تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     23-11-2021

ثالث

یہاںسب فریق ہیں۔ثالث کوئی نہیں۔نہ فرد‘ نہ ادارہ۔کہیں بظاہر ثالثی ہے بھی تو دراصل طرف داری ہے۔صدافسوس اس بے مائیگی پر۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے عاصمہ جہانگیر کانفرنس تک‘طاقتِ اقتدار ہے یاطلاقتِ لسانی۔تقسیم کی لکیرگہری ہوتے ہوتے‘ ایک خلیج میں بدل گئی ہے۔ سب پر ہیجان طاری ہے۔ طاقت والا جو چاہے کرے۔ بولنے والا جو چاہے بولے۔طاقت بے مہار ہے ا ورزبان بے لگام۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
ریاست اورصحافت‘دو ادارے تھے جنہیں غیر جانب داری کی علامت سمجھاجاتا تھا۔ملک کسی تصادم کی طرف بڑھتا تو کسی ریاستی ادارے کا کوئی فرد یا کوئی صحافی‘ کبھی اعلانیہ اور کبھی غیر اعلانیہ‘متحرک ہو جاتا۔ فریقین تک پہنچتا۔سب جانتے تھے کہ یہ خود فریق نہیں‘ ثالث بالخیر ہے۔سب اس کا احترام کرتے اور اس کی مشورے پر کان دھرتے۔ دنوں میں قضیہ طے ہو جاتا۔قراردادِ مقاصد اسی طرح منظور ہوئی اور 1973ء کا آئین اسی طرح بنا۔
قراردادِ مقاصد اسمبلی میں پیش ہوئی تو مولانا مودودی جیل میں تھے۔ جس حکومت نے جیل میں ڈالا تھا‘ اسی نے رابطہ کیا۔ مولانا نے اپنی رائے دی جسے‘ روایت یہ ہے کہ‘ قبول کیا گیا۔فریقین نے اپنی اناکے بجائے قومی مفاد کو ترجیح دی۔1973 ء کا آئین بنا تو بھی سیاست میں تلخی تھی۔بلوچ راہنماؤںاور ولی خان کو‘ ریاست اور بھٹو صاحب سے شکایات تھیں لیکن انہوں نے نظر انداز کیا۔ سیکولر اور اسلامسٹ مل بیٹھے اوریوں ملک کو متفقہ آئین مل گیا۔
مذہبی شخصیات میںبھی ایسے لوگ موجود تھے جن کا احترام مذہبی و سیاسی تقسیم سے ماوراتھا۔مولانا ظفر احمد انصاری کی خدمات کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے؟جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی میں خلیج بڑھنے لگی تو بھٹو صاحب اور مولانا مودودی کے ہاں جا پہنچے۔دونوں نے گھر اور دل کے دروازے وا کر دیے۔ان کی بات کو سنا اورمانا۔لاہور کے گورنر ہاؤس میں مولانا اور بھٹو صاحب کی غیر اعلانیہ ملاقات ہوئی۔فاصلے کم ہوئے۔ایسے کاموں میںمولانا انصاری کی معاونت ایک صحافی مصطفی صادق مرحوم کرتے تھے جن پر اہلِ سیاست کو فی الجملہ اعتماد تھا۔
ایک صورت یہ بھی تھی کہ بیرونِ ملک سے پاکستان کے دوست مدد کو آتے۔ مولانامودودی کو جب پھانسی کی سزا سنائی گئی تویہی دوست متحرک ہوئے کہ یہ سزا پاکستان کو مصر بنا سکتی تھی جہاں سید قطب کو پھانسی ہوئی اور پھر معاشرہ تصادم کی آگ میں جھلس گیا۔پیپلزپارٹی کی حکومت اور پاکستان قومی اتحاد میں ڈیڈ لاک ہوا تو سعودی عرب کے سفیر نے ثالثی کی۔اس ثالثی نے اس وقت بھی اپنا کردار ادا کیا جب پرویز مشرف صاحب اور نواز شریف صاحب کے مابین معاملات ایک ایسی سطح تک پہنچ چکے جو پاکستان کیلئے خطرناک ہو سکتے تھے۔بے نظیر بھٹو اور ریاست کے مابین امریکہ بھی ثالث بنا۔پھر وقت نے کروٹ لی۔جنہیںثالث بننا تھا‘وہ اقتدار کے کھیل میں فریق بنتے گئے۔مارشل لا آئے اورعدالتوں نے ان کی توثیق کی۔ یوں ریاستی اداروں کی ثالثی پر سوالات اٹھنے لگے۔علما نے سیاست کو شعار کیا اور اقتدار کے کھیل کا حصہ بن گئے۔ان میں کوئی نہ رہا جو مولانا ظفر احمد انصاری کا جانشین بن سکتا۔صحافت کاروبار میں بدل گئی۔ شورش کاشمیری‘ مصطفی صادق اور مجید نظامی کی مسند خالی ہوگئی۔ڈھلوان کا یہ سفر شروع ہوا تو پھر رکانہیں۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس اورعاصمہ جہانگیر کانفرنس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاتال ہی ہماری منزل ہے۔
آج عدم برداشت اپنے عروج پر ہے۔صرف سیاست نہیں‘ مذہب سے سماج تک‘ہر جگہ ایک ہی حال ہے۔ہم دوسرے کے وجود کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ہر دوسری رائے رکھنے والے کوحریف سمجھتے اوراسے مٹا دینا چاہتے ہیں۔سب پر ہیجان طاری ہے۔جنہوں نے ہیجان کو سیاسی ہتھیار بنایا تھا‘انہیں نوید ہو کہ وہ کامیاب ہو چکے۔ہیجان اب ہمارا سیاسی و سماجی کلچربن چکا۔کوئی کسر باقی تھی تو مہنگائی نے نکال دی۔
آج بیرونِ ملک بھی کوئی نہیں جو متحرک ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں پاکستان کا کوئی ایسا دوست نہیں جسے ہمارے حالات سے دلچسپی ہو۔جو یہاں کی بد امنی سے رنجیدہ ہو۔کوئی صلح کے لیے آگے نہیں بڑھا۔سب نے جیسے پاکستان کو حالات کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔جیسے لوگ بار بار کی مداخلت سے تنگ آ چکے ہوں۔آج چین خاموش ہے اور سعودی عرب بھی۔یہ بھی معمولی حادثہ نہیں جو ہم پر گزر گیا۔
کسی معاشرے میں ایسا کیوں اور کب ہوتا ہے؟اُس وقت جب معاشرہ رجالِ کار سے خالی ہو جاتا ہے یا انہیں دیوار سے لگا دیا جاتا ہے۔ سماج اور ریاست کی باگ ڈور چھوٹے لوگوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ سب اقتدار اور مفاد کے کھیل میں شریک ہوجاتے ہیں۔سوچ کا دائرہ ذات اور اپنے ادارے تک محدود ہو جاتا ہے۔ قومی مفاد پس منظرمیں چلا جاتا ہے۔ کوئی ثالث نہیں رہتا۔
اس صورتِ حال سے نجات کیسے ممکن ہے؟
اس کا ایک جواب تو مثالی ہے۔سب آئین کے طے کردہ دائروں میں بند ہو جائیں۔ کوئی اپنا پاؤں باہر نہ نکالے۔اقتدار کا معاملہ اہلِ سیاست تک محدود ہو جائے۔علما انذار کی ذمہ داری نبھائیں۔ریاستی ادارے وہی کریں جو ان سے آئین مطالبہ کرتا ہے۔سب اپنے اپنے حلف کا پہرہ دیں۔یہ دنیا مگر مثالی نہیں ہے۔آئین سے باہر نکلے پاؤںآسانی سے اندرجاتے ہیں نہ یک دم۔طاقت کا اپنا ایک نشہ ہے اور 'یہ نشہ وہ نہیں جسے ترشی اتار دے‘۔
اس کا کوئی عملی اور حقیقت پسندانہ حل ہی تلاش کر نا ہو گا۔یہ عملی حل کیا ہے؟سچ پوچھیں تو میرے پاس اس سوال کاکوئی ایساجواب نہیںجو فوری نتائج دے سکے۔شہباز شریف صاحب یا آصف زرداری صاحب جو حل پیش کرتے ہیں‘وہ مفاداتی سیاست ہے۔یہ اس حسنِ طلب سے عبارت ہے کہ عمران خان ہی کیوں؟ہمیں بھی خدمت کا موقع دیا جائے۔کیا محض اس مقصد کے لیے‘صفِ اقتدار کو الٹ دینا چاہیے؟ حل ایک ہی ہے اور وہ ہے عوامی بیداری۔ایک ایسے نظامِ اقدار کا فروغ‘جس میں جمہوریت کو بطور کلچر اپنا یا جائے۔سادہ لفظوں میں‘مذہب ہو یا سیاست‘اختلافِ رائے کو گوارا کیا جائے اوردوسرے کے وجود کو تسلیم کیا جائے۔اظہارِ رائے کو ہر شہری کا بنیادی حق سمجھاجائے۔سیاسی جماعتوں کا اپنا وجود جمہوری اقدار کا مظہر ہو۔عوام آئین کے بارے میں حساس ہوں اورنمائندوں کا انتخاب کرتے وقت‘اس بات کو سامنے رکھیں کہ وہ کن اقدار کے حامل ہیں۔
یہ صبر آزما حل ہے۔اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اس وقت تک کیا کیا جائے؟میرا احساس ہے کہ جب معاشرہ اُن لوگوں سے خالی ہو جائے جو آج کے بجائے کل کے تناظر میں سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ملک میں سب فریق ہوں‘کوئی ثالث نہ ہوتو پھر افراد نہیں‘ وقت فیصلہ کرتا ہے۔وقت کو ڈکٹیشن نہیں دی جا سکتی۔ وقت اپنا فیصلہ کسی سے پوچھ کر نہیں لکھتا۔وقت منصف ہی نہیں‘ اس کے ہاتھ میںقوتِ نفاذ بھی ہے۔ایسے حالات میں‘ہم جیسے قلم بردارصرف خبردار کر سکتے ہیں۔وہ بھی اپنے اطمینان کیلئے کہ ہم اپنی دانست میں تاریخ کی درست سمت میں کھڑے تھے‘ یا پھر وقت کے فیصلے کا انتظار میں۔آپ بھی انتظار کریں اور میں بھی۔
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved