تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     24-11-2021

انگریز سے زیادہ خطرناک انگریزی

بھاجپا سرکار نے انسانی وسائل کی وزارت کا نام بدل کر اسے پھر سے وزارت تعلیم بنا دیا ہے۔ یہ تو اچھا ہی کیا لیکن نام بدلنا کافی نہیں‘ اصلی سوال یہ ہے کہ اس کا کام بدلا کہ نہیں؟ وزارت تعلیم نے اگر سچ مچ کچھ کام کیا ہوتا تو پچھلے سات سالوں میں اس کے کچھ نتائج بھی دکھائی پڑنے لگتے۔ وزارتِ تعلیم کا کام بدلا یا نہیں لیکن سات سال میں اس کے چار وزرا بدل گئے یعنی کوئی بھی وزیر اوسطاً دو سال بھی کام نہیں کر پایا۔ اس بیچ کئی کمیشن اور کئی کمیٹیاں بنیں لیکن تعلیم کی گاڑی جہاں کھڑی تھی وہیں کھڑی ہے۔ اب ایک نیا اعلان یہ ہوا ہے کہ پرائمری تعلیم سے اعلیٰ تعلیم اور تحقیقی کام تک بھارتی زبانوں کو فروغ دیا جائے گا۔ یہ نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے تحت کیا جائے گا‘ لیکن پچھلے ڈیڑھ دو سال سرکار نے خالی کیوں نکال دیے؟ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے 74 سال سے تعلیم میں کوئی بنیادی تبدیلیاں نہیں ہوئیں۔ اندرا گاندھی کے زمانے میں وزیر تعلیم ترگن سین اور بھاگوت جھا آزاد نے کچھ قابل تعریف قدم ضرور اٹھائے تھے ورنہ سبھی سرکاریں تعلیم کو نظر انداز ہی کرتی رہی ہیں۔ لارڈ میکالے کی تعلیم کی نقل آج بھی جوں کی توں ہورہی ہے۔ انگریزی کی غلامی کی وجہ سے پورا بھارت نقال بن گیا ہے۔ وہ اپنی اصلیت‘ قدیم اسلوب اور کارناموں سے خود کو محروم کرتا ہے اور مغربی سوچ اور طرز زندگی کی اندھی تقلید کرتا ہے‘ اسی لیے کئی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں بھارت آج بھی پھسڈی ہے۔ غیرملکی زبانوں اور غیرملکی سوچ کا فائدہ اٹھانے میں کسی کو بھی چوکنا نہیں چاہئے لیکن جو اپنی زبانوں کو نوکرانی اور غیرملکی زبان کو مہارانی بنا دیتے ہیں وہ چین اور جاپان کی طرح خوشحال اور طاقتور نہیں بن سکتے۔ بھارت جیسے درجنوں ملک‘ جو برطانیہ کے غلام تھے‘ آج بھی کیوں لنگڑا رہے ہیں؟ اسی لیے کہ آزادی کے 74 سال بعد آج بھی بھارت میں اگر کسی کو اونچی نوکری چاہئے‘ عہدہ چاہئے‘ مرتبہ چاہئے‘ اعزاز چاہئے تو اسے انگریزی کی غلامی کرنی پڑے گی۔ انگریز تو چلے گئے لیکن انگریزی ہم پر لاد گئے۔یہ انگریزی تو انگریزوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ کیا بھارت کبھی انگریزی زبان سے نجات حاصل کر پائے گا؟
پاؤں کا کانٹا
معاملہ کشمیر کا ہو تو اقوام متحدہ میں پاکستان کوئی موقع نہیں چھوڑتا ہے۔ وہ ہر موقع پر کشمیر (مقبوضہ)کا سوال اٹھائے بغیر نہیں رہتا چاہے جنرل اسمبلی ہو‘ سلامتی کونسل ہو یا ہیومن رائٹس کونسل! مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ میں امریکہ بھی پاکستان کے موقف کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے۔ چین تو شروع دن سے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور پاکستان کے موقف کا ساتھ دیتے ہوئے چین کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتا۔ مسئلہ کشمیر پر چین کی بھارت سے اپنی ناراضی کی ایک وجہ بھی بن گئی ہے‘ جب سے مودی سرکار نے ریاست کی آئینی حیثیت کو تبدیل کیا اور کشمیر کو مختلف حصوں میں بانٹا ہے۔ مسئلہ کشمیر کو لے کر ترکی اور ملائیشیا بھی پاکستان کے معاون بنے ہوئے ہیں۔ گزشتہ برس جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس میں ترکی کے صدر طیب اردوان نے کہا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے بہت اہم ہے‘ یہ اب بھی ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے‘ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے‘ ہم مذاکرات‘ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی توقعات کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کرنے کے حق میں ہیں۔ مہاتیر محمد نے بھی اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی فوج نے کشمیر پر قبضہ کر رکھا ہے لہٰذا یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ اس کے بعد تیل کے بھارتی تاجروں نے ملائیشیا سے پام آئل کی خریداری بند کرنے کی دھمکی دی مگر مہاتیر نے کہہ دیا کہ کشمیر کے معاملے پر وہ اپنے موقف پر قائم ہیں۔ کشمیر کے تنازع پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں جن پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ سچ یہ ہے کہ بھارت ہی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا۔ پاکستان اور بھارت بیٹھ کر کشمیرکے بارے میں کوئی راستہ نکالیں یہی بہتر ہے۔ اس مدعے پر دونوں ملکوں میں کشیدگی کے واقعات کی مسلسل تاریخ ہے اور دونوں میں نارمل تعلقات ناممکن بنے ہوئے ہیں۔ مسئلہ کشمیر ہی دونوں ملکوں کے تعلقات کے پاؤں میں چبھا ہوا کانٹا ہے۔ اس کانٹے کی تکلیف کو اور کتنی دیر سہیں گے‘ کیوں نہ اسے نکالنے کی طرف توجہ دی جائے۔ کشمیر کا مسئلہ جنوبی ایشیا کی سیاست‘ معیشت اور علاقائی تعلقات میں پیشرفت میں رکاوٹ ہے۔ ہمیں اب یہ بات مان لینی چاہیے۔
قانون کو پٹخنی
بھارتی ریاست بہار میں زہریلی شراب پی کر مرنے والوں کی خبر دل دہلانے والی تھی۔ جس صوبے میں مکمل شراب بندی ہو۔ اس میں درجنوں لوگ شراب پینے کی وجہ سے مر جائیں اور سینکڑوں لوگ ادھ مرے ہو جائیں اس کا مطلب کیا نکلا؟ کیا یہ نہیں کہ شراب بندی کے باوجود شراب بہار میں دندنا رہی ہے۔ یہ تو زہریلی تھی اس لیے اس کا پتہ چل گیا بلکہ اس نے خود اپنا پتہ دے دیا‘ اپنے آپ کو پکڑوا دیا‘ لیکن جس شراب کی وجہ سے لوگوں کو صرف نشہ ہوتا ہے ان کی تعداد کتنی ہو گی‘ کچھ پتہ نہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اب پہلے سے بھی زیادہ شراب بن رہی ہو‘ زیادہ بک رہی ہے اور زیادہ پی جا رہی ہو۔ اس میں بھارت کے سرکاری افسران اور پولیس والوں کی بھی پوری مہربانی ہوتی ہے۔ نتیش کمار کی ہمت کا میں بڑا مداح رہا ہوں کہ انہوں نے شراب بندی کا یہ دلیرانہ قدم اٹھایا۔ ان سے پہلے سماج وادی وزیر اعلیٰ کرپوری ٹھاکر نے بھی بہار میں شراب بندی کر دی تھی۔ 2017ء میں جب پٹنہ میں نتیش سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے میری درخواست پر پٹنہ کے ہوٹلوں میں شراب کی جو چھوٹ تھی اسے بھی فوراً ختم کر دیا تھا۔ خود نتیش اور نشہ بندی کے آگرہی میرے جیسے لوگوں کو اس حقیقت کا ذرا بھی اندازہ نہیں کہ بھارت میں جنہیں شراب کی لت پڑ گئی ہے انہیں قانون سے نہیں چھڑایا جا سکتا ہے۔ جس نے پینے کی ٹھان رکھی ہے وہ بہار کی سرحد پار کرے گا اور کسی دیگر صوبے یا نیپال کی سرحد میں گھس کر پئے گا۔ عام کمپنیوں کی بوتلیں نہیں بکنے دیں گے تو وہ انہیں سمگلنگ سے حاصل کرے گا اور اگر آپ نے اسے روکنے کا بندوبست کر لیا تو وہ گھروں میں بنی شراب پئے گا۔ گھر میں بنی یہ شراب پینے والوں کے ہوش تو اڑاتی ہی ہے ان کی جان بھی لے بیٹھتی ہے۔ ہریانہ میں بنسی لال اور آندھر میں راما راؤ نے بھی شراب بندی کی تھی لیکن وہ چل نہیں پائی۔ اب تو کانگرس ورکنگ کمیٹی کے ممبران پر سے بھی شراب بندی کی پابندی ہٹائی جا رہی ہے۔ اپنے کئی وزرائے اعلیٰ دوستوں کو میں نے کئی بار چھپ چھپ کر شراب پیتے ہوئے دیکھا ہے لیکن میں ایسے سینکڑوں آریہ سماجیوں‘ سروودیوں‘ گاندھی وادیوں‘ رام کرشن مشنریوں کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے لاکھ درخواستوں کے باوجود شراب کی ایک بوند بھی زندگی میں کبھی نہیں چھوئی۔ میں جب ماسکو میں پڑھتا تو یہ دیکھ کر دنگ رہ جاتا تھا کہ کمیونسٹ نیتاؤں کے ساتھ ساتھ پادری لوگ بھی چلتی میٹرو ریل میں بے ہوش پڑے ہوتے تھے۔ ویسے مسلم ملکوں اور بھارت میں شراب کا چلن اتنا نہیں ہے جتنا یورپی اور افریقی ممالک میں ہے۔ اس کی اصل وجہ بچپن میں پڑے مضبوط سنسکار ہیں۔ قانون تبھی اپنا کام کرے گا جب پہلے ماں باپ اور معاشرہ بچوں میں نشہ کے خلاف ادراک پیدا کریں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved