تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     23-11-2021

گل بدست آنے اور پابہ رسن جانے کا شہر

مجھے کچھ ضروری میٹنگز کے لیے اسلام آباد جانا تھا مگر ستمگر کورونا کی بنا پر تقریباً ایک ڈیڑھ برس سے سفر معطل تھا۔ دل میں مدتوں سے ایک خواہش انگڑائی لے رہی تھی کہ اس بار اسلام آباد کا سفر بذریعہ جی ٹی روڈ کیا جائے۔ لاریب موٹروے کا اپنا حسن ہے۔ وسیع و عریض دوطرفہ سڑک پر گاڑی فراٹے بھرتی ہے۔ اگرچہ قدم قدم پر احتسابی کیمرے نصب ہوتے ہیں مگر دل تیزرفتاری پر مائل ہوتا ہے۔ موٹروے کے دونوں طرف تاحدِ نگاہ لہلہاتا ہوا سبزہ اور اس میں ہاتھ کی لکیروں کی طرح پھیلی ہوئی مٹیالی پگڈنڈیوں کا حسن بہت ہی دلکش محسوس ہوتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں مجھے ڈرائیو کرنے کا موقع ملا ہے مگر بلامبالغہ ہماری موٹروے کا دوطرفہ حسن و جمال کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔ البتہ ہماری موٹروے کے دونوں طرف جلتی ہوئی فصلوں کی باقیات سے اُٹھتا ہوا دھواں اور اس سے پھیلتی ہوئی فضائی آلودگی بھی آپ کو صرف وطنِ عزیز میں دکھائی دیتی ہے اور کہیں نہیں۔
اگرچہ کابل سے چٹاگانگ تک پھیلی ہوئی 2500 کلومیٹر طویل جی ٹی روڈ بہت پرانی ہے؛ تاہم سولہویں صدی میں شیرشاہ سوری نے اس سڑک کی تعمیرِنو اُس دور کے اعلیٰ ترین معیار کے مطابق کی۔ اُس وقت اسے جرنیلی سڑک کہا جاتا تھا۔ بعد میں انگریزوں نے اس کا نام گرینڈ ٹرنک روڈ رکھ دیا اور عرفِ عام میں اسے جی ٹی روڈ کہا جانے لگا۔ میری خواہش تھی کہ جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف پھیلے ہوئے پاکستان کے حقیقی مناظر کی یاد بھی تازہ کی جائے اور پھر جہلم میں وہ کتب خانہ بھی دیکھا جائے کہ جس کی بہت دھوم ہے۔ بقول مبشر علی زیدی
میں خواب میں کتب خانہ ہی دیکھتا ہوں
موٹروے پر تو آپ کو فاسٹ فوڈ پر گزارہ کرنا پڑتا ہے مگر جی ٹی روڈ پر آپ کو ہر طرح کے دیسی کھانے ملتے ہیں خاص طور پر پہلوانوں کا شہر گوجرانوالہ اپنے پٹھوروں‘ چڑوں‘ چرغوں‘ تکوں اور اخروٹی حلووں کی خاص شہرت رکھتا ہے۔ جگہ جگہ ٹوٹی پھوٹی جی ٹی روڈ کا ہم نے موٹروے سے موازنہ نہ کیا اور اس کی ناہمواری اور ٹوٹ پھوٹ پر کمپرومائز کر لیا۔ مگر جس چیز نے مجھے سارا رستہ مضطرب و پریشان رکھا وہ سڑک کے دونوں طرف گندگی کے ڈھیر اور فضا میں پھیلی ہوئی بدبو تھی۔
جس کتب خانے کا میں نے اوپر تذکرہ کیا ہے اس کے بانی شاہد حمید تھے۔ یہ عجب مردِ درویش تھا۔ وہ کوئی مشہور رائٹر نہ تھا‘ کسی بڑے میڈیا ہائوس کا مالک نہ تھا اور نہ کوئی نامور صحافی تھا۔ وہ کراچی‘ لاہور یا اسلام آباد جیسے کسی بڑے شہر کا باسی تھا اور نہ ہی ان شہروں میں اس کا کوئی کتب خانہ تھا۔ اسے ایامِ جوانی سے یہ دھن تھی کہ وہ علمی و ادبی کتب طباعت و اشاعت کے اعلیٰ معیار پر شائع کرے اور خوشبو کی طرح کتاب بینی کے کلچر کو عام کرے۔ شاہد حمید جہلم کے باسی تھے اور انہوں نے حسابِ سودوزیاں سے ماورا ہوکر اس چھوٹے سے عسکری مزاج شہر کو اپنی ادبی جولاں گاہ بنایا اور چند برسوں میں علم و ادب کا ایک گلستاںکھِلا دیا۔ پھر اس کتب خانے کی دھوم دورو نزدیک جاپہنچی۔ یہ مردِ درویش 2021ء میں فوت ہوگیا۔ اب اُن کے دو صاحبزادگان گگن شاہد اور امر شاہد اس ادارے کے وارث ہی نہیں محافظ بھی ہیں۔
جناب انور مسعود نے شاہد حمید مرحوم کے بارے میں یہ قطعہ لکھا ہے:
وہیں پر ہے طباعت کا وہ مرکز
جو شاہد کی مشقت کا ثمر ہے
بہت مشہور ہے اب شہر جہلم
وہی جہلم جہاں بک کارنر ہے
شاہد حمید صاحب کے بڑے صاحبزادے گگن شاہد بڑی محبت سے پیش آئے۔ میں نے بک کارنر کے اندر اردو‘ انگریزی اور عربی کتابوں کی رفاقت میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ گزارا اور اسلام آباد روانہ ہوگیا۔
جب شام ڈھلے میں اسلام آباد پہنچا تو اس روز شہرِ اقتدار میں کارروائی ڈالی جا چکی تھی اور حکومت نے تمام قانونی و پارلیمانی آداب و ضابطے بالائے طاق رکھ کر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے یکبارگی 33 بل ہاں اور ناں کی چیخ و پکار میں ''منظور‘‘ کروا لیے تھے۔ ان بلز میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور اوورسیز پاکستانیوں کے حقِ رائے دہی کی متنازع قانون سازی بھی شامل تھی۔
شہرِ اقتدار اسلام آباد ایک عجب جادو نگری ہے۔ یہاں جو آتا ہے وہ من مانی کو اپنا شعار بنا لیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اب وہ کبھی نہ جائے گا لہٰذا وہ نہ ماضی پر ایک نگاہِ عبرت انگیز ڈالتا ہے اور نہ ہی مستقبل میں پیش آنے والی پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتا ہے۔ جناب افتخار عارف نے اس شہر کے بارے میں بڑی دل سوزی کے ساتھ یہ شعر کہا ہے:
کیسے خوش طبع ہیں اس شہرِ دل آزار کے لوگ
موجِ خوں سر سے گزر جاتی ہے تب پوچھتے ہیں
اس شہر کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ایک غمناک تصویر دکھائی دے گی۔ ذرا ایوب خان کا کرّوفر سوچئے۔ 1964ء میں انہوں نے پاکستان کا نیا دارالحکومت اسلام آباد کے خوبصورت مقام پر بسایا۔ ہر کسی نے اُن کے حسنِ انتخاب کی داد دی۔ ادھر جناب ایوب خان نے عشرئہ ترقی منایا اور اُدھر اُن کی عبرتناک رخصتی کا وقت آگیا۔ یحییٰ خاں کا افسوسناک مختصر دورِ حکومت، پھر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی ذوالفقار علی بھٹو آل پاورفل بن کر برسراقتدار آئے مگر ایک بھیانک انجام سے دوچار ہوئے۔ اُن کے بعد جناب جنرل ضیاء الحق ایک فضائی سازش کا شکار ہوئے اور بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی اقتدار میں آمدورفت کے بعد میاں صاحب دوسری بار براستہ جیل جلاوطنی پر مجبور ہوئے۔ بینظیر بھٹو بھی اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں ایک قاتل کی گولی کا نشانہ بن گئیں۔ پرویز مشرف بھی ایک مطلق العنان حکمران تھے۔ اس وقت وہ بھی جان بچا کر دیارِ غیر میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ جناب عمران خان اور اُن کی حکومت ماضی جیسے کسی ناخوشگوار انجام سے محفوظ رہیں۔ البتہ خان صاحب جناب احمد فراز کا یہ شعر سن لیں اور اگر مناسب سمجھیں تو اس پر غور بھی فرمائیں:
احتیاط اہلِ محبت کہ اسی شہر میں لوگ
گل بدست آتے ہیں اور پا بہ رسن جاتے ہیں
گریڈوں اور نمبروں کے اس شہر میں ایک اہلِ دل جناب میجر عامر بھی ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ایک دینی خانوادے سے اُن کا تعلق ہے۔ اُن کی عسکری و قومی خدمات سے ایک جہان آگاہ ہے۔ میجر صاحب شہرِ اقتدار میں دیدہ و نادیدہ ہاتھوں کی رقم کی ہوئی کئی داستانوں کے عینی شاہد ہیں۔ میجر صاحب وسیع القلب ہی نہیں وسیع النظر بھی ہیں۔ اُن کا دسترخوان بہت وسیع ہے۔ اس مرتبہ بھی انہوں باصرار عشائیہ کا اہتمام کیا جس میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین جناب ڈاکٹر قبلہ ایاز‘ ممتاز کالم نگار جناب خورشید ندیم‘ سینئر صحافی محمد نوار رضا‘ حافظ طاہر خلیل اور معروف دانشور طاہر ملک موجود تھے۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز خالص علمی شخصیت ہیں۔ دینی موضوعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ میجر عامر صاحب کی سجائی ہوئی محفل میں علمی‘ ادبی‘ دینی اور سیاسی موضوعات پر نہایت مفید گفتگو ہوئی۔
ہماری درخواست ہے کہ شہر اقتدار کی عطربیز فضائوں اور بلند چوٹیوں پر بسنے والے حکمران پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں آباد مفلوک الحال لوگوں کا بھی کچھ خیال رکھیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved