تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     22-11-2021

جنوبی ایشیا کا نیا ظہور

جنوبی ایشیا میں چین کے اقتصادی ظہور نے دنیا بھر میں سفارتی تعلقات کی ہیئت کو تبدیل کیا تو کم و بیش ستّر سالوں پہ محیط پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بھی گہری تبدیلیاں واقع ہونے لگیں۔ہماری لیڈر شپ اب امریکا کے ساتھ تعلقات کو سلامتی کے بجائے تجارتی اور اقتصادی معاملات سے منسلک رکھنا چاہتی ہے لیکن امریکا اپنے کردار کو پاکستان میں سرمایہ کاری یا سیاسی شراکت داری تک محدود رکھنے پہ قانع نہیں رہ سکتا،وہ جنوبی ایشیا میں اپنی تلویث کو ممکنہ طور پر''انسدادِ دہشت گردی‘‘کے مقاصد پہ حاوی رکھنے کا خواہاں ہے،جس سے ماضی کی طرح اب بھی خطے میں معمول کے سفارتی و سیاسی وظائف کا قدرتی توازن بگڑ جائے گا۔ طالبان کی فتح کے نتیجے میں افغانستان سے امریکا کے فوجی انخلا نے وسطی اور جنوبی ایشیا کی تزویراتی حرکیات کو بدل دیا جس سے پاکستان سمیت وہ تمام ایشیائی مملکتیں،جو2001ء میں افغانستان میں امریکی جارحیت سے متاثر ہوئیں‘طالبان کی کامیابی سے کافی مطمئن نظر آتی ہیں۔ اگرچہ پندرہ اگست 2021ء کو کابل میں رونما ہونے والی غیر متوقع تبدیلی نے اسلام آباد کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات کو متاثر کیا لیکن اس سب کے باوجود جنوبی ایشیا میں موجود امریکی مفادات اسے پاکستان کے ساتھ قطع تعلق کی اجازت نہیں دیتے؛ چنانچہ امریکی خارجہ پالیسی میں ابھی پاکستان کی اہمیت کم نہیں ہو گی۔واشنگٹن سمجھتا ہے کہ ہماری عسکری قیادت 2012ء سے جنم لینے والے اس جمود سے مطمئن تھی،جس میں امریکی اور نیٹو افواج کے مقاصد و عزائم میںکمی واقع ہوئی اور طالبان بتدریج مضافاتی صوبوں پر اپنا کنٹرول بڑھانے میں کامیاب ہوتے گئے اورآخر کار یہی رجحان کابل پہ طالبان کے قبضے پر منتج ہوا۔ لاریب اسلام آباد کو اب کابل کی طرف نئے زاوایے سے دیکھنا ہو گا جو امریکی انخلا سے پہلے کی حکومت کے مقابلے میں زیادہ مربوط نقطہ نگاہ کا حامل ہوگا۔ ہرچند کہ واشنگٹن کے اس احساس کے حوالے سے دونوں ممالک میں تلخی بڑھی ہے کہ پاکستان نے تاریخ کی طویل ترین جنگ میں امریکی مقاصد کو نقصان پہنچایا لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حالات کی اسی الٹ پھیر کے نتیجہ میں پاکستان کی علاقائی پوزیشن زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ تاریخی دلچسپی کیلئے اس امر کا اظہار یہاں ضروری ہے کہ 2001ء میں افغانستان پر حملے سے قبل امریکا نے پاکستان کو دو آپشن دیے تھے کہ طالبان کو مسترد کرکے امریکا کی حمایت کی جائے یا پھر طالبان کی حمایت جاری رکھتے ہوئے امریکی جنگی عزائم کا اصل ہدف بن جایا جائے؛ تاہم 1999ء میں مارشل لا کے ذریعے ملک کا کنٹرول سنبھالنے والے پرویز مشرف نے نہایت عمدگی کے ساتھ ایک درمیانی راستہ چن لیا۔
جنوبی ایشیا میں بدلتے تناظر میں پہلی بار مئی 2021ء کو چین اور پاکستان کے مابین سفارتی تعلقات کی 70 ویں سالگرہ نہایت جوش و خروش سے منائی گئی۔اسی دن پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کراچی میں نیوکلیئر پاور پلانٹ کا افتتاح کرتے ہوئے اس دوستی کی خوبیوں اورپاک چائنہ اقتصادی راہداری (CPEC) کے ترقیاتی امکانات کو سراہا،اسی ضمن میں چین کے سرکاری اخبار 'پیپلز ڈیلی‘ نے بھی فاتحانہ لہجے کا مضمون شائع کیا،جس میں پاکستانیوںکے تاثرات بیان کئے گئے تھے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی گوادر پورٹ کو اسی ہمہ جہت شراکت داری کا خوبصورت زیور قرار دیا۔ چینی صدر شی جن پنگ کے وڈیو پیغام میں سی پیک کے تحت حاصل ہونے والی کامیابیوں کو خطے کی تقدیر بدلنے کا محرکِ اصل بتایا گیا۔ شاید اسی لئے ان دنوںپاک چین دوستی بھارت میں بھی زیرِ بحث ہے اور وہاں اِسے ایسے سٹریٹیجک چیلنج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے،جسے سی پیک نے بھارت کے لیے زیادہ پیچیدہ بنا دیا ہے۔ انڈین میڈیا رپورٹس کا لہجہ جہاں اس ہمہ موسم دوستی کے اقتصادی تعاون کے گرد گھومتا نظر آیا،وہاں دونوں ممالک کے مابین ہتھیاروں کی خرید وفروخت،مشترکہ فوجی مشقوں اور کئی اہم نوعیت کے دفاعی معاہدوں پر مشتمل مسلسل بڑھتا ہوا فوجی تعاون بھی محل نظر رہا لیکن مغربی اشرافیہ چین کی جارحانہ اقتصادی خارجہ پالیسی کو صرف پاک چین دوستی کے دوطرفہ تناظر کی روشنی میں نہیں دیکھتی بلکہ وہ ان باہمی تعلقات کے پیچھے کارفرما اصل مقاصد کو سمجھنے میں سرگرداں ہے۔ بھارت سمیت امریکا اور وہ تمام مغربی ممالک‘ جو تعلقات کی آڑ میں پاکستان جیسی جغرافیائی اہمیت کی حامل ریاست کو ناکامی کی دلدل تک پہنچانا چاہتے تھے‘ چین کی اقتصادی مفادات پہ مبنی خارجہ پالیسی نے ان کی منفی آرزوئوں پہ پانی پھیر دیا۔ بیرونی عوامل کے لحاظ سے اس تغیر کی ظاہری وضاحت تو چین اور پاکستان کی بھارت سے باہمی دشمنی کو سمجھا گیا‘خاص طور پر 1962ء کی چین‘ بھارت جنگ کے بعدسیاسی تجزیہ کاروں نے دعویٰ کیا کہ چین کی سٹریٹیجک تشویش کی غالب اہمیت پاکستان کو خود مختار، طاقتور اور اتنا پُراعتماد ملک رکھنا ہے کہ وہ بھارت کو دو محاذوں کے خطرات میں انگیج رکھ سکے۔ بیجنگ کی سکالرز پالیسی میں جنوبی ایشیا میں آگے کی طرف بڑھنے کیلئے پاک چین دوستی کو مغرب کے ساتھ جاری سرد جنگ کے وسیع تناظر میں بھی دیکھا جاتا ہے کیونکہ غیر سوشلسٹ ریاستوں میں پاکستان ہی وہ پہلی مملکت تھی جس نے پیپلز ریپبلک آف چین کو سفارتی طور پر تسلیم کیا تھا۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میںاگرچہ پاکستان مغربی ممالک کے اتحادوں کا حصہ تھا لیکن چینی قیادت نے اسے سامراجی زنجیر کی کمزور کڑی اوراس کیمپ کے اندر ایک ممکنہ تضاد کے طور پر دیکھا؛ تاہم 1972ء تک پاکستان امریکا اور چین کے مابین خفیہ رابطہ کاری کے علاوہ بعض نامطلوب معاملات کا مؤثر وسیلہ بھی بنا؛چنانچہ اُن وقتوں میں دونوں ممالک کا میڈیا بیجنگ اور اسلام آباد کے درمیان بین الاقوامی میدان میں 'غلط فہمی‘کے اسی احساس کو بانٹتا نظر آیا۔ اب جب ماؤ نوازعہدکی انقلابی اور ڈینگ ژیاؤپنگ دور کی تحمل کی سیاست کو پس پشت ڈال کر چین ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے تو وہ امریکا کیلئے بھی بڑا چیلنج بن کے سامنے کھڑاہے۔ اس لئے مغربی اشرافیہ پاکستان کے ساتھ چین کے متواتر اور مضبوط تعلقات کو محض علاقائی توازن کی حکمت عملی کے دائروں میں نہیں دیکھے گی کیونکہ 'چین،انڈیا اور پاکستان‘ کی تکون میں چین اپنے مقاصد کے حصول کیلئے پاکستان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پارٹنرشپ کا متمنی ہو گا۔ شاید اسی لئے امریکی،چین کیلئے پاکستان کی اہمیت کو سکیورٹی فریم ورک کے اندر مقیدکرکے عالمی اقتصادیات پہ غلبے کی طرف بڑھتے چینی قدم روکنا چاہتے ہیں۔
مغربی دنیا چینی پالیسی کی تائیوان تک وسعت کو بین الاقوامی سرحدوں کے تال میل میں جانچنے کی کوشش بھی کر رہی ہے،جس میں بھارت کے ساتھ تبت،یورپ کے ساتھ ہانگ کانگ،وسطی ایشیا اور ترکی کے ساتھ سنکیانگ پہ اختلافات شامل ہیں۔ پاکستان کے ساتھ چین کے اچھے تعلقات کو سنکیانگ کے علیحدگی پسندوں کی حمایت سے انکار کی روشنی میں دیکھا گیا،یعنی خوش قسمتی سے اس وقت چین اور پاکستان کے درمیان مفادات کا حقیقی ٹکراؤ موجود نہیں۔ ان دونوں ممالک کے مابین سرحدوں کا معاملہ 1964ء میں ہی طے پا گیا تھا،یہاں تک کہ مغربی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایغور کے چینی حراستی کیمپوں میں موجودگی کی رپورٹس پہ بھی کوئی خاص تنقید نہیں کی جاتی، لیکن اب بھی کچھ علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات چین کیلئے چیلنج ہیں جن میں بھارت اور جاپان بہت نمایاں ہیں؛ تاہم ان قوموں کے مابین بھی کوئی بڑا ثقافتی خلا یا متضاد اقتصادی مفادات کا خطرہ موجود نہیں۔ان ممکنہ حریفوں یعنی جاپان اور بھارت کی قومی سلامتی کے کچھ ایسے مفادات ضرو ہوں گے جن کے باعث وہ اکثر چین کی مخالفت کرتے ہیں، جیسے شمالی کوریا اور وسطی ایشیا کی کمزور اور غیر مستحکم جمہوریتیں ہیں،جن میں ہمہ وقت حکومتوں کے ٹوٹنے یا سول ڈس آرڈر کے خطرات موجود رہتے ہیں؛ تاہم ایسے معاملات میں پاکستان نے ایٹمی قوت کے حصول کے باعث جنوبی ایشیا میں چین کے اہم حریف بھارت کے ساتھ طاقت کا توازن قائم کرکے مستقل حامی اورقابل بھروسہ اتحادی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved