تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     24-11-2021

گمشدہ نعمت

زندگی میں خواب ہر کوئی دیکھتا ہے‘ لیکن کم لوگ ہوتے ہیں جو خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے پلاننگ کرتے ہیں۔ اس سے بھی کم وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس پلاننگ پر عمل بھی کرتے ہیں، اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو بالآخر اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔یہ لوگ اچھے دوست بناتے ہیں‘باعلم لوگوں کی صحبت میں رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو سپورٹ کر کے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ کبھی بھی باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتے بلکہ اچھی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔یہ جانتے ہیں کہ دنیا میں ہر کسی کو خوش نہیں رکھا جا سکتا، جو ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پرلے درجے کا بیوقوف شمار کیا جاتا ہے۔ ویسے بھی زندگی میں ہر وہ انسان جو خوشی اور کامیابی چاہتا ہے‘ اسے چند باتیں ضرور ذہن نشین کر لینی چاہئیں مثلاًیہ کہ دنیا میں ہر کوئی اپنی جنگ لڑ رہا ہے‘ اپنے اپنے دائرے میں کوشش کر رہا ہے اس لئے کسی کو کمزور سمجھنا یا اس پر تنقید کرنے میں وقت ضائع کرنا مناسب نہیں۔ دنیا کے بارے میں آپ مختلف لوگوں سے رائے لیں‘ آپ کو سب کی آرا مختلف ملیں گی۔ کوئی دنیا کو ظالم کہے گا‘ کسی کو دنیا مصیبتوں کا سمندر دکھائی دے گی‘ کوئی مطمئن ہو گا تو کوئی اس میں اتنا خوش ہو گا کہ اسے ہر چیز شاندار اور عمدہ نظر آتی ہو گی۔ یہ دنیا سب کو ایک جیسی اس لئے دکھائی نہیں دیتی کیونکہ ہم سب اس کو اپنی اپنی سوچ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جیسی ہماری سوچ ہوتی ہے‘ ویسا ہی منظر ہمیں باہر دکھائی دیتا ہے۔
اگر انسان کی کسی روز نیند پوری نہ ہو تو وہ سارا دن لوگوں سے لڑتا جھگڑتا رہے گا لیکن اگر وہ خوشگوار نیند کے بعد بیدار ہوتا ہے تو اس کے دماغ اور سوچ پر خوش کن اثرات مرتب ہوں گے اور وہ دوسروں سے متعلق اچھی رائے رکھے گا۔ ہم میں سے بہت سے لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کامیابی خوشی لے کر آتی ہے حالانکہ اصل میں خوشی کی وجہ سے کامیابی آتی ہے، مثلاً اگر ایک انسان اپنے کام سے خوش نہیں ہے‘ اپنے دوستوں عزیزوں سے راضی نہیں ہے‘ اسے ہر لحظہ اپنی تقدیر سے شکوہ رہتا ہے تو اسے کامیابی نہیں مل سکتی۔ دوسری جانب وہ شخص جو اپنی تقدیر‘ اپنے حالات اور اپنے دوستوں‘ عزیزوں سے خوش ہے‘ ہر کسی کو حسد اور بغض کی عینک سے نہیں دیکھتا‘ اسے کامیابی جلد مل جاتی ہے کیونکہ ان چیزوں کے اثرات اس کے اعصابی نظام پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ اعصاب کو سکون ملتا ہے تو وہ آگے جسم اور دماغ کو مثبت سگنل بھیجتے ہیں جس کی وجہ سے انسان اپنا مقصد جلد حاصل کر لیتا ہے۔
یہ درست ہے کہ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے‘ہم میں سے ہر کوئی مصروف بھی ہے اور طرح طرح کے نئے چیلنجز بھی آ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر ہماری طبیعت میں بے چینی اور بے قراری ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے دوستوں ‘ اپنے عزیزوں سے ملنے کی کوشش نہیں کرتے۔ قدرت نے انسان کی فطرت اور طبیعت ایسی بنائی ہے کہ وہ دوسروں سے جتنا میل ملاقات کرتا ہے اتنا ہی اس کے اندر چارج پیدا ہوتا ہے اور یہ چارج اسے متحرک‘ توانا اور ہشاش بشاش رکھتا ہے۔ آپ نے مقناطیسی قوت رکھنے والے ایسے لوگوں کو دیکھا ہو گا جن کی کمپنی میں ہر کوئی وقت گزارنا چاہتا ہے ‘جو محفل کی جان ہوتے ہیں اور علم‘ خوشیاں اور قہقہے بانٹتے ہیں۔ اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو تلاش کریں اور ان سے ملنے کے لئے وقت نکالیں جن سے مل کر آپ کو راحت‘ سکون اور اطمینان نصیب ہوتے ہیں۔ مال و اسباب سب کچھ نہیں ہوتا۔
ایک اچھا دوست‘ جس کے پاس اگر آپ بیس منٹ گزار تے ہیں اور کھل کر دس بارہ قہقہے لگا لیتے ہیں‘ وہ بلاوجہ کی آئوٹنگ‘ ڈائننگ اور شاپنگ سے ہزار ہا درجے بہتر ہے۔پطرس بخاری نے کہا تھا :دوست وہ ہوتا ہے جو پاس بیٹھا ہو اور جو کوئی بات بھی نہ کرے لیکن پھر بھی آپ کو اچھا لگے کہ وہ میرے پاس ہے‘ تو یہ دوست ہے۔ ایک اچھے دوست میں آپ کو یہ سات خوبیاں ضرور ملیں گی۔
ایک‘ آپ اس پر اعتبار کر سکتے ہیں‘ پورے یقین کے ساتھ کہ وہ آپ کے راز کو راز ہی رکھے گا۔
دو‘ وہ آپ کا خیال رکھے گااور اسے آپ کی فکر رہے گی۔
تین‘اس میں مزاح کی حس آپ کے مزاج کے ساتھ ہم آہنگ ہو گی۔ یعنی جن باتوں پر آپ کو خوشی ہوتی ہو گی‘ جن باتوں پر آپ بے اختیار قہقہے لگاتے ہوں گے انہی باتوں پر اسے بھی خوشی ہو گی ۔
چار‘ آپ کی اور اس کی سوچ ملتی ہوگی۔ کئی مرتبہ ایسا ہو گا کہ آپ بھی یکدم وہی بات کریں گے یا آپ کے منہ سے بھی وہی الفاظ نکلیں گے جو آپ کا دوست سوچ رہا ہو گا یا بولے گا۔
اچھے اور گہرے دوست کی پانچویں نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ آپ کی باتوں کو تحمل اور سنجیدگی سے سنے گا۔ آپ کو نظر انداز نہیں کرے گا بلکہ آپ کو بیک اَپ کرے گا۔
چھ‘ وہ آپ سے مشکل سے مشکل وقت میں بھی وفاداری کا اظہار کرے گا اور ضرورت پڑنے پر ہر خطرہ مول لے گا۔
ساتویں خوبی یہ کہ وہ آپ کو اس وقت بھی دھوکا نہیں دے گا جب آپ کی اس سے دوستی نہیں رہے گی۔ اچھا دوست ہوتا ہی وہ ہے جو جتنا وقت آپ کے ساتھ رہے‘ آپ سے مخلص رہے لیکن اگر دوستی میں دراڑ آ جائے تب بھی آپ کو عزت دے اور ماضی کو لے کر آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ اگر آپ کا بچپن کا کلاس فیلو‘کالج فیلو یا کوئی اور دوست ایسا ہے تو پھر آپ دنیا کے خوش نصیبوں میں سے ہیں کیونکہ آج دنیا میں سب سے غریب وہی شخص ہے جس کا کوئی دوست نہیں ہے اور جس کے پاس کوئی بہترین دوست ہو اس کی آدھی پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم خواب بُننے اور منصوبے بنانے میں مگن رہتے ہیں اورچھوٹی چھوٹی خوشیوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ ہمارے موبائل فون میں سوشل میڈیا کے علاوہ بھی ایک چیز ہے اور وہ ہے فون نمبرز کی فہرست‘ اُن لوگوں کی جن کے ساتھ ہم کبھی بہت وقت بِتاتے تھے لیکن برسوں گزرنے کے بعد بھی ہم انہیں کال تک نہیں کرتے۔ جن اداروں میں ہم کام کرتے تھے‘ جن جگہوں پر ہم رہتے تھے وہاں کے ہمسایے ‘ اگر یاد کریں تو بہت سے ایسے چہرے ہمارے سامنے آ جائیں گے جن کے ساتھ ہماری بہت سی خوشگوار یادیں وابستہ ہوں گی۔ہمارے وہ استاد جن سے ہم پڑھے‘ ہمارے پرانے محلے کی چھوٹی چھوٹی دکانوں کے دکاندار جن سے ہم سودا سلف لیتے تھے‘ وہ موٹرسائیکل مکینک جن سے ہم بائیک ٹھیک کراتے تھے‘ کالج کے وہ سکیورٹی گارڈجو ہمیں روزانہ سلام کرتے تھے‘وہ بزرگ جو روزانہ ہمارے گھر کے سامنے سے گزر کر مسجد جایا کرتے تھے یا ہمارے دوستوں کے دوست‘ جو ہمارے ساتھ بھی دوستوں کی طرح برتائو کرتے تھے،ہماری یادداشتوں میں ایسی ایک طویل فہرست ہو گی جو ہماری سوچ کے دھندلکوں میں کہیں گم ہو چکی ہے‘ اگر چاہیں تو ہم ذرا سی کوشش سے انہیں ڈھونڈ سکتے ہیں‘ اپنے موبائل فون کی فہرست کو ایک طرف سے دیکھنا شروع کر دیں تو ہمیں ایسے بہت سے لوگ‘ بہت سے دوست مل جائیں گے جن سے ہماری کوئی لڑائی‘کوئی دشمنی نہیں ہوں گی لیکن ہم نے کبھی ان سے رابطہ کرنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں ہو گا اور یہی لوگ ہمارے ایک فون پر خوشی سے نہال ہو جائیں گے اور ہمیں بھی یوں لگے گا جیسے ہمیں نئی زندگی‘ کوئی گمشدہ نعمت واپس مل گئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved