ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پہلے پاکستانی سائنس دان سینٹری فیوج سسٹم کے لیے پلاٹونیم افزودگی پر تجربات کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے زور دار استدلال کے ساتھ بتایا کہ یورینیم پر کام کر کے منزل تک جلد پہنچنا آسان اور یقینی ہے۔ کئی سینئر سائنس دانوں کو ڈاکٹر صاحب سے شکایات پیدا ہوئیں اور وہ انہیں ناپسند کرنے لگے؛ تاہم ایٹم بم کے لیے یورینیم ہی پر پیش رفت جاری رہی تاآنکہ کامیابی کی منزل تک اللہ نے پہنچا دیا۔ صدر ضیاء الحق کے دور میں پاکستان ایٹمی دھماکا کرنے کی پوری صلاحیت حاصل کر چکا تھا۔ ضیاء الحق پوری معلومات سے باخبر رہنے کے لیے ہر ماہ ایک سے زائد مرتبہ ریسرچ لیبارٹریز میں جایا کرتے تھے۔ کبھی کبھار تو بغیر کسی پروٹوکول کے بھی ان کا وزٹ ہو جاتا تھا۔ ثقہ معلومات حاصل کر کے اسی عرصے میں صدرضیاء الحق بھارت‘ کرکٹ کا میچ دیکھنے کے بہانے گئے اور بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی کے کان میں کہا کہ ہم بھی ایٹمی قوت بن چکے ہیں۔ یہ خبر سن کر راجیوگاندھی کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ ضیاء الحق صاحب یہ پیغام دے کر واپس آ گئے۔
اب سوال یہ درپیش تھا کہ دھماکا کب کیا جائے مگر دھماکا کرنے سے پہلے ہی ضیاء الحق ہوائی جہاز کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ ان کے بعد بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف اقتدار کی راہ داریوں میں باری باری آتے رہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب نے حکمرانوں کو بتا دیا تھا کہ ہمیں دھماکا کر دینا چاہیے، مگر سیاسی رہنما پس و پیش سے کام لے رہے تھے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی اور پاک فوج نے بھی اس میں اپنا کردار ادا کیا۔ بلوچستان میں چاغی کا مقام دھماکے کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس پر بھی کافی سوچ بچار ہوتی رہی۔ آخر فیصلہ ہو گیا کہ 28مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکا کیا جائے گا۔ المیہ یہ ہے کہ یہ ساری خدمت انجام دینے والے عبدالقدیر خان کو اس دھماکے کے دوران باہر رکھنے کی کوشش کی گئی، لیکن آخر انہیں ٹیم میں شامل کرنا پڑا ۔ کیسے؟ اس کے بارے میں جاننے والوں نے بہت کچھ بتا دیا ہے جو ریکارڈ پر آ چکا ہے۔اس کی تکرار کی ضرورت نہیں اور ویسے بھی مجھے تو اس ساری واردات سے انتہائی کوفت ہوتی ہے کہ اس کا ذکر کروں یا سنوں؛ البتہ مرحوم نے اپنی خود نوشت میں ہر پردہ فاش کر دیا ہے۔
ایک نازک پہلو یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شخصیت کو کئی معاملات نے متنازع بنا دیا۔ اس میں ملک سے باہر کی قوتوں کے ساتھ پاکستانی حکومتوں کی بزدلانہ پالیسیوں کا بھی بڑا دخل ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول بھٹو صاحب اور صدر غلام اسحاق خان کے علاوہ تمام حکمرانوں، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور پرویز مشرف نے اپنے اپنے انداز میں نامور سائنس دان اور قومی ہیرو کو تنگ کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے بارے میں وں نے منفی اور مثبت دونوں طرح کا تبصرہ کیا ہے، ان سب امور پر ڈاکٹر صاحب نے اپنے ذاتی احوال میں تفصیلات لکھی ہیں؛ تاہم اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ڈاکٹر صاحب کا شعبہ جن نزاکتوں کا تقاضا کرتا تھا اس کے برعکس ڈاکٹر صاحب کئی بار وہ چیزیں پبلک کر دیتے جنہیں راز میں رکھنا ضروری ہوتا تھا۔ اس میں ان کا حوصلہ اور مہم جوئی دیکھی جا سکتی ہے، مگر ان کی نیت پر کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے ان اعمال کی وجہ سے بھی کئی بار انہیں زیر عتاب آنا پڑا۔ بہرحال یہی ایک پہلو ہے جو ان کے شایانِ شان محسوس نہیں ہوتا۔
عبدالقدیر خان کھرے انسان تھے، لگی لپٹی کے بغیر اپنا مافی الضمیر بیان کر دیتے تھے۔ اپنے پیش رو ساتھیوں اور پھر اپنے ساتھ کام کرنے والے ہم عصر سائنسدانوں کے بارے میں وہ بعض اوقات انتہائی تلخ لہجے میں تبصرے فرماتے۔ منیر خان کی شخصیت اکثر لوگوں کے نزدیک متنازع ہے۔ موصوف ڈاکٹر صاحب سے سینئر تھے، مگر ڈاکٹر صاحب نے رائے قائم کی کہ وہ درست سمت میں سفر کرنے والے سائنس دانوں کے راستے کی رکاوٹ ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر ثمرمبارک مند کے بارے میں بھی ڈاکٹر صاحب کی رائے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ پریس میں بیانات بہرحال ڈاکٹر صاحب کے منصب اور ذمہ داری کی وجہ سے حکمت کے خلاف ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب البتہ سربکف تھے اور ہر بلا سے ٹکرا جانے کا حوصلہ رکھتے تھے۔
پاکستان میں ہم ذمہ داری ادا کرنے کے دوران 1979ء میں ایمسٹرڈیم (ہالینڈ) کی ایک عدالت میں ڈچ حکومت نے ڈاکٹر صاحب کے خلاف کیس دائر کیا کہ انہوں نے ایٹمی معلومات چرائی ہیں۔ یہ محض ایک الزام تھا۔ حکومت اپنے دعوے کا کوئی ثبوت نہ دے سکی اور عدالت کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کو بری کر دیا گیا۔ عجیب بات ہے کہ یورپ کے اس ملک میں حکومت نے اپنے بے بنیاد دعوے کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد بھی ڈاکٹر صاحب کے خلاف نچلی عدالت میں ایک اور فوجداری مقدمہ دائر کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب کے خلاف ڈچ حکومت کی طرف سے دائر کردہ اس نئے کیس کی سماعت کے بعد ان کی غیر حاضری میں اس عدالت کی طرف سے انہیں 1985ء میںچار سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ فیصلہ آنے پر کہا کہ یہ عدل و انصاف کے منافی ہے اور میں قانونی جنگ لڑوں گا؛ چنانچہ آپ نے اس کیس کے خلاف ایمسٹرڈیم کی اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کی۔ آپ کے کیس کی پیروی پاکستان کے مشہور ماہر قانون اور ڈاکٹر صاحب کے دوست بیرسٹرایس ایم ظفر نے کی۔ کیس کچھ عرصہ چلتا رہا اور بالآخر ڈاکٹر صاحب کی سزا کالعدم قرار دے دی گئی۔ آپ کی اس بریت کا فیصلہ ٹیکنیکل بنیادوں پر ہوا۔ بہرحال آپ اس الزام سے باعزت بری ہو کر بہت خوش ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب پر پرویز مشرف کی حکومت نے خاصے ظلم ڈھائے۔ پہلے تو پرویز مشرف نے بلاوجہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے اہم منصب سے ہٹانے کے لیے دبائو ڈالنا شروع کیا اور پھر انہیں ذمہ داری سے فارغ کر کے اپنا مشیر مقرر کر دیا۔ یہ مشیری دراصل ان کو عضو معطل بنانے اور ان کی توہین کی غرض سے تھی۔ اس کی وجہ بھی ڈاکٹر صاحب کو معلوم تھی۔ یہاں تک تو معاملات پھر بھی تکلیف دہ ہونے کے باوجود قابلِ برداشت تھے۔ سب سے اذیت ناک مرحلہ تو اس سے آگے آ رہا تھا۔ آپ پر مشرف سرکار نے امریکی صدر جارج بش اور اس کی حکومت کے دبائو کے تحت یہ الزام لگا دیا کہ وہ ملک سے بے وفائی کا ارتکاب کر کے ایٹمی راز مختلف ملکوں کو سمگل کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
اس سے قبل نواز شریف حکومت کے دوران ڈاکٹرصاحب کی ذاتی رہائش گاہ کو گرانے کے لیے سی ڈی اے کے بلڈوزر بھیجے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے فوراً نواز شریف کابینہ میں وزیرداخلہ اور اپنے دوست چودھری شجاعت حسین کو فون کیا تو وہ موقع پر پہنچ گئے اور ڈاکٹر صاحب کے گھر کو گرانے سے منع کیا۔ اس طرح محسن پاکستان کا گھر سرکاری دستبرد سے بچا۔ چودھری صاحب کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے گجرات میں ہونے والی اس ملاقات میں فرمایا کہ موصوف نے میرے ساتھ احسان بھی کیا اور پھر ظلم بھی ڈھایا۔ مجھے اس بات سے تعجب ہوا اور میں نے پوچھا کہ وہ ظلم کیا تھا؟
ڈاکٹر صاحب آہستگی سے کہنے لگے کہ جب پرویز مشرف حکومت نے مجھ پر دبائو ڈالا کہ میں ان ناکردہ گناہوں کا اعتراف کر لوں جن کا امریکا نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے، تو میں ڈٹ گیا کہ میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔ ظفر اللہ خان جمالی وزیراعظم تھے انہوں نے بھی میری حمایت کی جس کی پاداش میں انہیں وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے۔ جمالی صاحب واقعی باغیرت اور محب پاکستان سیاست دان تھے۔ ان کی جگہ موصوف وزیراعظم بنے تو میرے پاس آئے اور میری منت سماجت کی حتیٰ کہ میرے پائوں پڑ گئے اور کہا ڈاکٹر صاحب! امریکا ہمارے خلاف بھڑک اٹھا ہے، پاکستان شدید مشکلات میں گھرا ہوا ہے، خدا کے لیے میری بات مان جائیں اور ملک و ملت کے لیے قربانی دے دیں۔ یوں مجھ سے یہ غلطی ہو گئی کہ میں نے ذرائع ابلاغ میں سرکار کا تیار کردہ جعلی بیان پڑھ کر ناکردہ گناہوں کا اعتراف کر لیا۔
ڈاکٹر صاحب ضیاء الحق، بے نظیربھٹو، نواز شریف سبھی کے نقاد تھے؛ تاہم پرویز مشرف سے تو انہیں شدید نفرت تھی۔ بعض دوستوں کے مطابق پرویز مشرف جب جونیئر افسر تھے، تو اس وقت بھی کسی بات پر ڈاکٹر صاحب نے ان کی اچھی خاصی سرزنش کی تھی۔ شاید پرویز مشرف کے نہاں خانۂ دل میں وہ بات بھی موجود تھی، جب ڈاکٹر صاحب سے اعتراف کرانے کے لیے دبائو ڈالا جا رہا تھا۔ بہرحال میری ذاتی رائے اس وقت بھی تھی اور اب بھی ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا، ڈاکٹر اے کیو خان کو ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرنے سے ڈٹ کر انکار کر دینا چاہیے تھا۔یہ اعتراف کرانے کے بعد ڈاکٹر صاحب پر جو گزری وہ تو ناقابلِ تصور ہے، مگر مجھ جیسے لاتعداد پاکستانی شہریوں کی بھی اس پریشانی نے نیندیں حرام کر دیں۔
ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرنے کے بعد اب ڈاکٹر عبدالقدیر کو گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ نظربندی سے پہلے بھی ان کی کڑی نگرانی کی جا رہی تھی، جس کا اظہار اس دور میں کئی بار انہوں نے اپنے ہم راز اور قریبی صحافی اور ذاتی دوستوں کے سامنے کیا۔