تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     23-11-2021

زرعی قوانین کی واپسی‘ مودی کی چال

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا واضح اعلان کردیا ہے۔ وزیراعظم مودی نے کہا کہ ہم کسانوں کو قوانین پر اعتماد میں لینے میں ناکام رہے جس پر معافی مانگتا ہوں، ہم نے پوری کوشش کی؛ تاہم کسان راضی نہیں ہوئے،قوانین کی واپسی کیلئے آئینی عمل اسی ماہ شروع ہوجائے گا ،کسانوں سے درخواست ہے کہ گھروں کو واپس لوٹ جائیں۔ اس اعلان کا بھارت میں خیر مقدم کیا گیاکیونکہ یہ اعلان اگر اب بھی نہ ہوتا تو شمالی ہند کی ٹھنڈ میں پتا نہیں کتنے کسانوں کی جان چلی جاتی۔ میری یادداشت میں شاید بھارت میں آزادی کے بعد کوئی ایسا احتجاج نہیں ہوا جس میں 800 لوگوں سے بھی زیادہ کی جانیں گئی ہوں۔ لاکھوں لوگوں کو طرح طرح کی دیگر مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔بھارتی یومِ جمہوریہ پر لال قلعہ کے ترنگے کو بھی اتار پھینکا گیا۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اتنا بڑا فیصلہ سرکار نے کیا کسی کی محبت میں لیا ہے؟ اس کا سیدھا جواب تویہی ہوگا کہ سرکار نے یہ فیصلہ نہ تو کسانوں کی خاطر لیا ہے اور نہ ہی ان کی ثابت قدمی سے گھبرا کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ ہوا ہے اپنی گدی کے ڈر کے مارے۔ اگلے کچھ ہی مہینوں میں تقریباًآدھا درجن ریاستوں کے چناؤ ہونے والے ہیں۔ ان میں ملک کی بڑی اور اہم ریاستیں بھی شامل ہیں۔ ان میں الٹی ہوا بہنے لگی ہے۔ اگر اس کا اثر بڑھ گیا اور اتر پردیش‘ پنجاب‘ اتراکھنڈ‘ ہریانہ اور کچھ دیگر ریاستیں ہاتھ سے نکل گئیں تو دہلی کی گدی کو نیچے سے کھسکتے دیر نہیں لگے گی یعنی ادویت واد کی زبان کااستعمال کروں تو طاقت ہی اصل حقیقت ہے‘ باقی کہنے کی باتیں ہیں۔زرعی قوانین کی واپسی کو لے کر سوشل میڈیا پر بھی خوب بحث چل رہی ہے۔ منموہن سنگھ حکومت میں وزیر خزانہ رہنے والے پی چدمبرم نے لکھا کہ تینوں زرعی قوانین کو واپس لینا پالیسی کی تبدیلی یا دل کی تبدیلی کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ انتخابات کا خوف ہے۔پی چدمبرم نے مزید لکھا کہ اگر اگلے الیکشن میں شکست کا خدشہ ہو تو وزیر اعظم یہ تسلیم کریں گے کہ نوٹ بندی ایک بڑی غلطی تھی۔ جی ایس ٹی قانون بہت خراب ڈھنگ سے بنایا گیا اور اسے زبردستی نافذ کیا گیا تھا۔ چاہے زرعی قوانین اقتدار کے بحران کے ڈر سے ہی واپس ہورہے ہیں لیکن ان کی واپسی یہ بتاتی ہے کہ سرکار کا گھمنڈ تھوڑا گھٹ رہا ہے۔ کسانوں کا ووٹ بینک پِٹے یا نہ پٹے لیکن اس کا فائدہ دیش اور مودی کو ضرور ہو گا۔ مودی کے بھاشن میں بے مثال عاجزی‘ شائستگی اور دکھاوے کی غیر معمولی اخلاقیات بلا وجہ نہیں تھی۔ ان کے بھاشن میں زیادہ وقت انہوںنے یہ بتانے میں لگایا کہ ان کی سرکار نے کسانوں کے فائدے کے لیے اب تک کیا کیا قدم اٹھائے۔ اس میں شک نہیں کہ پچھلے سات سالوں میں کسانوں کے فائدے کے لیے جتنے قدم اس سرکار نے اٹھائے ہیں پچھلی کسی سرکار نے بھی نہیں اٹھائے لیکن اس سرکار کی جو خامیاں دیگر کئی بڑے فیصلوں میںدکھائی پڑی ہیں وہی ان زرعی قوانین میں بھی دکھائی پڑی ہیں۔ جس طرح کے آناً فاناً فیصلے لینڈ ایکوائرمنٹ‘ نوٹ بندی‘ لاک ڈاؤن، شہریت قوانین اور زرعی قوانین کے بارے میں لئے گئے وہ کیا بتاتے ہیں؟ وہ یہی بتاتے ہیں کہ بھارت میں نوکر شاہوں کے اشارے پر نیتا ناچ دکھانے لگتے ہیں۔ وہ نہ تو ماہرین سے رائے لیتے ہیں نہ اپوزیشن والوں کو کو گھاس ڈالتے ہیں اور نہ ہی اپنی کابینہ اور پارٹی اجلاس میں کسی مدعے پر کھل کر کسی بحث سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اگر زرعی قوانین کے بارے میں یہ احتیاط برتی جاتی تو سرکار کوآج یہ یوٹرن نہیں لینا پڑتا لیکن یہ یو ٹرن اس سرکار کے مستقبل کے لیے بہت معنی خیز ثابت ہوسکتا ہے۔وزیر اعظم مودی کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر لوگ یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ اب کس کی باری ہے‘ کیا آرٹیکل 370 بھی واپس ہو گا؟لوگ کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم قبول کریں کہ سی اے اے قانون مکمل طور پر متعصبانہ ہے نیز یہ کہ ماننا پڑے گا کہ رافیل سودے میں بے ایمانی ہوئی اور اس کی تحقیقات بھی کی جائیں گی۔
ہریانہ میں ریزرویشن بنا بہتر
ہریانہ کی بھاجپا سرکار نے ریزرویشن کے معاملے میں بڑا فیصلہ لیا ہے جو بھارت کی سبھی سرکاروں کے لیے مثالی ہے۔ جب سماج وادی رہنما ڈاکٹر لوہیا کہا کرتے تھے کہ پچھڑے پاؤں سو میں ساٹھ تو میرے جیسے نوجوان ان کی ڈٹ کر حمایت کرتے تھے۔اور پھر وزیراعظم وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے جب ریزرویشن کا قانون بنایا تو اس کی حمایت بھی بڑے بڑے جلسوں میں ہم نے کی لیکن ہم نے محسوس کیا کہ ہمارے سماج کے جن لوگوں کے ساتھ صدیوں سے نا انصافی ہوئی ہے انہیں ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن دینے سے مٹھی بھر لوگوں کو انصاف ملے گا۔لیکن جو حقیقت میں پسماندہ ہیں‘ غریب ہیں‘ گاؤں والے ہیں‘ غیر تعلیم یافتہ ہیں اور محنت کش ہیں‘ وہ سب صدیوں سے جہاں پڑے ہوئے ہیں‘ وہیں پڑے رہیںگے۔ ان سب کا عروج حاصل کرنا بے حد ضروری ہے۔ سپریم کورٹ نے ہمارے اس سوچ پر مہر لگائی اور فیصلہ کیا کہ ریزرو جاتیوں میں جو قدرے متمول پرت ہے اس کے لوگوں کو ریزرویشن کی ضرورت نہیں ہے۔ ہریانہ سرکار نے اس متمول پرت کی نئی تشریح کی ہے اوراسے اورچوڑا کردیا ہے۔1993ء میں نرسمہا راؤ سرکار نے طے کیا تھا کہ جس خاندان کی آمدنی ایک لاکھ روپے سالانہ یا اس سے زیادہ ہے‘ اسے سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن نہیں ملے گا۔ 2004ء میں یہ حد ڈھائی لاکھ روپے 2008ء میں چھ لاکھ روپے اور 2017ء میں مرکزی سرکار نے اسے آٹھ لاکھ کر دیا ہے۔ لیکن ہریانہ سرکارکی نوکریوں میں یہ حد چھ لاکھ اعلان کی گئی ہے یعنی ہریانہ سرکار کی ریزرو نوکری اسے ہی ملے گی جس کی آمدنی 50 ہزار روپے مہینے سے کم ہو۔ ساتھ ہی ایم پیز‘ کلاس1‘ کلاس 2‘ فوج کے میجررینک اور اس سے اوپر کے افسران اور ان کے خاندان والوں کو بھی ریزرویشن نہیں ملے گا۔ ریزرویشن کے لیے یہ اہتمام آئینی عہدوں پر بیٹھے سبھی لوگوں پر بھی نافذہوگا۔ دوسرے الفاظ میں ریزرویشن کی اصل ہی بدل رہی ہے۔ اس کی بنیاد ذات پات تو اب بھی ہے لیکن اس میں بھی ضرورت اوپر ہے اور ذات پات نیچے ہے۔میری دلیل یہ ہے کہ جاتی کی بنیاد پر ریزرویشن کو مکمل طور پر ختم کیا جاناچاہئے۔اس کی بنیاد جنم نہیں‘ ضرورت ہونی چاہئے۔ جاتیہ ریزرویشن دے کر سرکار کیا کرتی ہے؟ پسماندہ لوگوں کی معاشی حالت بہتر بتاتی ہے لیکن اس کی وجہ سے بھارت میں ذات پات کے زہریلے سانپ کو دودھ پلاتی ہے۔ ذات پات کے فرسودہ نظام نے بھارت کی سیاست کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔ جمہوریت کا مذاق بنارکھا ہے۔جمہوریت کو بھیڑ چال بنارکھا ہے۔ اگر جاتیہ ریزرویشن ختم کر دیا جائے اور جو سچ مچ پسماندہ ہو‘ غریب ہو اور وہ چاہے کسی بھی جاتی یا مذہب کے ہوں‘اگر انہیں اور ان کے بچوں کو تعلیم اور میڈیکل میں ریزرویشن ملے تو انہیں نوکریوں میں ریزرویشن کیلئے بھیک کا کٹورا نہیں پھیلانا پڑے گا۔ وہ اپنی قابلیت کی بنیاد پر عہدوں پر بیٹھیں گے‘ ان کا پندار محفوظ رہے گا اور ان کا رویہ سب کے لیے قابل فخر ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved