تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     24-11-2021

کن سوچوں میں گم رہتے ہو!

اس حقیقت سے کون انکارکرسکتا ہے کہ کم و بیش ہر انسان کے ذہن پر کچھ نہ کچھ کرنے کی دُھن سوار رہتی ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُسے کسی نہ کسی حوالے سے پہچانا جائے‘ منفرد سمجھا جائے اور احترام کی نظر سے بھی دیکھا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا محض خواہش کرلینے سے بات بن سکتی ہے؟ ایسا ممکن نہیں۔ محض خواہش کرلینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کسی بھی خواہش کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے خیالات کو عملی جامہ پہنانا پڑتا ہے۔ اگر محض خواہش کرلینے سے کام ہو جایا کرتے، بات بن جایا کرتی تو آج دنیا میں کہیں کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ سارا جھگڑا ہی اِس بات کا ہے کہ انسان سوچتا ہے تو عمل نہیں کرتا اور عمل کرنے پر آتا ہے تو سوچنا چھوڑ دیتا ہے۔
انسان کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ اوّل تو کچھ کرنے کے بارے میں آسانی سے سنجیدہ نہیں ہوتا یعنی سوچنے پر مائل نہیں ہوتا۔ اور اگر سوچنے پر مائل ہو جائے تو سوچوں ہی میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ عمومی سطح پر یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ سوچوں میں گم رہنے سے بھی کچھ ہوسکتا ہے۔ خیالی دنیا میں رہنے ہی کو کافی سمجھنے کے بہت سے نقصانات ہیں۔ نپولین بونا پارٹ کا مشہور مقولہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں کچھ کرنے کے لیے سو بار سوچیے مگر جب عمل کی گھڑی آجائے تو سوچنے کا عمل ترک کرکے میدانِ عمل میں قدم رکھیے‘ یعنی جب تک سوچنا ہے تب تک ہی سوچنا ہے۔ معقول حد تک سوچنے کے بعد عمل کو گلے لگانا ہی پڑتا ہے۔ خاص الخاص بات یہ ہے کہ سوچنے کے وقت عمل کی گنجائش کم ہوتی ہے اور جب عمل کی گھڑی آجائے تب سوچنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ یہ فرق سمجھنے میں جو بھی کامیاب ہوا وہ باقیوں سے آگے نکل گیا۔ کسی بھی معاشرے میں بہت سے رجحانات کارفرما رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی معاشرتی سطح پر بہت سے رجحانات فعال ہیں اور اِن رجحانات کے اچھے اور بُرے اثرات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ ہمارے ہاں عمل سے دوری ایک باضابطہ رجحان کا درجہ رکھتی ہے۔ ہر پس ماندہ معاشرے کی طرح ہمارے ہاں بھی باعمل رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے سے گریز ایک ایسا رجحان ہے جو گہرائی بھی رکھتا ہے اور گیرائی بھی۔ لوگ عمل سے گریزاں رہنے کی راہ پر یوں گامزن رہتے ہیں کہ دیکھتے ہی بنتی ہے۔
کسی بھی معاشرے میں فکر و عمل کے متوازن امتزاج والے لوگ کم ہی ملتے ہیں۔ کہیں فکر وتخیل کا تناسب زیادہ ملتا ہے تو کہیں عمل کا۔ بہت سے لوگ بیشتر معاملات میں سوچتے رہنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی بھی معاملے میں محض امکانات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ اور پھر امکانات کا جائزہ لینے کا یہ عمل اتنا طویل ہو جاتا ہے کہ وہ اِسی میں گم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ شخصی ارتقا کے حوالے سے متحرک مفکرین، مقررین اور مصنفین کا استدلال ہے کہ انسان کسی بھی شعبے میں صرف اُس وقت کامیابی حاصل کرسکتا ہے جب وہ فکر و عمل کے درمیان توازن اور اعتدال برقرار رکھنے میں کامیاب ہو۔ عمل کے بغیر محض سوچتے رہنا بالعموم کسی کام کا نہیں ہوتا۔ ہاں! ایساکرنے سے مزاج میں بے عملی کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین کے نزدیک یہ بات بھی بے ڈھنگی ہے کہ انسان سوچے سمجھے بغیر عمل کی راہ پر گامزن رہے۔ کوئی بھی عمل حقیقی معنوں میں بارآور اُسی وقت ثابت ہوتا ہے جب اُس کی پشت پر پختہ سوچ کارفرما ہو۔ معیاری اور پختہ سوچ کے بغیر کیا جانے والا کوئی بھی کام ہمیں مطلوب نتائج تک نہیں پہنچا سکتا۔ اگر ہزاروں میں کوئی ایک کیس کامیابی کا نکل بھی آئے تو اِسے استثنا گردانیے۔ جو لوگ کسی بھی حوالے سے کچھ کرنے کے بارے میں محض سوچتے رہتے ہیں وہ بالعموم اپنی توانائی، وقت اور مواقع کا ضیاع کر رہے ہوتے ہیں۔ معیاری انداز سے سوچنے اور محض خیالی پلاؤ پکاتے رہنے میں بہت فرق ہے۔ ہم جو کچھ بھی سوچتے ہیں وہ کسی نہ کسی خواہش کا عکس ہوتا ہے۔ خواہشات کی تعداد بڑھ جائے تو ہم خیالوں کی دنیا میں گم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ خواہشات کی بھرمار ہمیں ہر وقت خیالی پلاؤ پکاتے رہنے کا عادی بنادیتی ہے۔ یہ عادت اگر جڑ پکڑ لے تو انسان کے پورے وجود کو لے ڈوبتی ہے کیونکہ اِس ایک عادت کی غلامی دیگر تمام غلامیوں پر بھاری پڑتی ہے۔
حقیقت پسندی کا وصف پروان چڑھانے والے ہی جانتے ہیں کہ کھوکھلے انداز سے سوچنے اور خیالی پلاؤ پکاتے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ صرف وہی لوگ کامیابی کے حق دار ٹھہرتے ہیں جو معیاری انداز سے سوچتے ہوئے بارآور خیالات کو پروان چڑھائیں اور پھر اُن خیالات کو عملی جامہ بھی پہنائیں۔ ہاں! اِس میں محنت بہت لگتی ہے۔ محض خواہش کرلینے اور سوچتے رہنے سے انسان کے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی۔ کسی بھی انسان کا اصل امتحان میدانِ عمل میں ہے۔ آج ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر شدید بے عملی کا شکار ہے۔ جن میں کچھ کرنے کی صلاحیت و سکت پائی جاتی ہے وہ بھی کمزور عزم کے باعث عمل کی دنیا میں قدم رکھنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عمل نواز رویہ ہمارے ہاں اُس حد تک پروان چڑھا ہی نہیں جس حد تک پروان چڑھنا چاہیے تھا۔ اِس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان کو معیاری فکر سے دور کرنے اور عمل کی دنیا میں قدم رکھنے سے گریزاں رہنے پر اُکسانے والے عوامل قدم قدم پر کارفرما ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم عمل نواز رویے کے حامل ہوں اور مثبت طرزِ فکر کے ذریعے اِس رویے کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھائیں۔ ہم ایسا کرنے سے یوں گریزاں رہتے ہیں گویا مثبت فکر ہلاکت خیز ہو اور عمل نواز رویہ اپنانے سے کسی بہت بڑے نقصان سے دوچار ہونے کا احتمال ہو۔ خیالی دنیا میں رہنے کا ''فن‘‘ اب پوری آب و تاب کے ساتھ رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ خواہشات کا عکس سمجھی جانے والی، اُتھلے پانیوں جیسی سوچ کی غلامی ہم نے بخوشی قبول کر رکھی ہے اور یہ سوچ کر ہم اپنے دل کو بہلاتے رہتے ہیں کہ ہم سوچ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سوچنے کے نام پر محض سطحی سوچ کے حامل ہیں یعنی ایسا کچھ سوچنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے جس سے معاملات کو بہتر بنانے کی راہ ہموار ہو، عمل نواز رویہ پروان چڑھانے کی گنجائش پیدا ہو۔
آج کسی بھی چیز سے بڑھ کر ہمیں وہ سوچ درکار ہے جو ہمیں کچھ کرنے کی تحریک دے، اصلاحِ احوال کی طرف مائل کرے، اشتراکِ عمل کی طرف جانے کی گنجائش پیدا کرے اور ہم اپنے وجود کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ دوسروں سے بھی کماحقہٗ مستفید ہونے کے قابل ہوں۔ مثبت، مستحکم، حقیقت پسندانہ اور عمل نواز سوچ ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ یہ کوئی آپشن نہیں، ناگزیر معاملہ ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، مثبت فکر کے ساتھ عمل کی طرف جانے کے سوا کچھ بھی ایسا نہیں جو ہمارے وجود کو نئی اور مطلوب معنویت عطا کرے۔ زندگی ہم سے بہت سے تقاضے کرتی ہے۔ مثبت فکر زندگی کے بڑے اور بنیادی تقاضوں میں سے ہے۔ منفی سوچ پورے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ لیتی ہے۔ مثبت طرزِ فکر ہی ہمیں زندگی کی طرف لاتی ہے، مطلوب خیالات کو پروان چڑھانے پر مائل کرتی ہے اور پھر زندگی میں مطلوب معنویت پیدا کرنے کے لیے درکار عمل کی توفیق بھی عطا کرتی ہے۔ محض بے بنیاد اور کھوکھلی سوچوں میں گم رہنے اور غیر حقیقت پسندانہ خواہشات ہی کو ٹھوس خیالات سمجھ کر اپنا اور دوسروں کا دل بہلانے کے بجائے ہمیں پوری توجہ اور تیاری کے ساتھ مثبت سوچ کو گلے لگانا چاہیے تاکہ ہمارے عمل کی بنیاد مضبوط ہو اور خیالی پلاؤ پکاکر وقت ضائع کرنے کی قبیح اور فضول عادت سے چھٹکارا ملے۔
معاشرے کھوکھلی سوچ کو ستون بناکر کھڑے نہیں رہ سکتے۔ کئی پس ماندہ معاشرے اس کی واضح مثال ہیں۔ جن معاشروں نے کھوکھلی سوچ سے دامن نہ چھڑایا اُن سے حقیقت پسندی نے دامن چھڑالیا اور پھر اُن پر ایک ایسی طرزِ زندگی مسلّط ہوگئی جس میں ایسا کچھ نہ تھا جو اُنہیں پیش رفت کے قابل بناتا۔ بے بنیاد اور کھوکھلی سوچوں میں گم رہنے والوں کے لیے اِس طرزِ فکر کو چھوڑنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved