تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     25-11-2021

گدی نشینوں اور مخدوموں کا سو سال پرانا خط …(1)

وجہ تو مجھے معلوم نہیں مگر طبیعت اللہ جانے آج کل کیوں تاریخ کے پرانے صفحات میں جا اٹکی ہے۔ ان پرانے صفحات کو کھنگالنا نہ تو آسان ہے اور نہ ہی کوئی ایسا کام ہے کہ داد و تحسین ملے۔ ہاں! البتہ سنگ دشنام کی کمی نہیں ہوتی۔ بقول برادرِ بزرگ اعجاز احمد میں آج کل آ بیل مجھے مار کے مقولے پر عمل پیرا ہوں۔ گزشتہ روز فون پر پوچھنے لگے کہ مجھے ان دنوں اوکھلی میں سر دینے کا کیا شوق چڑھا ہوا ہے؟ عرض کیا: برادرِ من! یہ نہ تو میں بھولپن میں کر رہا ہوں اور نہ ہی بھول چوک میں ہو رہا ہے۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ سچ کڑوا ہوتا ہے اور اسے کہنا تو مشکل ہے ہی، سننا اور برداشت کرنا اس سے بھی کہیں زیادہ مشکل‘ لیکن اس مشکل پسند طبیعت کا کیا کروں؟ اعجاز بھائی ہنس کر کہنے لگے: یہ مشکل پسندی ہے یا شر پسندی؟ میں نے کہا: آج کل مشکل پسندی اور شر پسندی‘ دونوں ایک ہی ہیں جیسے بقول چچا غالب:
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
برادرِ بزرگ کہنے لگے: اس فرمائشی فساد میں چچا غالب کہاں سے آ گئے؟ میں نے عرض کی کہ اب سچ کو محض اس معمولی سی بات کے لیے تو ترک نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کسی کو پسند نہیں۔ برادرِ بزرگ کہنے لگے: مجھے لگتا ہے‘ شاید تم نے آج کل ملامتی فرقے میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ میں نے کہا: نہیں ایسی کوئی بات نہیں‘ ملامتی بننے کے لیے جتنا بڑا دل، صبر‘ حوصلہ اور قوت برداشت چاہیے مجھ میں تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں‘ مگر اب اس عمر میں ان چیزوں کی پروا کرنا چھوڑ دی ہے۔ اب دل کی سنتا ہوں اور کر گزرتا ہوں۔ انہیں بتایا کہ ایک قاری نے ایک ڈیڑھ سال پہلے فرمائش کی تھی کہ میں مخدوموں اور گدی نشینوں کا پنجاب کے انگریز لیفٹیننٹ گورنر سر مائیکل فرانسس اوڈوائر کو لکھا گیا خط اپنے قارئین تک دوبارہ پہنچا دوں تو بہت اچھا ہو گا۔ میں نے جوابی میل میں اسے تسلی دی اور اس کی فرمائش پوری کرنے کا وعدہ بھی کر لیا‘ مگر اب یادداشت کا کیا کروں؟ چند ماہ پہلے اس مستقل مزاج قاری نے پھر یاد دہانی کرائی لیکن وہ میری سستی اور کاہلی کی نذر ہو گئی۔ کل پھر اس نے یاد کروایا تو سوچا کہ اس بُرا بھلا سننے کے دور میں لگے ہاتھوں دشنام طرازی کی بہتی گنگا میں تھوڑے ہاتھ گیلے کر لوں۔ سر مائیکل فرانسس اوڈوائر کی 1919 میں ہونے والی رخصتی پر لکھا جانے والا تقریباً سو سال پرانا خط حاضر خدمت ہے۔
مخدومین و گدی نشینان کا خط
دعا نامہ بطور ایڈریس
بحضور جناب نواب ہز آنر سر مائیکل فرانسس اوڈوائر جی۔ سی۔ آئی۔ ای۔ کے۔ سی۔ ایس۔ آئی لیفٹیننٹ گورنر بہادر پنجاب
حضور والا! ہم خادم الفقراء سجادہ نشینان و علماء مع متعلقین شرفا حاضرالوقت مغربی حصہ پنجاب نہایت ادب اور انکسار سے یہ ایڈریس لے کر خدمت عالی میں حاضر ہوئے ہیں اور ہمیں یقین کامل ہے کہ حضورِ انور جن کی ذات عالی صفات میں قدرت نے دل جوئی، ذرہ نوازی اور انصاف پسندی کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے، ہم خاکسارانِ باوفا کے اظہارِ دل کو توجہ سے سماعت فرما کر ہمارے کلاہِ فخر کو چار چاند لگا دیں گے۔
سب سے پہلے ہم ایک دفعہ پھر حضور والا کو مبارکباد کہتے ہیں کہ جس عالمگیر اور خوفناک جنگ کا آغاز حضور کے عہدِ حکومت میں ہوا، اس نے حضور ہی کے زمانے میں بخیر و خوبی انجام پایا اور یہ با برکت و با حشمت سلطنت جس پر پہلے بھی سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا، اب آگے سے زیادہ مستحکم اور آگے سے زیادہ روشن ہے اور اعلیٰ عظمت کے ساتھ جنگ سے فارغ ہوئی جیسا کہ شہنشاہ معظم نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا ہے۔ واقعی برطانوی تلوار اس وقت نیام میں داخل ہوئی جب دنیا کی آزادی، امن و امان اور چھوٹی چھوٹی قوموں کی بہبودی مکمل طور پر حاصل ہو کر بالآخر سچائی کا بول بالا ہو گیا۔
حضور کا زمانہ ایک نہایت نازک زمانہ تھا اور پنجاب کی خوش قسمتی تھی کہ اس کی عنان حکومت اس زمانے میں حضور جیسے صاحب استقلال بیدار مغز و عالی دماغ حاکم کے مضبوط ہاتھوں میں رہی، جس سے نہ صرف اندرونی امن ہی قائم رہا، بلکہ حضور کی دانش مندانہ رہنمائی میں پنجاب نے اپنے ایثار، وفاداری اور جان نثاری کا وہ ثبوت دیا، جس سے ''شمشیرِ سلطنت‘‘ کا قابل فخر و عزت لقب پایا۔ صرف جناب والا کو ہی ہماری بہبودی مطلوب نہ تھی، بلکہ صلیب احمر (Red cross) و تعلیم نسواں کے کام میں حضور کی ہمدم و ہم راز جناب لیڈی اوڈوائر صاحبہ نے‘ جن کو ہم مروت کی زندہ تصویر سمجھتے ہیں، ہمارا ہاتھ بٹایا اور ہندوستانی مستورات پر احسان کر کے ثوابِ دارین حاصل کیا۔ ہماری ادب سے التجا ہے کہ وہ ہمارا دلی شکریہ قبول فرماویں۔
جب ہم تار برقی کے کرشموں پر، علی گڑھ اور اسلامیہ کالج لاہور و پشاور جیسے اسلامی کالجوں اور دیگر قومی درس گاہوں پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر جب ہم بے نظیر برطانوی انصاف کو دیکھتے ہیں، جس کی حکومت میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پی رہے ہیں تو ہمیں ہر طرف احسان ہی احسان دکھائی دیتے ہیں
بہشت آنجا کہ آزارے نباشد
کسے را با کسے کارے نباشد
باوجود فوجی قانون کے جو خود فتنہ پردازوں کی شرارت کا نتیجہ تھا۔ مسلمانوں کے مذہبی احساس کا ہر طرح سے لحاظ رکھا گیا۔ شب برات کے موقع پر ان کو خاص رعایتیں دکھائیں۔ رمضان المبارک کے واسطے حالانکہ اہل اسلام کی درخواست یہ تھی کہ فوجی قانون ساڑھے گیارہ بجے شب سے دو بجے تک محدود کیا جاوے ، لیکن حکام سرکار نے یہ وقت بارہ بجے سے دو بجے کر دیا۔ مسجد شاہی جو فی الاصل قلعہ کے متعلق تھی اور جو ابتدائی عمل داری سرکار ہی میں واگزار ہوئی تھی۔ اہالیان لاہور نے اس مقدس جگہ کو نا جائز سیاسی امور کے واسطے استعمال کیا، جس پر متولیان مسجد نے جو خود مفسدہ پردازوں کو روک نہیں سکتے تھے‘ سرکار سے امداد چاہی، یہی وجہ تھی کہ سرکار نے اس کا ایسا نا جائز استعمال بند کر دیا۔ ہم تہہ دل سے مشکور ہیں کہ حضور والا نے پھر اس کو واگزار فرما دیا ہے۔
ہم سچ عرض کرتے ہیں کہ جو برکات ہمیں اس سلطنت کی بدولت حاصل ہوئیں اگر ہمیں عمرِ خضر بھی نصیب ہو تو بھی ہم ان احسانات کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے۔ ہندوستان کے لیے سلطنتِ برطانیہ ابرِ رحمت کی طرح نازل ہوئی اور ہم حضور سے درخواست کرتے ہیں کہ جب حضور وطن کو تشریف لے جاویں تو اس نامور تاجدارِ ہندوستان کو یقین دلائیں کہ چاہے کیسا ہی انقلاب کیوں نہ ہو، ہماری وفاداری میں سرِ مو فرق نہ آیا ہے اور نہ آ سکتا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ہم اور ہمارے پیروان اور مریدان فوجی وغیرہ‘ جن پر سر کارِ برطانیہ کے بے شمار احسانات ہیں، ہمیشہ سرکار کے حلقہ بگوش اور جاں نثار رہیں گے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved