تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     24-11-2021

آئی ایم ایف نے مزہ چکھا دیا

جملہ کیا ہے کہ سواد آ گیا۔ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت کو بھی سواد چکھایا جا رہا ہے۔ کچھ ہی روز ہوئے ٹی ایل پی والوں کے سامنے گُھٹنے ٹیکنے پڑے اور اِس بری طرح سے کہ گھٹنوں کا کوئی حال نہیں رہا۔ اور اب آئی ایم ایف نے یوں سمجھئے کہ بس لِٹا ہی دیا۔ معاملہ ایک بلین ڈالر کا ہے جو ہم آئی ایم ایف سے مانگ رہے ہیں اور وہ کیا ظالم ہیں کہ ناک رَگڑوا رَگڑوا کے ہمارا برا حال کر دیا ہے۔ لیکن داد دیں ہماری جواں مردی کو کہ ہماری اکڑ میں کوئی فرق نہیں آتا۔
اکڑ کو چھوڑیئے ہماری عیاشیوں میں کوئی فرق نہیں آتا۔ آئی ایم ایف بھگو بھگو کر ہمارا علاج کر رہا ہے لیکن نہ فضول خرچیوں میں کوئی کمی نہ عیاشیوں میں۔ بڑی بڑی کاریں ایسے ہی دندناتی پھرتی ہیں۔ کسی شاپنگ مال میں بھولے سے چلے جائیں تو گمان ہو کہ یہ کوئی ترقی یافتہ ملک ہے۔ مہنگے ریسٹورنٹ بھرے پڑے ہوں گے۔ میرج ہال اِتنے ہیں کہ دنیا کے شاید کسی اور ملک میں نہ ہوں۔ پیسہ بس دو جگہوں پہ لگ رہا ہے، زمین کے کاروبار میں اور میرج ہالوں میں۔ آئی ایم ایف کی شرط ہے کہ ٹیکس اور لگاؤ۔ اچھی تجویز ہے لیکن ٹیکسوں کا بوجھ کس پر پڑے گا؟ وہ جو ویسے ہی مہنگائی کے نیچے پسے جا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں عیاشیوں پہ کوئی ٹیکس نہیں لگتا۔
ہماری عادت بن چکی ہے آئی ایم ایف کو کوسنے کی۔ آئی ایم ایف کا کیا قصور ہے، بھکاری ہم ہیں آئی ایم ایف تو ساہوکار ہے۔ نہ جائیں نا اُس کے پاس۔ کسی نے ہماری کنپٹی پہ پستول رکھا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے۔ ساہوکار کے پاس جائیں گے تو وہ اپنی شرائط لگائے گا‘ اور اگر ہم نے بھیک لینی ہی ہے تو شرائط ماننا پڑیں گی‘ لیکن ہم اپنی عادات پہ نظر نہیں ڈالیں گے، سٹیٹ بینک کے گورنر کو گالیاں دیں گے یا آئی ایم ایف کو برا بھلا کہیں گے۔ غریب طبقات کو چھوڑیئے وہ کسی گنتی میں نہیں۔ مڈل کلاسیئے یا اِن سے اوپر والے یا دیگر مراعات یافتہ طبقات کیا تھوڑی سی بھی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں؟ ہر کوئی پیسے کے پیچھے دیوانہ ہو رہا ہے۔ جائز اور ناجائز طریقوں سے دولت اکٹھی کرنے میں مراعات یافتہ افراد لگے ہوئے ہیں۔ سرکاری افسر تو پلاٹوں کے پیچھے مرے جائیں گے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ کی عدالت میں فیڈرل گورنمنٹ افسران کے پلاٹوں کا کیس لگا ہوا ہے۔ چیف جسٹس سوال کرتے ہیں کہ یہ کون سا انصاف ہے کہ اسلا م آباد کے گرد و نواح میں آپ زبردستی زمین حاصل کریں اور سستے داموں وفاقی افسران میں بانٹ دیں۔ سیکرٹری ہاؤسنگ کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا، بس اِسی بات پہ اصرار کرتا ہے کہ حکومت کی یہ پالیسی ہے اور سرکار نے اجازت دی ہوئی ہے۔
سڑکوں پر نظر دوڑائیں تو کاروں سے بھری پڑی ہوں گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ پہ کوئی توجہ نہیں بس کاریں خریدے جاؤ۔ چالیس سال سے ناقص قسم کی جاپانی گاڑیاں یہاں اسیمبَل ہو رہی ہیں۔ پوری کار یہاں بنتی کوئی نہیں۔ پالیسیاں ٹھیک ہوتیں تو ہم کاریں ایکسپورٹ کر رہے ہوتے لیکن بھیڑ چال جاری ہے کاروں کے سامان پر زرِ مبادلہ برباد ہو رہا ہے، کسی کو کوئی پروا نہیں۔ بس اور ٹرک باہر سے آرہے ہیں۔ ہم میں کوئی عقل ہوتی اِن کو ہم یہاں بناتے اور پھر ایکسپورٹ کرتے۔ عقل کی بات غلط کہی۔ اپنا مفاد آئے تو ہم سے زیادہ عقل مند ڈھونڈے سے نہ ملیں۔ نیت کا مسئلہ ہے، نیت تھوڑی کھوٹی ہے۔
قومی ایئر لائن ہم سے نہ چل سکی۔ انگریزوں کی دی ہوئی ریلوے ہندوستان میں چل رہی ہے، ہم نے اسے تباہ کر دیا۔ روسیوں نے ہمیں ایک سٹیل مل بنا کے دی تھی، ہم سے وہ نہ چل سکی۔ اِس داستانِ غم میں آئی ایم ایف کا قصور کیا بنتا ہے؟ آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ قومی ایئر لائن اور ریلویز کو تباہ کرو؟ کام کرنا نہیں ہے، ہیرا پھیری کے راستے ڈھونڈنے ہیں۔ حسبِ توفیق ہر کوئی چونا لگانے میں لگا ہوا ہے۔ پچھلے پچاس سال ہماری قومی پالیسی کیا رہی ہے؟ قرضے لو اور عیاشی کرو۔ قرضوں کا بوجھ اِتنا بڑھ چکا ہے کہ اب قومی آمدنی کا سب سے بڑا حصہ سود اور قرضوں کی واپسی پہ جاتا ہے۔ پچھلوں نے بھی یہ عیاشیاں کیں لیکن یہ جو تبدیلی لانے والے تھے اِنہوں نے قرضوں کا ریکارڈ توڑ ڈالا ہے۔ اِس صورت حال میں سچ یہی بنتا ہے کہ آئی ایم ایف ہمارا ٹھیک علاج کر رہا ہے۔ اور کسی چیز کے ہم قابل نہیں۔ اور تو اور خدا کی پناہ کمپیوٹر تو ہم نے بنانے نہیں کھانے پینے کی اشیاء میں تو خود کفیل ہو جائیں۔ لیکن نہیں، قسم کھائی ہوئی ہے کہ کھانے پینے کی چیزیں بھی باہر سے منگوانی ہیں۔ کہنے کو ہم زرعی ملک ہیں لیکن فی الوقت گندم بھی امپورٹ کر رہے ہیں اور چینی بھی۔ ہنڈیا ہماری خوردنی تیل کے بغیر بنتی نہیں اور خوردنی تیل کیلئے پام آئل بھی ہم باہر سے منگواتے ہیں۔ پیاز باہر سے آتا ہے اور ٹماٹر بھی۔ لہٰذا اگر ہمیں آئی ایم ایف کی طرف سے ناکوں چنے چبوائے جا رہے ہیں تو وہ ٹھیک ہی کر رہے ہیں۔ ہم نے سدھرنا جو نہیں ہے۔ ٹھیک کام نہیں کرنا۔ ڈسپلن نام کی چیز قوم میں ہے نہیں۔ محنت کا جیسا رواج ہونا چاہئے اُس کا فقدان ہے۔ اس لیے حیرانی کی بات نہیں کہ چوری چکاری بھی زوروں پر اور پارسائی کے نعرے بھی اونچے اونچے۔
علاج کیا ہے اِس صورت حال کا؟ علاج سادہ ہے، اپنا لوہے کا کشکول اٹھائیں اور بھیک مانگنے نئے عزم و حوصلے سے نکل پڑیں۔ ایسا کرتے وقت سر جھکنا نہیں چاہئے، ہم شاہین ہیں، اصل پہاڑوں پر نہیں تو الف لیلوی کہانیوں کے پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا رکھتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے پاس پھر جائیں اور اگر لیٹنے کا کہا گیا ہے تو مزید لیٹیں۔ اِس کے ساتھ ہی دو تین اور تجربات کر ڈالیں۔ کلکتہ تک ہمارے میزائل جاتے ہیں تو کوشش ہونی چاہئے کہ ہندوستان کے صوبہ آسام تک پہنچیں۔ اور دیرینہ دوست سعودی عرب کو نہ بھولیں۔ تھوڑی سی سبکی ہوتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ناز نخرے اٹھانے پڑتے ہیں تو ایسا کریں‘ لیکن پٹرول کی مد میں کچھ مزید امداد مانگیں۔ نامعلوم وجوہات کی بناء پہ چین تھوڑا ٹھنڈا سا پڑا ہوا ہے۔ قرضہ جات وہاں سے کم آ رہے ہیں۔ سی پیک پروجیکٹوں پر کام بھی سست روی کا شکار ہے۔ جو ریل لائن پشاور سے کراچی چین کی مدد سے بننی تھی اُس کے لیے چین پیسے نہیں دے رہا۔ کوئی بات نہیں، ڈھٹائی سے کام لینا چاہیے اور جو چینی باشندہ ہاتھ آئے اُس کے کان میں اونچی آواز میں کہیں کہ ہماری دوستی پہاڑوں سے اونچی سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے۔ شاید چین کے دل میں کوئی نرمی پیدا ہو جائے۔
ویسے بھی یہ کون سی شہد سے میٹھی دوستی ہے کہ ایک بلین ڈالر کے لیے ہم نے عزت گنوائی جب چین ہلکا سا کھانسے بھی تو ایک بلین کیا کئی بلین ڈالر اُس کے منہ سے نکل آئیں۔ مجوزہ سٹیٹ بینک بل کا تو میں نے ذکر ہی نہیں کیا۔ قانون کو پڑھیں تو ہوش ٹھکانے آ جائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved