تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     24-11-2021

بلھے شاہ کی دھرتی اور چیخیں ہی چیخیں

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی خود سے منسوب آڈیو ٹیپ کو مسترد تو کردیا ہے لیکن ملک بھر میں مباحثہ جاری ہے ۔کوئی اسے اصلی تو کوئی جعلی ثابت کرنے پر بضد ہے۔جسٹس قیوم کی آڈیو پر یقین کرنے والے ثاقب صاحب کی اس ٹیپ کو جعلی اور سازش قرار دے رہے ہیں۔اکثر حکومتی چیمپئنز جسٹس (ر) ثاقب نثار سے منسوب اس آڈیو پر کوئی معقول بات کرنے کے بجائے جسٹس قیوم کی فون کال کی ریکارڈنگ کا حوالہ دے کرجواب آںغزل پیش کررہے ہیں۔ ماحول میں گرما گرمی سے لے کر اتار چڑھائو تک ‘بیانیوں میں تبدیلی سے لے کر وفاداریاں بدلنے تک ‘ کوئے اقتدار سے گلیوں اور بازاروں تک نجانے کیسی کیسی لیکس نے اچھے اچھوں کی لکیریں نکلوا دی ہیں۔کبھی وکی لیکس‘ کبھی ڈان لیکس‘ کبھی پانامہ لیکس تو کبھی پنڈورا لیکس۔ ان سبھی لیکس کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد اور ٹارگٹ ہوتا ہے۔ ان لیکس کا کمال یہ ہے کہ صرف ٹارگٹ ہی ہِٹ ہوتا ہے جبکہ لیکس کی فہرست میں شامل دیگر کردار اکثر بال بال بچ جاتے ہیں۔ جس طرح پانامہ لیکس میں صرف نواز شریف ٹارگٹ ہوئے اور دیگر کردار آج بھی لیکس میں موجود اور محفوظ ہیں‘ اسی طرح ڈان لیکس میں بھی مریم نواز ٹارگٹ ہوئیں اور ردِ بلا کے لیے ایک وفاقی وزیر اور سرکاری افسر کوقربانی کا بکرا بنا کر منظر سے ہٹا دیا گیا۔
مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے بیرونِ ملک بیٹھے اکثر ہم وطن بھی آلہ کار بن کر حقانی لیکس سمیت نجانے کیسی کیسی لیکس کا ایڈونچر کرتے رہے ہیں۔ تاہم احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو لیک نے بھی چار دن سیاسی سرکس میں خوب رونق لگائے رکھی۔ آڈیو لیک ہو یا ویڈیو لیک‘ دونوں کے پیچھے ایجنڈے اور مقاصد کارفرما ہوتے ہیں۔جس طرح جسٹس قیوم کی فون کال کی ریکارڈنگ آج بھی حوالے کے طور پر حکومتی چیمپئن استعمال کررہے ہیں اسی طرح جسٹس (ر) ثاقب نثار کی آڈیو ٹیپ بھی تاریخ کے ان اوراق میں شامل ہوچکی ہے جو دفن ہونے کے باوجود بوقتِ ضرورت زندہ کرلیے جاتے ہیں۔تاریخ کے یہی اوراق الٹ پلٹ کر دیکھیں تو پاور گیم کے کھلاڑیوں کی اکثر سرگرمیاں اورنجی محفلوں میں کی جانے والی گفتگو گیم چینج کرنے کا باعث بنتی رہی ہے۔نجی محفلوں میں کی جانے والی گفتگو لیک ہونے سے لے کر زبان زد عام ہونے تک کس کا کیا کردار ہوتا ہے۔ اس بارے میں واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ شریک محفل ہی جب ''شریکا‘‘بننے پر آمادہ ہوجائیں تو خفیہ میٹنگز ہوں یا سرگرمیاں‘مجلسِ یاراں ہو یا بزمِ ناز سبھی کا آنکھوں دیکھا حال آڈیویا ویڈیو کی صورت میں لیک کرنے والے اپنی ڈیوٹی خوب نبھاتے ہیں۔اس بارے میں مزید تفصیل اور گہرائی میں جانے سے اختصار اور احتیاط ہی بہتر ہے کیونکہ سمجھنے والے سمجھ گئے جو نہ سمجھے وہ اناڑی ۔
آنے والے دنوں میں جسٹس (ر) ثاقب نثار کی آڈیو ٹیپ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور اس کو کائونٹر کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اور معقول جواب سامنے آتا ہے یا جسٹس قیوم کی آڈیوٹیپ کاحوالہ ہی دیاجاتا رہے گا؟ یہ ابھی واضح نہیں؛ تاہم ہوشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ جسٹس(ر) ثاقب نثار کی آڈیوکو سازش اور جعلی ثابت کرنے کے لیے مناسب اور ناقابلِ تردید توجیہات اور جواز پیش کیے جائیں ۔ بار بار جسٹس قیوم کی آڈیو کا حوالہ دینے سے معاملہ مشکوک اور مزید طول پکڑتا دکھائی دے رہا ہے۔اس صورتحال میں ایک لطیفہ بے اختیار یاد آرہا ہے کہ ایک شخص کا معمول تھا کہ وہ رات کواپنے گھر کی چھت پر اوٹ پٹانگ حرکتیں اور غل غپاڑہ کیا کرتا تھا۔ اہل محلہ اس کی ان حرکتوں سے نہ صرف نالاں تھے بلکہ اکثر نوبت لڑائی جھگڑے تک آن پہنچتی تھی۔معاملہ جب حد سے بڑھ گیا تو محلے کے ایک معزز شخص نے سوچا کہ کیوں نہ اس شخص کو رات کے بجائے دن میں اس وقت سمجھایا جائے جب یہ ہوش میں اور گفتگو کے قابل ہو۔پروگرام کے مطابق معزز شخص اپنے ہمسائے کے پاس گیا اور اسے احساس دلانے لگا کہ اس کی نا مناسب حرکتوں کی وجہ سے اہل محلہ کا سکون برباد ہوچکا ہے اور اسے اپنی حرکتوں سے اب باز آجانا چاہیے ۔یہی اچھی ہمسائیگی کا تقاضا ہے۔ ہمسائے نے پوری بات تسلی سے سنی اور آنے والے معزز ہمسائے کو کہا کہ ٹھیک ہے لیکن تمہارا باپ بھی تو لنگڑا کر چلتا تھامیں نے تو کبھی اس کی غیر متوازن اور بے ڈھنگی چال پر اعتراض نہیں کیا۔ قارئین! یہ لطیفہ بطور استعارہ اور صورتحال کی وضاحت کے لیے شیئر کیا ہے ۔ اس کا مرکزی کردار اور محلے دار سبھی فرضی ہیں‘ دور کی کوڑی لانے اور کوئی ٹانکا جوڑنے سے خدارا گریز ہی کیا جائے۔
کوئے اقتدار میں غلام گردشوں اور محلاتی سازشوں سے لے کر بوئے سلطانی میں سرشار حکمرانوں اور ان کے شریک اقتدار سیاسی اور انتظامی کرداروںکی ان سبھی لیکس پر بات کریں گے جو اِن کے دلوں کے بھید بھائو سے لے کر نیت اور ارادوں کے سبھی پردے چاک کرسکتی ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر لمحۂ موجود تک حصولِ اقتدار سے لے کر استحکامِ اقتدار تک سبھی مراحل پر کمانڈ اینڈ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کرنے والے کہیں باہر سے نہیں آئے تھے۔ یہ سبھی ملک و قوم پر حکمرانی کے نام پر کیسے کیسے شوق پالتے اور پورے کرتے رہے ہیں۔ان سبھی حکمرانوں کے شوقِ حکمرانی پر غیر جانبدار اور پورے سچ پر مبنی تحقیق اگر سامنے لائی جائے تو اسے شرمناک تاریخ کا عنوان بجا طور پر دیا جاسکتا ہے۔جس کا دیباچہ صرف اتنا ہو کہ پڑھتا جا شرماتا جا۔
طرزِ حکمرانی کی شرمناک تاریخ اورلیکس پرقلم رواں دواں تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ اعصاب اور نفسیات پر ہتھوڑے کی طرح پڑا۔ یوں محسوس ہوا کہ اچانک چھت سرپر آن گری ہو۔ہاتھ شل اورقلم پتھر کا بن کر سراپا احتجاج دکھائی دیئے۔ ڈھونڈے سے بھی الفاظ نہ ملتے ہوں بلکہ الفاظ کے قحط کا سامنا ہو تو کوئی کس طرح اپنے اوپر ٹوٹنے والی قیامت خیز کیفیت کا اظہار کرسکتا ہے۔ بمشکل خود کواکٹھا کرکے نجانے کس طرح اس ویڈیوکلپ کا منظر نامہ شیئر کر رہا ہوں۔قصور کے ایک تھانے میں تفتیش کے لیے بنائے گئے عقوبت خانے میں کمسن بچے کے سامنے اس کی ماں کو الٹا لٹا کر جوتے برسانے والی ایک لیڈی کانسٹیبل اس وحشت ناک منظر کی ساتھی کانسٹیبل سے یوں ویڈیو بنوا رہی تھی جیسے کوئی کارنامہ سرانجام دے رہی ہو۔ماں کی چیخوں سے کمسن کی چیخیں ٹکرا کر ماحول کو مزید کربناک بنا رہی تھیں۔بلھے شاہ کی دھرتی پر پولیسنگ اور تفتیش کے نام پر جو حشر برپا کیا گیا ہے اس پر تحریک انصاف کی حکومت یقینا '' مبارکباد‘‘ کی مستحق ہے ۔ابھی تو پولیس کے دامن پرمعصوم زینب سمیت نجانے کتنی معصوم چیخوں کا قرض باقی تھا۔ برسراقتدار آنے سے پہلے جس پولیس کو شہباز فورس کہا جاتا تھا اور پنجاب کو پولیس سٹیٹ کہنے والے کیسے کیسے دعوے کرتے تھے کہ ان کے برسر اقتدار آنے کے بعد عوام کو تھانوں میں ذلت‘ دھتکار اور پھٹکار کے بجائے عزت اور انصاف ملے گا‘پولیس دہشت کے بجائے امان کی علامت ہوگی‘اختیارات اور حدود سے تجاوز کرنے والااپنے منصب پرنہیں رہے گا‘سماجی انصاف کا دوردورہ اور قانون کا بول بالا ہوگا۔جس پولیس کی ریفارمز کے دعوے کرتے وہاں جابجا ڈیفارمز کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔پولیس گردی کے ریکارڈ سے لے کر بدترین طرزِ حکمرانی کے سبھی ریکارڈ ریکارڈ مدت میں ٹوٹ چکے ہیں ۔جوں جوں یہ ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیںعوام کے سبھی خواب بھی کرچی کرچی ہوتے چلے جارے ہیں۔اب یہ عالم ہے کہ طرزِ حکمرانی کی تاب نہ لاتے ہوئے عوام بھی کرچی کرچی دکھائی دیتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved