وسطی و جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ اس وقت ایک ایسی عالمی شطرنج کی مانند ہیں جس کے دونوں اطراف دو کھلاڑی‘ امریکا اور روس بیٹھے ہیں۔ بعد کے حالات نے ثابت کیاکہ افغانستان اور عراق کی جنگوں نے امریکا کے اس عسکری حصار میں بھیانک شگاف ڈال دیے جو اس نے روس کے گرد قائم کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کی حفاظت کے حوالے سے بھی خدشات لاحق رہے، لیکن دو عشروں پر پھیلی اس کشمکش میں جو ڈرامائی تبدیلی آئی وہ پاک چین اقتصادی راہداری کا قیام ہے جس نے خطے میں بڑے بڑے کھلاڑیوں کی چالیں الٹ دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس خطے میں اسرائیل اپنے قدم جمانے کیلئے نئی دہلی کو قابو میں کر رہا ہے۔ دوسری جانب اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ بھارت اس وقت اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان عسکری ٹیکنالوجی کے حوالے سے تعلقات کئی دہائیوں پر محیط ہیں۔ بھارت اسرائیل سے سالانہ ایک ارب ڈالر کے ہتھیار خریدتا ہے۔ اسرائیل گزشتہ کئی سالوں سے بھارت کو مختلف ہتھیاروں کے نظام، میزائل اور بغیر پائلٹ کے جہاز فراہم کر رہا ہے، اس کے علاوہ ان دونوں ممالک کے مابین ڈرون، روبو ٹیکس، مصنوعی ذہانت اور کوانٹم کمپیوٹنگ جیسی نیو جنریشن ٹیکنالوجیز اور مصنوعات مشترکہ طور پر تیار کرنے کا معاہدہ بھی ہو چکا ہے۔ زیادہ تر یہ لین دین پس پردہ ہی رہا ہے۔ اگرچہ بھارتی حکومت کے غاصب اسرائیل سے خفیہ سٹریٹیجک تعلقات تھے لیکن اب یہ پالیسی تبدیل ہو چکی ہے۔موجودہ قر بتوں پر نہ تو کانگریس کو اعتراض ہے اور نہ ہی بی جے پی کو۔نریندر مودی بطور وزیر اعظم صہیونی ریاست کا دورہ کرنے والے پہلے بھارتی سربراہِ ریاست تھے۔ موجودہ تناظر میں بھارتی آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانے، وزیر خارجہ ایس جے شنکر، دفاعی سیکرٹری اجے کمار او ربھارتی فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل آر کے ایس بھدریا کے یکے بعد دیگرے صہیونی ریاست کے دوروں کا مقصد خطے میں چین کے مقابلے میں جدید جنگی و فوجی ٹیکنالوجی اور لداخ و مقبوضہ کشمیر میںاسرائیلی عسکروں اڈوں کا قیام ہے۔ دراصل لداخ اور ارونا چل پر دیش میںچینی فوج کے بڑھتے دبائو نے بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں اوربھارت اسرائیل اورا مریکا کی مدد کے بغیر چین کے ساتھ لڑائی نہیں لڑ سکتا۔ تاہم چین مصنوی ذہانت میں اتنا آگے نکل چکا ہے کہ‘ ایک رپورٹ کے مطابق 2022 ء تک چین اس ٹیکنالوجی پر مکمل عبور حاصل کر لے گا۔ پنٹاگون کی اپنی رپورٹس کے مطابق‘ امریکا چین کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ بھارت کی صورتحال یہ ہے کہ وہ اس وقت پوری طرح چینی سائبر حملوں کی زد میں ہے‘ اسی طرح چین جب چاہے پورے بھارت میں بلیک آئوٹ بھی کر سکتا ہے؛ چنانچہ اب بھارت کی پاکستان اور چین کے ساتھ محاذ آرائی میں اسرائیل کی شمولیت بھی بڑھے گی۔ بہت جلد چین اور اسرائیل آمنے سامنے آنے والے ہیں۔ اسرائیل اور موساد کا پورا نیٹ ورک پاکستان کے مشرقی پڑوس میں آجائے گا ۔
ایسے وقت میں جب امریکا افغانستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹ کر جا چکا ہے اور وہ بھی اس عالم میں کہ افغان طالبان کے خلاف اپنی ''چار سو برس ایڈوانس خفیہ ٹیکنالوجی‘‘ کو استعمال میں لانے کے باوجود اسے خرقہ پوشوں کے مقابل ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔اس صورتحال نے بھارتی نیتائوں کو بھی بدحواس کیا ہوا ہے کیونکہ ایک طرف افغانستان میں بھارت کو کئی بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے بعد بھی اس سرزمین سے نکلنا پڑا تو دوسری جانب سی پیک اور گوادر ہیں جو پوری طرح فعال ہو گئے تو پاکستان پرچاروں طرف سے ہن برسے گاجس کے بعد پاکستان کی پتلی معاشی صورتحال قصہ پارنیہ بن جائے گی۔
دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارت کے خلاف 'اب نہیں تو کبھی نہیں‘ کی پوزیشن میں آچکے ہیں۔ یہ تمام حقائق بھارتیوں کیلئے ایک ڈرائونا خواب بن چکے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل بھارت کو تھپکیاں دے کر بیوقوف بناتے رہے ہیں انہوں نے اپنا عسکری کباڑ خانہ بھارت کو بیچ کر اسے یہ ہلّہ شیری دی کہ خطے میں پاکستان اور چین کے خلاف وہ اس کی پشت پر موجود ہیں۔درحقیقت ہنود و یہود گٹھ جوڑ لداخ سمیت گلگت‘ بلتستان کو ہڑپنا اور سی پیک کو سبو تاژ کرنا چاہتا ہے۔پاکستان جو وسطی ایشیا یعنی ''ایک وسیع دنیائے ارض ‘‘کے گیٹ وے کا درجہ رکھتا ہے اور اس پر خدا تعالیٰ کی ایسی خصوصی عنایات ہیں کہ محل وقوع کے لحاظ سے دنیاکے تمام ممالک کامملکت خدادادکی طرف جھکاؤرہاہے۔چین اس وقت دنیا بھر میں سرمایہ کاری کر رہا ہے لیکن پاکستان میں اس کی دلچسپی کچھ زیادہ ہی ہے، اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے چین کی تاریخ میں کسی دوسرے ملک میں یہ سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے اور یہ کہ چین پاکستان تجارتی راہداری حقیقت بننے کو تیار ہے۔ چین سرمایہ کاری، تجارت، سفارت کاری اور مالیات کو استعمال کرتے ہوئے ایشیا میں ذرائع آمدو رفت کا ایک ایسا جال بچھارہا ہے کہ جس میں ہر ایک پالیسی ہر آنے والے منصوبے کو اس طرح تقویت دے کہ پورا خطہ اس کی بانہوں میں سمٹ آئے۔ یہی وجہ ہے کہ خطے پر اپنی معاشی، فوجی اور سیاسی قوت سے بالادستی قائم کرنے کی پالیسی اپناکر امریکا بیجنگ کیلئے کئی مسائل پیدا کر رہا ہے۔چین کے دنیا میں بڑھتے معاشی اور سیاسی اثرورسوخ کو روکنے کیلئے ایک گریٹ گیم جا ری ہے۔فی الوقت جس سطح پر چین پہنچ چکا ہے، عالمی منڈی میں جس قدر شراکت داری حاصل کر چکا ہے، عالمی سیاست میں جتنی جگہ بنا چکا ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ دانشور اکیسویں صدی کو چین کی صدی کہتے ہیں۔ چین معاشی اور عسکری محاذ پر بھی دنیا میں اپنی طاقت منوا چکا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا اس وقت دو خوفناک خطرات کے درمیان سانس لے رہی ہے،دنیا بھر میں تباہ کن ہتھیاروں کے انبار لگے ہیں۔کرۂ ارض کے چہار اطراف میں شدت پسندوں کی حکومتیں ہیں، نریندر مودی جیسا شدت پسند بھارت کا وزیراعظم ہے جو دنیاکے امن کیلئے شدیدخطرہ بناہواہے لیکن اپنی بزدلی کی بنا پر سازشوں میں مصروف ہے۔ داعش پھیلتی چلی جا رہی ہے اوراب افغانستان میں بھی باقاعدہ اس کی تشکیل ہوچکی ہے، پاکستان اورافغانستان میں اب تک کئی خودکش حملوں کی ذمہ داری بھی یہ قبول کرچکی ہے۔ بھارت نے اپنے جارحانہ عزائم کے پیشِ نظر پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کوسبوتاژ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ 'بنیے‘ کوآج بھی ہمالیہ کے پہاڑوں سے بلند پاک چین دوستی ہضم نہیں ہورہی۔ اس کی ساری سازشیں ایل او سی پر جارحیت، پاکستان کو کشمیریوں کے استصوابِ رائے کے بنیادی حق کی حمایت سے دستبردار کرانے اور سی پیک منصوبے کو روکنے سے متعلق ہیں۔
دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں قابض افواج کا مورال اب انتہائی پست ہو چکاہے۔ کشمیریوں کی تیسری نسل کے نوجوان طلبہ و طالبات قابض بھارتی فوج کا پتھروںسے مقابلہ کر رہے ہیں۔ مودی کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اگرلاکھوں کشمیریوں کو شہید کرنے، درجنوں کالے قوانین کے اطلاق اور دیگر ہتھکنڈوں کے باوجود تحریکِ آزادی کو نہیں دبایاجا سکا تو آئندہ بھی اسے ناکامی کا ہی سامناکرنا پڑے گا۔ بین الاقوامی برادری پریہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خطے میں قیام امن کیلئے مودی کے توسیع پسندانہ عزائم کا نوٹس لے کرمسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کی بھرپور جدوجہد کی جائے تاکہ کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت مل سکے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے لہٰذابھارت بھی آوازِ خلق کو نقارۂ خداتسلیم کرتے ہوئے ظلم و جبر کا سلسلہ فوری بند کرے کیونکہ سچے جذبات کا احترام کرنے سے ہی خطے میں حقیقی قیام امن کا خواب شرمندئہ تعبیر ہوگا۔