تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     25-11-2021

روٹی یا تزکیہ؟

انسان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ معیشت یا تزکیہ نفس؟
ایک ادارے کا سروے میرے سامنے رکھا ہے۔ یہ 24 نومبر کے اخبارات میں شائع ہوا۔ شہریوں سے پوچھا گیا: پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ 43 فیصد نے کہا: مہنگائی۔ 14 فیصد کا جواب تھا: بیروزگاری۔ بارہ فیصد کے خیال میں یہ مسئلہ غربت ہے۔ پانچ فیصد نے ٹیکسوں کے بوجھ، چار فیصد نے روپے کی گرتی ہوئی قدر اور تین فیصد نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔
ان سب 'بچوں‘ نے ایک ہی ماں کے پیٹ سے جنم لیا ہے۔ اس کا نام 'معیشت‘ ہے۔ معیشت بی بی جب مسئلہ بن جاتی ہے تو اسے 'غربت‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ان بچوں کو جمع کریں تو یہ معاشرے کا 81 فیصد بنتا ہے۔ گویا 81 فیصد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ تو کیا مان لیا جائے کہ ابنِ آدم کا بنیادی مسئلہ مادی بقا اور سلامتی ہے؟
یہ ممکن ہے کہ بعض لوگ اس سے اتفاق نہ کریں۔ ان کے خیال میں اس سوال کا دائرہ پہلے سے طے ہے اور وہ یہ دنیا ہے۔ یہ سوال کسی ہمہ گیر تصورِ حیات کے تناظر میں زیرِ بحث نہیں۔ اگر مقصدِ حیات کے بارے میں براہ راست سوال پوچھا جاتا تواس کا جواب مختلف ہو سکتا تھا۔ اس لیے محض اس سروے کو بنیاد مان کر کوئی فیصلہ نہیں سنایا جا سکتا۔ یہ بات اہم ہے مگر میرے نزدیک اس سروے کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہتا اگردیگر شواہد بھی اس کی تائید میں کھڑے ہوں۔
یہ سوال نیا نہیں۔ انسان کی فکری تاریخ میں یہ صدیوں سے زیرِ بحث رہا ہے۔ اس سوال کے جو جواب سامنے آئے، انہوں نے دو بڑے تصوراتِ حیات کو جنم دیا۔ ایک وہ جس نے مادی بقاکو سب سے بڑا مسئلہ مانتے ہوئے انسان کے اخلاقی وجود ہی کا انکار کرڈالا۔ اخلاق کے کسی تصور کوقبول کیا بھی تواس کی بنیادوں کو مادی زندگی میں تلاش کیا۔ دوسرا تصور مذہبی ہے۔ مذہب کے نمائندوں نے معاش کے مسئلے کواس اہمیت کا مستحق نہیں سمجھا جواسے دی جانی چاہیے تھی۔ مذہب کے باب میں توہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ الہامی ہدایت کی تفہیم میں انسانوں کو ٹھوکر لگی۔ دوسرے نقطہ نظر کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ تھا ہی ایجادِ بندہ۔
یہ سرمایہ دارانہ نظام ہو یا اشتراکیت، دونوں کی اساس ایک ہے: انسان اصلاً ایک مادی وجود ہے۔ اس کی بقا کیلئے دونوں نے مختلف حل پیش کیے لیکن بنیادی مقصد ایک تھا۔ مذہب کا کہنا یہ ہے کہ انسان کا اصل مسئلہ اس دنیا کی بقا نہیں، اُس دنیا میں کامیابی ہے جو زندگی کے اِس دورانیے کے خاتمے پر وجود میں آئے گی۔ وہاں کامیابی اسی کیلئے ہے جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا۔ نفس سے مراد انسان کا اخلاقی وجود ہے۔
بعض اہلِ علم نے دونوں میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش میں 'اسلامی سوشلزم‘ ایجاد کیا لیکن بات بنی نہیں۔ انسانوں کی اکثریت اس سے بے نیاز رہی۔ تاریخ میں مذہب کے بقا کی بالعموم دو ہی صورتیں سامنے آئیں۔ پہلا وہ جس میں مذہب کو ایک ایسے تصور کے طور پر قبول کیا گیا جو معاشی و دنیاوی امور سے بے نیاز ہے۔ دوسرا وہ ہے جس میں انسانی محرومیوں کو تقدیر سے منسوب کرتے ہوئے، ہر ظلم کو قبول کرنے کا مزاج پیدا کیا گیا۔
ایک تیسرا تصور بیسویں صدی میں سامنے آیا جس میں مذہب کو ایک نظام کے طور پر پیش کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ مذہب دراصل 'ریاست‘ ہی کا دوسرا نام ہے اور اس کا مقصد ایک ایسے معاشی و سیاسی نظام کا قیام ہے جو انسان کے معاشی مسئلے کو حل کرتا ہے۔ یہ سرمایہ داری اور اشتراکیت کے متبادل کے طورپر پیش کیا جانے والا تصورِِ حیات تھا۔ اس میں ایسے نظام کے قیام کو دینی فریضہ قرار دیتے ہوئے، اسے مذہب کے اس بنیادی مقدمے سے مربوط کردیا گیا جو اُخروی کامیابی کو اصل کامیابی قرار دیتا ہے یعنی جوآدمی ایسے نظام کے قیام کی جدوجہد کر تے ہوئے دنیا سے رخصت ہوا، وہ آخرت میں کامیاب لوگوں میں شمار ہو گا۔
سرِدست میں اس تصور کی صحت اور عدمِ صحت سے دانستہ گریز کرتے ہوئے، اس سبب پر بات کرنا چاہتا ہوں جس نے اس تعبیرِ دین یا تصورِ حیات کو جنم دیا۔ یہ تصور بھی دراصل اس بنیاد پر کھڑا ہے کہ انسان کا اصل مسئلہ اس دنیا کی زندگی ہے۔ مذہب اسی وقت انسان کیلئے قابلِ قبول ہوگا جب وہ مادی بقاکا کوئی حل پیش کرے گا ورنہ یہ فنونِ لطیفہ کی طرح، انسان کی زندگی میں شامل تو رہے گا مگر ایک اضافی عامل کے طور پر۔ انسان کا پیٹ بھرا ہو تو اس کی جمالیاتی حس بیدار ہوتی اور تسکین کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس سے فنونِ لطیفہ وجود میں آئے ہیں۔ اسی طرح آسودگی کے بعد اخلاقی اور روحانی مطالبہ بھی جنم لیتا ہے اور اسی سے مذہب کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
علامہ اقبال اس کائنات کی ایک روحانی تعبیر کو سب سے اہم سمجھتے تھے لیکن ان کا معاملہ یہ بھی تھا کہ انہوں نے قائد اعظم کے نام خطوط میں روٹی کے مسئلے کو برصغیر کے مسلمان کا سب سے بڑا مسئلہ قراردیا اوران کے خیال میں وہی جماعت اہلِ اسلام کی قیادت کی مستحق ہوگی جو اس کا کوئی حل پیش کرے گی۔ گویا ان کے نزدیک بھی مذہب اسی وقت انسانی زندگی سے متعلق ہوگا جب روٹی کو انسان کا اولین مسئلہ قرار دے گا۔
اس ساری بحث کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ایک دوسرے پہلو کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے۔ ہم آج جس مقام پر کھڑے ہیں وہاں زندگی رواں دواں ہے۔ انسان کا ایک ماضی ہے اور حال بھی۔ تجربہ ایک ماخذِ علم کے طور پر اس کے سامنے ہے۔ اسے روٹی کا مسئلہ حل کرنا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے بعد، کیا بقا کے مسائل ختم ہو جاتے ہیں؟ اگر باقی رہتے ہیں جیسے میں نے جمالیاتی اور روحانی مطالبات کا ذکر کیا تووہ کیسے پورے ہوں گے؟ میرا احساس ہے کہ یہ وہ سوال ہے جو مذہب کو انسانی زندگی سے کبھی غیرمتعلق نہیں ہونے دیتا۔
افکار و نظریات اور انسانی تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے میں جب اس بنیادی سوال کا جواب تلاش کرنا چاہتا ہوں تومیری سمجھ میں ایک ہی بات آتی ہے۔ انسان کا ابتدائی مسئلہ مادی بقا ہے۔ اس کے حل کواو لیت حاصل ہے تاہم انسان محض مادہ نہیں ہے۔ وہ ایک جمالیاتی اور اخلاقی وجود بھی رکھتاہے۔ لازم ہے کہ معاشرتی سطح پراسے وہ سازگار ماحول میسر رہے جو اس کے جمالیاتی اوراخلاقی مطالبات کو پورا کرتا ہو۔ فنونِ لطیفہ اور مذہب بھی اسی طرح اس کیلئے اہم ہیں جس طرح مادی بقا کے اسباب۔
فکری انتشار اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اہلِ مذہب مادی بقا کی اہمیت سے انکار کرتے ہیں اور غیرمذہبی لوگ انسان کے اخلاقی مطالبات کو نظرانداز کرتے ہیں۔ مادی تعبیرکو ماننے والے جب انسان کے جمالیاتی وجود کوقبول کرتے ہیں توپھر اس کے بعد اخلاقی وجود کا انکار محال ہو جاتا ہے۔ اگر یہ بات سمجھ میں آجائے تو پھر 81 فیصد شہریوں کے مسئلے کو صحیح تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved