بھارت میں اس وقت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پرکڑا وقت ہے کیونکہ آر ایس ایس کے پیروکار نریندر مودی کی سرکار کا ایک ہی مشن ہے کہ بھارت سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا خاتمہ ہو جائے۔ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں، سکھ ہوں یا کوئی اور‘کوئی بھی محفوظ نہیں ہے، یہاں تک کہ نچلی ذات کے ہندو اور شودروں کا بھی ہندوتوا کے پیروکاروں نے جینا مشکل کررکھا ہے۔ یہ تمام تر اختیارات اور مراعات اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں اور اقلیتوں کو بھارت سے بیدخل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات واضح رہے کہ ہندو مذہب اور ہندوتوا الگ الگ ہیں۔
اس وقت پڑوس سے جو سب سے زیادہ تکلیف دہ خبر موصول ہوئی ہے‘ وہ مقبوضہ کشمیر میں جعلی پولیس مقابلے میں حیدر پورہ کے دو تاجروں کو شہید کرنے کی خبر ہے۔ الطاف بھٹ اور ڈاکٹر مدثر‘ دونوں نہتے تھے ان کو دہشت گرد قراردے کر بھارتی پولیس نے شہید کردیا۔ الطاف بھٹ ایک بلڈنگ کے مالک تھے اور سیمنٹ کا بزنس کرتے تھے، ان کا کسی عسکری تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ صرف یہ قصور تھا کہ وہ مسلمان تھے اور کشمیری تھے۔ انہیں ان کے آفس سے اٹھایا گیا تھا اور بعدازاں ان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر انہیں شہید کر دیا۔ مقبوضہ وادی میں آئے روز کشمیریوں کو شہید کیا جا رہا ہے، ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور 'ہم پاکستانی ہیں‘ پاکستان ہمارا ہے‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔ وہ اپنے شہدا کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کرتے ہیں اور یہ بات غاصب بھارتی فوج کو ہضم نہیں ہو پاتی۔ الطاف بھٹ اور ڈاکٹر مدثر کو شہید کرنے کے بعد ان کی تدفین تک بھارتی حکام نے خود ہی کر دی۔ ان کے لواحقین کا رو رو کر برا حال ہے‘ وہ انصاف کی دہائی دے رہے ہیں۔ نافعہ الطاف جوالطاف بھٹ کی کم سن بچی ہے‘ نے روتے ہوئے کہا کہ اس کے تین سالہ بھائی کو پتا بھی نہیں کہ بابا کہاں چلے گئے ہیں، اس نے کہا: جب میں نے بھارتی سکیورٹی فورسز سے پوچھا کہ میرا بابا کو کیوں ماراتو وہ ہنسنے لگے۔ اس کشمیری بچی کا رونا اور اس کی فریاد ہر اس شخص کو رلا گئی جو دردِ دل رکھتا ہے۔ ڈاکٹر مدثر کی اہلیہ‘ والدہ اور دو سالہ بیٹی بھی سڑک پر احتجاج کرتی رہیں۔ بھارتی پولیس اس حوالے سے اپنے بیانات بار بار بدلتی رہی؛ تاہم عوام کے احتجاج کے بعد الطاف بھٹ اور ڈاکٹر مدثر کے جسدِ خاکی لواحقین کو لوٹا دیے گئے۔
اس وقت سلمان خورشید بھی بھارتی انتہا پسندوں کے نشانے پر ہیں۔ وہ بھارت کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ ان کی حال ہی میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے وزیراعظم نریندر مودی کی سخت گیر پالیسیوں پر سخت تنقید کی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں استدلال پیش کیا ہے کہ نریندر مودی کے دورِحکومت میں ہندوتوا سوچ اور آر ایس ایس کی مثال داعش اور بوکو حرام جیسی ہے۔ اس موازنے پر انتہا پسند بھڑک اٹھے اور نینی تال میں واقع سلمان خورشید کا گھرجلا دیا۔ سلمان خورشید نے اس حملے پر کہا ہے کہ یہ حملے مجھ پر نہیں بلکہ ہندو مذہب پر ہیں کیونکہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے‘ وہ ہندو مذہب کا حصہ نہیں۔ بھارت میں سچ بولنا جرم بنتا جارہا ہے اور سلمان خورشید نے اسی کا خمیازہ بھگتا۔ یہ بات حقیقت ہے کہ جب سے مودی سرکار آئی ہے‘ اقلیتوں کا جینا مشکل ہوگیا ہے اور انتہاپسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ سلمان خورشید کا تعلق کانگریس سے ہے اور ان پر حملہ کرنے والے بی جے پی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی کتاب ''سن رائز اوورایودھیا: نیشنلزم اِن آور ٹائم‘‘ کی اشاعت کے بعد انتہاپسند ہندو ان کی جان کے درپے ہو چکے ہیں۔
دہلی اس وقت سموگ کی لپیٹ میں ہے اور ایسی ہی دھند مودی سرکار کی آنکھوں اور سوچ پر بھی چھائی ہوئی ہے۔ نریندر مودی آر ایس ایس کے پیروکار ہیں‘ اسی لئے وہ اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھے ہوئے ہیں۔ اس وقت بھارت بھر میں اقلیتی گروہوں کی منظم نسل کشی کی جارہی ہے اور مودی سرکار خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ انتہا پسندوں کے ظلم کا شکار سب ہیں؛ مسلمان‘سکھ‘ جین‘ عیسائی‘ بودھ‘ پارسی‘ مائو‘دلت‘ شودر‘ آدی واسی؛ کوئی بھی برہمن اشرافیہ کے ظلم و ستم سے محفوظ نہیں ہے‘ جو سب کچھ اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے۔
بھارتی کسانوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا؟ ان کی مرضی کے برعکس قوانین بنا کر ان پر مسلط کر دیے گئے جس پر وہ سڑکوں پر نکل آئے‘ دھرنا دیا‘دہلی کا محاصرہ کیا۔ اس کسان تحریک میں 800 کے قریب قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ مودی سرکار کے قوانین سراسر کسان دشمن تھے؛ تاہم اب جبکہ پنجاب اور اترپردیش میں الیکشن قریب ہیں تو نریندر مودی سکرین پر جلوہ افروز ہوئے اور کہا: ہم نے پوری کوشش کی مگر کسانوں کو قائل نہ کر سکے لہٰذا اب ہم متنازع زرعی قوانین واپس لیتے ہیں۔ سب حیران رہ گئے کہ آٹھ سو ہلاکتوں اور ایک سال سے زائد عرصے پر محیط احتجاج پر مودی سرکار کا دل نہیں پگھل سکا‘ تواب کیا ہوگیا۔ سکھ دھرم کے بانی گرونانک کے جنم دن پر کرتار پور بارڈر کھول کر مودی حکومت نے دریا دلی اسی لئے دکھائی کہ وہ اترپردیش اور پنجاب میں ہونے والے انتخابات پر اثرانداز ہو سکے۔ جن لوگوں کے پیارے اس تحریک میں مارے گئے‘ وہ کسان یا سکھ کبھی بھی مودی سرکار کو ووٹ نہیں دیں گے۔ نریندر مودی نے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ ہم تینوں متنازع زرعی قوانین واپس لیتے ہیں‘ اور ہم پارلیمان میں ان قوانین کی منسوخی کے لئے آئینی عمل جلد ہی مکمل کر لیں گے مگر کسان تنظیموں کو حکومت کا اعتبار نہیں‘ اسی لیے انہوں نے اعلان کیا ہے کہ جب تک قوانین کو واپس نہیں لیا جاتا‘ ان کا احتجاج جاری رہے گا۔ سکھ کسانوں کے بڑھتے احتجاج سے مودی سرکار کو یہ بھی خدشہ ہو چلا تھا کہ کسان تحریک‘ جس کا بڑا حصہ سکھ ہیں‘ کہیں خالصتان کی تحریک نہ بن جائے۔
گزشتہ روز ٹویٹر سپیس پر میں نے کافی بھارتی صحافیوں اور کسان رہنمائوں کو سنا، وہ میری بات سے متفق تھے کہ یہ الیکشن پر اثرانداز ہونے کا ایک حربہ ہے؛ تاہم وہاں یہ بحث بھی جاری تھی کہ کیا مودی سرکار شہریتی ترمیمی بل (سی اے اے) اور این آر سی کے قوانین بھی واپس لے گی؟ یہ سراسر فرقہ وارانہ قوانین ہیں جن سے مسلم دشمن عزائم عیاں ہیں۔ اسی حوالے سے شاہین باغ دہلی میں دھرنا ہوا تھا جو سو دن تک جاری رہا۔ سی اے اے بھارت کے چہرے سے سیکولرازم کا نقاب ہٹا کر اس کے پیچھے چھپا ہندوتوا کا بھیانک رخ عیاں کرتا ہے۔ این آرسی کے مطابق صرف دستاویزات رکھنے والے افرادکو ہی بھارت کا شہری مانا جائے گا، حالانکہ اس وقت اقلیتوں کی اکثریت ایسی ہے جن کے پاس یہ دستاویزات نہیں ہیں‘ حالانکہ وہ نصف صدی سے بھی زائد عرصہ سے ہندوستان میں رہ رہے ہیں۔کیا جنہیں مودی سرکار بھارتی کہے گی صرف وہی بھارتی ہوں گے؟ ان متنازع قوانین کے تحت کئی سالوں سے بھارت میں مقیم افراد بھارتی شہریت کے حصول کے لیے درخواست دے سکتے ہیں مگر ان میں مسلمان شامل نہیں ہیں۔
اسی طرح مودی دور میں 5 اگست 2019ء کو ایک کالا قانون لاکرکشمیر کی جداگانہ ریاستی حیثیت ختم کردی گئی تھی اور مقبوضہ کشمیر کو بھارتی یونین قراردیا گیا تھا۔ ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعے کشمیر کی جداگانہ حیثیت والی آئینی دفعات 370 اور35 اے کو ختم کیا گیا جوکہ خود بھارتی قوانین کے مطابق غیر قانونی ہے۔ مذکورہ آرٹیکلز کی منسوخی کے ساتھ ہی کشمیر میں کیبل اور انٹرنیٹ وغیرہ کو بندکردیا گیا، ہر طرف کرفیو کا اطلاق ہوگیا تاکہ کشمیری اپنے حق کیلئے آواز بلند نہ کرسکیں۔ مودی کا بھارت اس وقت آتش فشاں کے دھانے پر ہے اور یہ لاوا کسی بھی وقت پھٹ کر باہر آسکتا ہے۔ مودی سرکار کا ہر قانون اقلیت دشمن ہے اور اقلیتوں کا غصہ کب بغاوت میں تبدیل ہوجائے‘ کسی کو نہیں معلوم۔ کتنے ہی محاذ اور کھل گئے ہیں‘پہلے صرف کشمیری بھارت سے نفرت کرتے تھے، اب سکھ‘ عیسائی‘ بودھ اور دیگر اقلیتیں بھی مودی سرکار سے نالاں ہیں۔ پہلے صرف پاکستان کے ساتھ بارڈر پر کشیدگی رہتی تھی‘ اب تو لداخ میں چین بھی بھارتی فوجیوں کو ماررہا ہے۔ افغانستان میں بھارت کا سارا نیٹ ورک تباہ ہوگیا‘ طالبان کے آنے بعد اسے وہاں سے دم دبا کر بھاگنا پڑا۔ ہر محاذ پر شکست کے بعد بھارت کو صرف بالی ووڈ‘ بھارتی میڈیا اور فیک خبروں کا آسرا رہ گیا ہے۔ مودی سرکار کے دور میں انتہاپسندی میں ہوئے اضافہ کو دیکھ کر سلمان خورشید کی بات سچ محسوس ہوتی ہے کہ مودی سرکار‘ آر ایس ایس اور ہندوتوا کا نظریہ داعش اور بوکو حرام سے مماثلت رکھتے ہیں۔