عوام کو مزید گھمانے کی کوشش کرنے والے پریشان اس لیے ہیں کہ اصل فیصلہ تو عوام کا ہوتا ہے۔ حکومت جس مینڈیٹ کے نتیجے میں آج برسر اقتدار ہے وہ کسی ووٹنگ مشین نے نہیں دیا؟ پریشانی کس بات کی‘ دل کیوں بیٹھا جارہا ہے؟ آئندہ انتخابات کے لیے اگر کارکردگی اور تیاری کسی قابل ہے تو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی اس شدت سے ضد کیوں جاری ہے؟ اپنی کارکردگی اور طرزِ حکمرانی پراتنا ہی بھروسا ہے تو ووٹنگ مشینی ہو یا غیر مشینی‘ نتائج تو بہرحال کارکردگی کی بنیاد پر ہی آئیں گے۔
جس ملک میں ٹیکنالوجی‘ استعمال کرنے والے کی نیت اور ایجنڈے کے تابع ہو‘ ناپ تول میں ڈنڈی مارنے سے لے کر امراض کی تشخیص تک سبھی مشینوں کا ہدف زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہو‘ گھر بیٹھے بینکوں کے صارفین کے اکائونٹس سے کروڑوں روپے نکال لینے والے بھی تو یہ واردات مشینوں سے ہی کرتے ہیں۔ اشیائے خورونوش کی تیاری میں استعمال ہونے والی مشینیں جب مضر صحت کیمیکل اور ملاوٹ کا بوجھ باآسانی اٹھا لیتی ہوں‘ وزیراعظم کے پورٹل پر عوام کی شکایات پر داد رسی کے بجائے فرضی کارروائی کرکے سربراہ حکومت اور عوام دونوں کے اعتماد کا قتل بھی سرکاری بابو مشین سے ہی کیے چلے جارہے ہیں۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کو سلانے والے بھی انہی مشینوں کے ماہر تھے۔ ایک اور ضمنی انتخاب میں چیف الیکشن کمیشن دہائی دیتے نظر آئے کہ ان کا عملہ ہی بازیاب کروادیا جائے۔ ٹیکنالوجی پر انحصار جدید عصری تقاضوں کے یقینا عین مطابق ہے لیکن یہ ٹیکنالوجی ان اقوام کے لیے نعمت ہے جو اس سے صرف وہی فائدہ لینا چاہتی ہیں جس مقصد کے لیے مشین بنائی گئی ہے۔ کسی مشین کو اپنی نیت اور ارادے کے مطابق چلانے والی قومیں نہ صرف ٹیکنالوجی کی توہین کی مرتکب ہوتی ہیں بلکہ یہی ٹیکنالوجی ان کے دل کا چور بھی پکڑوا دیتی ہے۔ سبھی تدبیریں الٹی ہوکر سارے بھید بھائو کھول کررکھ دیتی ہیں اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کے بجائے کھلواڑ کرنے والے زمانے بھر میں تماشا بن کر رہ جاتے ہیں۔ ووٹرز کے لیے مشین بنانے کے بجائے انتخابی امیدواروں کے لیے کوئی ایسی مشین بنا لی جائے جو کاغذاتِ نامزدگی جمع کرواتے وقت یہ بھید کھول سکے کہ اس سماج سیوک نیتا کی نیت اور ارادہ کیا ہے‘ یہ عوامی ووٹ سے منتخب ہونے کے بعد ایوانِ اقتدار میں جاکر کیا گل کھلائے گا‘ کہیں اپنے وعدوں اور دعووں سے منحرف تو نہیں ہوجائے گا؟ کاغذات نامزدگی جمع کروانے والا اپنے حلقے کے عوام کے لیے موافق ہوگا یا نہیں؟ کاش ایسی کوئی ڈیوائس‘ کوئی ایسی مشین ایجاد کی جاسکتی جو ہماری سیاسی اشرافیہ کے دل کا چورپکڑسکتی۔ کاش ایسا ہو سکتا۔ اگر یہ مشین بن جائے تو سارا مسئلہ ہی حل ہوجائے۔ نہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین بنانے کی ضرورت پڑے نہ غیر جانبدار اور شفاف انتخابات کروانے کے جھوٹے سچے دعوے کرنا پڑیں۔ عوام کے لیے مشینیں بنانے کے بجائے حکمرانوں کے لیے مشینیں بنائی جائیں۔ خرابی عوام میں نہیں ان سماج سیوک نیتائوں میںہے۔ نیتوں کا کھوٹ اور روز بدلتے ارادے ان کے قول و فعل کا روز بھید کھولتے ہیں۔
عوام کا ووٹ مشینی ہو یا غیر مشینی‘ اس غم میں گھلنے کے بجائے وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو یہ ٹاسک دیا جائے کہ وہ ایسی مشین تیار کرے جو کاغذات نامزدگی جمع کروانے والے ہر رہنما کے بارے میں یہ بتا سکے کہ یہ حقیقی عوامی نمائندہ ہے یا بس اپنی ہی غرض کا بندہ ہے۔ اس کی سوچ کا محور حلقے کے مسائل ہیں یا اس کی سوچ کا دائرہ اس کے اپنے پیٹ کے گرد گھومتا ہے؟ چلتے چلتے عاصمہ جہانگیر فائونڈیشن کے زیر اہتمام ایک تقریب کا کچھ احوال ‘جس میں چیف جسٹس پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد نے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ عدلیہ کسی کے دبائو میں نہیں اور وہ فیصلوں میں آزاد ہے۔ چیف جسٹس صاحب کے اس دو ٹوک بیان کو علی احمد کرد صاحب کی تقریر کا جواب آں غزل کہاں جا سکتا ہے۔ انہوں نے جوشِ خطابت میں جو سوالات اس تقریب میں اٹھائے تھے چیف جسٹس صاحب نے یقینا ان کا تسلی بخش جواب دیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved