تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     25-11-2021

الیکٹرانک ووٹنگ مشین

کیا غلغلہ ہے ای وی ایم یعنی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا۔ پچھلے دنوں تو لگتا تھا کہ سیاست کا مرکزی محور ہی یہ مشین ہے اور اب آئندہ کرسیوں کا دارومدار مشین کے فیصلوں پر ہونے والا ہے۔ بظاہر ہے بھی ایسا کہ یہ مشینیں ہی اب تخت گرایا کریں گی اور تاج اچھالا کریں گی۔ عام انسانی زندگی مشینوں کے نرغے میں آتی جا رہی ہے تو انتخابات اس سے باہر کیوں رہیں؟ یہ تو بدیہی سی بات ہے کہ جلد یا بدیر ایسا ہونا ہی ہے تو پھر کیوں نہ ابھی کرلیا جائے۔ انور شعورکا مصرعہ ہے نا:
بعد میں بھی یہی ہوگا تو ابھی میں کیا ہے
لیکن چونکہ نیا نیا معاملہ ہے اس لیے لوگ چونکتے ہیں اور بدکتے بھی ہیں۔ کچھ خطرات یقینا حقیقی ہوں گے لیکن کچھ مصنوعی بھی۔ اپوزیشن کو تو حکومت کی مخالفت کرنی ہی ہوتی ہے، سو شد و مد سے کر رہی ہے۔ حکومت کو اپنے اقدامات کو عین انصاف اور ملک و قوم کی فلاح کے لیے ثابت کرنا ہوتا ہے سو وہ بھی کیے جا رہی ہے۔ دو طرفہ باتوں کا زور اس پر ہے کہ حکومت من پسند فیصلے لینے کے لیے یہ سارا کھیل رچا رہی ہے اور اپوزیشن انتخابی اصلاحات سے بھاگ رہی ہے، نئے دور کو داخل نہیں ہونے دے رہی۔ اس سارے گرد و غبار میں بہت سے سوال اور بہت سی حقیقتیں تشنہ رہ گئی ہیں۔ عام شخص کے لیے ان دونوں نقطہ ہائے نظر سے ہٹ کر بنیادی سوال چند ایک ہیں۔ پہلا یہ کہ کیا الیکٹرانک ووٹنگ مشین جن ملکوں میں استعمال ہوئی ہے، کامیابی سے استعمال ہوئی ہے؟ اور ایسے ممالک دنیا میں کتنے ہیں؟ دوسرے یہ کہ پاکستان میں اس کا طریقۂ استعمال کیا ہوگا؟ تیسرے یہ کہ اس پر سنجیدہ اعتراضات کیا ہیں؟ اور چوتھے یہ کہ اس سے انتخابی نتائج پر کیا اثر پڑ سکتا ہے اور کس حد تک مرضی کے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں؟
یہ سوال اہم ہیں لیکن ان سے منسلک ایک اور بات مزید اہم ہے۔ ایک طرف ہم مسلسل یہ واویلا کرتے رہتے ہیں کہ دنیا کہیں سے کہیں نکل گئی ہے۔ مشینی اور خود کار نظام نے بے شمار ملکوں میں زندگی سہل اور کم خرچ کردی ہے، اور ہم ابھی تک اسی فرسودہ نظام کو گھسیٹتے پھر رہے ہیں‘ جس میں ہزار نقائص اور عیب ہیں اور جس پر ہر انتخاب میں شور اور ہنگامہ مچتا رہتا ہے۔ دوسری طرف اگر مشینی نظام کی طرف پیش قدمی کی جاتی ہے تو ہم ڈٹ کر اس کی مخالفت کرتے ہیں اور بدقسمتی سے یہ مخالفت محض اپنے اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات کے پیش نظر ہوتی ہے۔ جہاں کسی جماعت کو کسی اقدام سے اپنے ووٹ بینک میں کمی ہوتی محسوس ہوتی ہے، وہ اچھے برے سے قطع نظر اس قدم کی مخالفت کرتی ہے۔ اس لیے اس پر دھیان دینا تو غلط ہوگا اور شور و شغب کی پروا کیے بغیر انتخابی اصلاحات کی طرف بڑھنا ہی بہتر فیصلہ ہوگا تاہم اگر واقعی انتخابی اصلاحات حکومت کے پیش نظر ہیں تو اسے سنجیدہ اور ٹھوس اعتراضات کا خیر مقدم کرنا اور ان کا جواب دینا چاہیے۔ اسی طرح حزب اختلاف کے لیے بھی یہی صورت بہتر ہوتی کہ وہ اسے سرے سے غلط قرار دینے کے بجائے ٹھوس بنیادوں پر اس کی بہتری کی کوشش کرتی ۔ فی الوقت تو تاثر یہ بن گیا ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے حق کی بھی مخالفت کی گئی ہے اور مشینی ووٹنگ کی بھی۔ اس طرح غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے دل میں تحریک انصاف کے لیے ایک مزید جگہ بن گئی ہے جو پہلے بھی موجود تھی۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ یہ عمران خان کا وعدہ تھا کہ وہ انہیں ووٹ کا حق دلائیں گے اور یہ وعدہ اس طرح پورا ہوا ہے۔
ای وی ایم کی طرف لوٹتے ہیں۔ کتنے ملکوں میں الیکٹرانک ووٹنگ کی جاتی ہے؟ ان میں قابل ذکر اور اہم ممالک شامل ہیں۔ برازیل، وینزویلا، بلجیم، پیراگوئے، امریکہ، سپین، کینیڈا، سوئٹزرلینڈ، بھوٹان، جرمنی، ہندوستان، ہالینڈ، پاناما ان ملکوں میں شامل ہیں جہاں انتخاب کا یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر 31 ممالک میں کسی طرح کے انتخاب ای وی ایمز کے ذریعے کرائے گئے ہیں۔ ان میں سے 4 ملکوں یعنی ہندوستان، برازیل، بھوٹان اور وینزویلا میں پورے ملک کی سطح پر، اور 11 ممالک میں ملک کے کسی حصے یا حصوں میں انہیں استعمال کیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش میں اپنی ای وی ایم بنائی گئی ہے اور اس کے حوصلہ افزا ٹیسٹ رزلٹ بھی نکلے ہیں تاہم ابھی وہ مکمل یا جزوی انتخاب کے لیے قانون سازی کی منزل سے دور ہے۔ استعمال کرنے والے ممالک میں سے کچھ میں اس پر اعتراض بھی اٹھائے گئے ہیں لیکن بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ آئندہ ای وی ایم کا استعمال بڑھتا جائے گا۔ دنیا ویسے بھی کاغذ سے دور ہو کر ڈیجیٹل ورلڈ کی طرف جا رہی ہے اور یہ رجحان کم نہیں ہو گا مزید بڑھتا جائے گا۔ جو کام بہت سے ممالک دس پندرہ سال بعد شروع کریں گے، وہ ابھی کرنے میں کیا حرج ہے؟ اس لیے اگر پاکستان نے یہ راستہ اختیار کیا ہے تو یہ مثبت پیش رفت ہے البتہ اس کے نقائص ضرور دور کرنے چاہئیں۔
پاکستان میں جو ای وی ایم ابتدائی طور پر بنائی گئی تھی‘ وہ عمران خان کے دور سے کافی پہلے بنائی گئی تھی‘ یعنی کم از کم ایک عشرہ قبل۔ اس کا بنیادی ماڈل ٹی آئی پی نام کے سرکاری ادارے نے بنایا تھا۔ اس کے ذمے دار تکنیکی افسران پورے اعتماد سے یہ بات کہتے ہیں کہ ان کا ماڈل نقائص سے پاک ہے اور سو فیصد عمل درآمد کے قابل‘ لیکن انہیں شکوہ ہے کہ ای ووٹنگ مشینیں تیار کرنے والی کمپنیوں کی حتمی فہرست میں سے انہیں نکال دیا گیا اور انہی کے ماڈل کی نقل کرنے والی کمپنیاں فہرست میں شامل ہیں۔ وزارت انفارمشین اینڈ ٹیکنالوجی‘ جس کے تحت ٹی آئی پی کا ادارہ ہے، نے اس ادارے کو مذکورہ مشین بنانے کے لیے مکمل نظر انداز کیا ہے‘ اور پرائیوٹ اور پبلک سیکٹر کی کمپنیاں اس دوڑ میں شامل ہیں۔ اس سارے معاملے پر اعتراض کرنے والوں کو شبہ ہے کہ اس مشین کے آرڈرز میں من پسند ٹھیکے دینے کی خواہش اور مالی فوائد کے مقاصد بھی شامل ہو چکے ہیں‘ یعنی اس مشین پر بنیادی الزام یعنی من پسند نتائج میں کرپشن کا الزام بھی شامل ہو چکا ہے‘ جو کوئی بعید نہیں آگے چل کر بہت زور و شور سے دہرایا جانے لگے۔ ای وی ایم کسی غیر ملکی کمپنی سے بنوائی جا سکتی ہے یا ملک کے اندر تیار کروائی جا سکتی ہے۔ پہلی صورت میں یعنی غیرملکی تیار کردہ مشین کی صورت میں شبہات اور خطرات بہت بڑھ سکتے ہیں اور اس پر بہت انگلیاں اٹھائی جا سکتی ہیں۔ نیز اس کی لاگت میں بھی بہت اضافہ ہو جائے گا۔ اسی لیے دوسری صورت اپنائی گئی ہے اور ملک کے اندر ہی ای وی ایم تیار کی گئی ہے۔ فواد چوہدری اسے اپنی وزارت کا کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔
اب جبکہ اس مشین کو حکومتی ذرائع قابل عمل اور قابل اعتماد قرار دے کر اس کے حق میں پارلیمنٹ سے قانون منظور کروا چکے ہیں، بظاہر اگلے انتخابات (2023) میں‘ جس کے انعقاد میں ڈیڑھ سال سے بھی کم عرصہ باقی ہے، یہی مشین استعمال کی جائے گی۔ یہ استعمال کیسے ہوگی؟ کام کیسے کرتی ہے؟ اور اس پر کیا اعتراضات اٹھائے گئے ہیں، اس پر آئندہ بات کرتے ہیں۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved