تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     23-11-2021

ہمارے سیاسی چیتے

اگر حکومت پندرہ بیس ووٹوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہو تو اس وقت سب سے زیادہ مزے یہی پندرہ بیس ووٹوں والی بیساکھیوں کے ہوتے ہیں۔ حالیہ اسمبلی میں بھی یہی حال ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کی بغلوں میں ایم کیو ایم‘ مسلم لیگ (ق)‘ بی اے پی و از قسم جی ڈی اے وغیرہ کی بیس اکیس سیٹیں ہیں۔ یہی وہ بیساکھیاں ہیں جن کے سہارے پر اقتدار کا سنگھا سن قائم ہے۔ ایک سو چھپن سیٹوں والی تحریک انصاف بے شک قومی اسمبلی کی سب سے بڑی سنگل پارٹی ہے لیکن حکومت بنانے کیلئے اسے جو سادہ اکثریت درکار تھی وہ ان سہاروں کے بغیر ممکن نہ تھی۔ سو ہر دو فریقوں کا کام امداد ِباہمی کے روشن اصولوں پر چل رہا ہے۔عمران خان اقتدار میں ہیں اور اتحادی مزے میں ہیں۔
خان صاحب اور ان کے اتحادیوں کا تعلق بھی ساس بہو والا ہے‘نہ سکون اور چین میسر ہے اور نہ ہی جان چھوٹ رہی ہے۔ عام دنوں میں پی ٹی آئی اپنے اتحادیوں سے بے اعتنائی کا سلوک روا رکھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی مگر دوسری طرف اتحادی بھی نہایت کائیاں‘ چالاک‘ ہوشیار‘ زمانہ شناس اور تجربہ کار ہیں۔ ایم کیو ایم کی ساری تاریخ اسی سیاسی بلیک میلنگ سے عبارت ہے اور چودھری برادران بھی اپنے پتے نہایت ہوشیاری اور صبر سے کھیلنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ حکومت کا گڈا جب بھی کیچڑ میں پھنستا ہے ہر دو تجربہ کار اور فنکار پارٹیاں اپنا لچ تل لیتی ہیں۔ حکومت بھی مصیبت سے نکل آتی ہے اور اتحادی پارٹی کو بھی چار چھ مزید چپڑی روٹیاں مل جاتی ہیں۔
ایم کیو ایم کی ساری تاریخ اسی قسم کی فنکاریوں سے بھری پڑی ہے۔ ان کے سابقہ قائدکے استعفوں کی کہانی لکھنی شروع کریں تو طلسم ہوشربا کی طوالت کو پیچھے چھوڑ دے۔ اسی طرح اسمبلی میں ان کے ارکان کی حکومت چھوڑنے کی دھمکیوں کی ٹائمنگ اور اس کے نتیجے میں حاصل کی جانے والی سہولتوں اور فوائد پر کوئی شخص محنت کرکے تحقیق کرے تو ایسی چشم کشا دستاویز معرضِ وجود میں آئے کہ دنیا بھر کی اتحادی سیاست کرنے والی پارٹیوں کیلئے بائبل کا درجہ اختیار کر جائے۔ بند دفتر کھلوانے سے لے کر اپنے جرائم پیشہ اور سیریل کلر ٹائپ لوگوں کی رہائی اور مرضی کی وزارتیں مارنے سے لے کر ہزاروں افراد کیلئے این آر او کا حصول جیسی محیر العقول وارداتوں پر دنیا حیران و پریشان رہ جائے۔ پورٹس اینڈ شپنگ‘ مواصلات اور اوور سیز پاکستانیز ان کی من پسند وزارتیں تھیں۔ دورانِ اقتدار انہوں نے بیسیوں بار محض اعلانیہ دھمکی کے زور پر جس طرح حکمران پارٹی کو بلیک میل کر کے مطالبات منوائے اس ریکارڈ کو شاید روئے ارض پر کوئی بھی نہ توڑ سکے۔ ناراض ہو کر حکومت چھوڑنے اور پھر 'ملک کے وسیع تر مفاد‘ کو سامنے رکھتے ہوئے اقتدار کی گاڑی میں سوار رہنے کی جو تربیت ایم کیو ایم نے اپنے لوگوں کو دی تھی وہ پارٹی چھوڑے یا تبدیل کرنے کے بعد بھی ان کے اندر سے نہیں نکل سکتی۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اس کی تازہ اور نہایت ہی روشن مثال ہیں۔ کم از کم دوبار مستعفی ہونے کا تو مجھ کمزور یادداشت والے شخص کو بھی یاد ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں انہوں نے ایک بار پھر مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا تاہم استعفے کے ارادے کو منسوخ کرنے کا علم ان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت اور حکومتی قانون سازی میں دیے جانے والے ووٹ سے ہوا۔ اقتدار کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے صرف ایم کیو ایم والے ہی نہیں‘ اپنے چودھری صاحب والی مسلم لیگ (ق) بھی صحیح وقت پر صحیح چوٹ مارنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔چودھری صاحبان اللہ کے فضل و کرم سے سرتاپا سیاستدان ہیں اور پاکستانی سیاست کی سارے داؤ پیچ سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ ان کے استعمال پر پوری طرح قادر ہیں۔ صبر کرنا‘ مناسب وقت کا انتظار کرنا‘ قوتِ برداشت کا مظاہرہ کرنا‘ تحمل اور برد باری سے کام لینا چودھری صاحبان کی خاص خوبیاں ہیں۔ وہ اپنی مرضی مطابق کی صورتحال اور مناسب وقت کے انتظار میں مہینوں خاموشی سے گزار لیتے ہیں اور موقع آنے پر نہایت اطمینان کے ساتھ اپنا مقصد حاصل کر لیتے ہیں۔ آپ یوں سمجھیں کہ وہ سیاسی چیتے ہیں اور شکار کے انتظار میں ہم رنگ گھاس میں داؤ لگا کر بیٹھے رہتے ہیں اور پھر نہایت ہی سرعت کے ساتھ اپنے شکار پر جھپٹ پڑتے ہیں۔ پتا تب چلتا ہے جب وہ اپنے شکار کو پوری طرح دبوچ لیتے ہیں۔
چودھری پرویزالٰہی کی کوشش تھی کہ وہ مونس الٰہی کو وفاقی وزیر بنوا دیں تاہم دوسری طرف بھی عمران خان تھے جو مونس الٰہی کے بارے میں جو کچھ کہہ چکے تھے اس کے پیش نظر وہ مسلم لیگ (ق) کو اپنے طے شدہ معاہدے کے مطابق ایک مزید وفاقی وزارت دینے کیلئے توتیار تھے مگر وہ مونس الٰہی کو وزیر بنانے پر راضی نہیں تھے۔ چودھریوں نے شور مچانے یا رولا ڈالنے کے بجائے خاموشی اختیار کی اور مناسب وقت کیلئے گھات لگا کر بیٹھ گئے۔ پھر وہ مناسب وقت بھی آ گیا۔ یہ مناسب وقت پی پی 38سیالکوٹ کا ضمنی الیکشن تھا۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی سیالکوٹ کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 75سیالکوٹ 4(ڈسکہ) میں تمام تر ہتھکنڈوں اور انتخابی عملے کو ادھر اُدھر کرنے کے باوجود تقریباً انیس ہزار ووٹ سے ہار چکی تھی اور اب مزید رسوائی کیلئے تیار نہیں تھی۔ ایسے میں پی ٹی آئی کے امیدوار کو جو مسلم لیگ (ق) کے نائب صدر کا بیٹا تھا‘ چودھری صاحبان کی اور مسلم لیگ (ق) کے ووٹرز کی حمایت درکار تھی۔ چودھری صاحب اسی انتظار میں تھے اور جونہی الیکشن کا لوہا گرم ہوا چودھری پرویزالٰہی اپنے فرزندِ ارجمند مونس الٰہی کی وفاقی وزارت کا ہتھوڑا اٹھا کر آ گئے۔شنید ہے کہ عمران خان نے اس معاملے کو ٹالنے‘ آگے لے جانے اور الیکشن کے بعد دیکھنے جیسے لیت و لعل والے حربے استعمال کرنے کی کوشش کی مگر چودھری پرویزالٰہی نے اس ضمنی الیکشن کے بہانے نہایت خاموشی اور مزے سے اپنے فرزند کو وفاقی وزیر بنوا لیا۔
حالیہ قانون سازی مہم سے قبل ہی چودھری پرویزالٰہی نے پریشر ڈالنا شروع کردیا اور بیان داغ مارا کہ ق لیگ کے وزرا کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور ق لیگ کے کام نہیں کئے جا رہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ بہاولپور‘ اٹک اور گجرات تو مکمل طور پر چودھری پرویزالٰہی اور ق لیگ کے سپرد ہیں۔ دو تین ماہ پہلے بہاولپور میں کسان کارڈ کے اجرا اور کپاس کی بحالی کیلئے ہونے والے کنونشن میں تین لوگوں نے خطاب کرنا تھا یہ تین لوگ عمران خان‘ وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی سید فخر امام اور وزیراعظم کے مشیر برائے زراعت جمشید چیمہ (کاغذات نامزدگی مسترد فیم) تھے، بہاولپور سے (ق) لیگ کے ایم این اے اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے ڈنڈے کے زور پر اپنا خطاب رکھوا دیا اور اس طرح رکھوایا کہ اس تقریب کے اصل میزبان اور روحِ رواں وفاقی وزیر تحفظِ خوراک سید فخر امام کا خطاب کینسل کروا کر ان کی جگہ اپنا خطاب ڈلوایا اور فرمایا۔
اس بار بھی ایم کیو ایم اور ق لیگ نے کچھ بھی اللہ واسطے نہیں کیا لین جلدی کیا ہے؟ آہستہ آہستہ کھل جائے گا کہ حالیہ قانون سازی میں حمایت کی فراہمی کے عوض کس کس سیاسی چیتے نے کیا کیا شکار مارا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved