تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     25-11-2021

حقیقی اپوزیشن مگر کیسے؟

''چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں‘‘۔ یہ بڑا مشہور مصرع ہے جو انقلابی نعرے میں ڈھل چکا ہے۔ پاکستانی سیاسی منظر نامے کو دیکھیں تو اس کو کچھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔ حکومت پانچ سال پورے کرے گی یا نہیں؟ اپوزیشن واقعی کوئی عملی قدم اٹھائے گی یا صرف گیڈر بھبھکیاں ہی سناتی رہے گی۔
آج پہلے اپوزیشن کی بات کر لیتے ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم ہر بار انقلاب لانے کا جذبہ لے کر بیدار ہوتی ہے، سیاست کے میدان کے بڑے پہلوان اکھاڑے میں اترنے کے لیے ڈنڈ بیٹھک کرتے ہیں، حکومت کو للکارتے ہیں، یوں لگتا ہے کہ اب کی بار تو حکومت گئی، لیکن انقلاب ہے کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہا‘ ہر بار تاخیر ہوجاتی ہے۔ انقلاب کی بات کسی اور وقت پر ٹال دی جاتی ہے، غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پستے چلے جا رہے ہیں، بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور حکومت جیسی بھی ہے‘ چلتی رہتی ہے۔ 3 سال میں اگر حکومت نے کچھ نہیں کیا تو مجھے آج یہ بات لکھنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہو رہی کہ ہمارے ہاں اپوزیشن نے بھی کچھ نہیں کیا۔ 3 سال میں ملک معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے تو اس کی ذمہ دار صرف حکومت نہیں ہے۔ اپوزیشن اس میں برابر کی سہولت کار ہے۔ آٹا، چینی، دال، سبزی، پٹرول، بجلی اور گیس سمیت بنیادی استعمال کی ہر چیز اتنی مہنگی ہوچکی ہے کہ عام آدمی اپنے شب روز کیسے بسر کررہا ہے‘ اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ وزرا، مشیروں اور ترجمانوں کی فوج ظفر موج اعداد و شمار کو جتنا مرضی گھما پھرا لیں‘ یہ بات ان کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ مہنگائی کی موجودہ شرح نے عام آدمی کی زندگی کو مشکل بنارکھا ہے، یا یوں کہیے کہ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کیلئے جینا اجیرن ہو چکا ہے۔ خوفناک مہنگائی کی لپیٹ میں آئے عوام میں غصے کی ایک لہر موجود ہے۔ تحریک انصاف پر مرمٹنے والے کارکن بھی اب مہنگائی کی اس لہر کا دفاع پہلے سے جوش و جذبے کے ساتھ نہیں کرپاتے، مگر وزیراعظم اس حوالے سے خوش قسمت ثابت ہوئے کہ اس سب کے باوجود بھی راوی ابھی تک تبدیلی سرکار کے لیے چین ہی چین لکھتا ہے۔ وزرا جب دھڑلے سے یہ بات کرتے ہیں کہ حکومت پانچ سال پورے کرے گی تو لگتا ہے کہ شاید وہ درست کہہ رہے ہیں۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ہو یا پارلیمنٹ میں متحدہ اپوزیشن‘ ان کی کارگزاری اتنی ہے کہ بھرپور بھاگ دوڑ کرنے کا تاثر پیدا کرتے ہیں اور پھر خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں۔ 17 نومبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہونے والی قانون سازی سے پہلے خوب بڑھکیں لگائی گئیں۔ حکومت نے جس مطلوبہ قانون سازی کے لیے اجلاس بلایا تھا‘ اس کو اپوزیشن نہ روک سکی۔ 23 نومبر کو پی ڈی ایم کا ایک اہم اجلاس ہوا، لگتا تھا کہ مہنگائی کی عذاب ناک لہر اور اس قانون سازی نے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا پارہ آسمان پر پہنچا رکھا ہوگا‘ اس بار شاید کچھ ایسا فیصلہ ہوگا کہ حکومت کو بیک فٹ پر جانا ہی پڑے گا۔ اجلاس کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن میڈیا کے سامنے آئیں گے تو عوام کو انقلاب کی نوید سنائیں گے۔ مولانا صاحب میڈیا سے بات کرنے آئے ضرور لیکن صرف اتنا ہی بتانے پر اکتفا کیا کہ اصل بات 6 دسمبر تک ٹال دی گئی ہے۔ 6 دسمبر کو سب پھر ملیں گے‘ گپ شپ ہوگی‘ حالات کا جائزہ لیں گے تو پھر دیکھیں گے کہ انقلاب کہاں تک پہنچا ہے۔ مولانا صاحب نے اس اجلاس کے بعد دل کی بھڑاس ضرور نکالی اور میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ ''چند گھنٹوں میں 35 بل پاس کرانا مذاق ہے۔ جعلی قانون سازی کا راستہ روک رہے ہیں‘‘۔ مولانا صاحب انتہائی قابل احترام شخصیت ہیں‘ انہوں نے قانون سازی کو جعلی قرار دیا لیکن راستہ کیسے روک رہے ہیں‘ یہ واضح نہیں کیا۔ کاش وہ اس کی کچھ وضاحت بھی فرما دیتے تو ہم جیسے کم عقلوں کے پلے بھی کچھ پڑ جاتا۔ البتہ مجھے پوری امید ہے کہ ماضی کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے‘ حکومت اب کی بار بھی ان کی بات کو مذاق ہی سمجھے گی ۔مولانا فضل الرحمن نے سمندر پار پاکستانیوں کو حکومت کے جھانسے میں نہ آنے کا مشورہ بھی دیا۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب تو سمندر پار بسنے والوں سے پہلے پاکستان میں رہنے والے عوام یہ سوچ رہے ہیں کہ انہیں حکومت کے جھانسے میں نہیں آنا یا اپوزیشن کے۔ میری یہ بات شاید ہمارے سیاستدانوں کو بری لگے لیکن 22 کروڑ عوام اب یہ بات سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ عوامی مسائل اور ان کا حل نہ تو حکومت کی ترجیح لگتے ہیں اور نہ ہی اپوزیشن کی دلچسپی کے مسائل۔
پی ڈی ایم کے اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں اپوزیشن ساڑھے پانچ گھنٹے تک سر جوڑ کر بیٹھی رہی لیکن یہ نشست کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئی اور 6دسمبر کی تاریخ دے دی گئی۔ پچھلے برس دسمبر میں بھی کچھ ایسا ہی ماحول تھا۔ اپوزیشن اس وقت بھی یہی واویلا کر رہی تھی کہ حکومت اب گئی کہ تب گئی۔ پیپلز پارٹی بھی تب پی ڈی ایم کی اہم جماعت تھی۔ دسمبر گزر گیا اور حکومت کا دسمبر تک بوریا بستر گول کرتے کرتے اپوزیشن اتحاد خود بکھر گیا۔ حکومتی رہنما شاید اسی لیے اپوزیشن کو ناکام لوگوں کا ٹولہ قرار دیتے ہیں جو تاریخ پر تاریخ دینے کے سوا کچھ نہیں کرتا۔ اپوزیشن کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو واقعتاً انہوں نے گزشتہ 3 سال میں کسی بھی عوامی مسئلے یا اہم قانون سازی پر کچھ نہیں کیا۔
اس سب کے بیچ سابق چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی ایک مبینہ آڈیو بھی گردش کررہی ہے۔ مسلم لیگ نون اس مبینہ آڈیو میں ہونے والی گفتگو کو بنیاد بناکر اپنی بے گناہی ثابت کرنا چاہ رہی ہے۔ مسلم لیگ نون کے رہنما ایک بار پھر یہ موقف اپنائے ہوئے ہیں کہ ان کی حکومت کے خلاف بہت بڑی سازش کی گئی اور ایک منتخب وزیراعظم کو اقتدار سے باہر کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچایا گیا۔ سابق چیف جسٹس اس آڈیو کو جعلی قرار دے کر مسترد تو کرچکے ہیں لیکن اس آڈیو کو جاری کرنے والے صحافی اور ویب سائٹ کے خلاف کیا قانونی چارہ جوئی کرنی ہے‘ اس حوالے سے ابھی تک اپنے لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا۔ دوسری طرف آڈیو کے بعد وڈیو آنے کی باتیں کی جا رہی ہیں؛ تاہم اپنی بے گناہی کے ثبوت کے طور پر اس آڈیو کو عدالت میں پیش کرکے کیسے قانونی کارروائی کا حصہ بنانا ہے‘ مسلم لیگ نون بھی تادم تحریر اس کا کوئی واضح لائحہ عمل سامنے نہیں لائی۔ مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد اس پر کچھ یوں تبصرہ کیا کہ عدالتوں کا احترام کرتے ہیں لیکن دل دکھی ہے۔ مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار کی آڈیو اور گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے حلف نامے پر نوٹس لے، جو جھوٹا ہو‘ اس کو سزا دی جائے۔ وزیراعظم عمران خان اپنی پارٹی کے ترجمانوں کو ہدایت کرچکے ہیں کہ مسلم لیگ نون کا حقیقی کردار عوام کے سامنے لایا جائے۔اسی ہدایت کو سامنے رکھتے ہوئے وزیر اطلاعات فواد چودھری میدان میں اترے۔ ان کا موقف ہے کہ ''مسلم لیگ نون نے مجھے کیوں نکالا کی مہم اس لیے شروع کی تھی کہ شاید ادارے دباؤ میں آجائیں۔ اب بھی کیس روکنے کے لیے عدلیہ کو دباؤ میں لانے کی یہ مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ عدلیہ اس دباؤ کو مسترد کردے گی‘‘۔ جہاں اتنا کچھ کہا‘ وہاں یہ دعویٰ بھی دہرایا کہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی۔
اسد عمر پی ڈی ایم کو موسمی وبا کہتے ہیں۔ اپوزیشن کے حوالے سے کئے جانے والے ان حکومتی دعووں کو غلط ثابت کرنا اور اپنے مؤقف کو عوام کی نظروں میں سچا ثابت کرنا اپوزیشن کا کام ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی صلاحیتوں کو کس طریقے سے استعمال کرتی ہے اور عوامی مشکلات کو دور کرنے اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے۔ سردیوں میں عوام کو گیس کے بحران کا سامنا رہتا ہے۔ چولہے ٹھنڈے پڑے رہتے ہیں، نہانے دھونے کیلئے بھی پانی گرم نہیں ہوتا۔ امید ہے اپوزیشن کی بیان بازی عوام کی روح کے ساتھ جسم بھی گرمائے رکھے گی اور حکومت کی جوابی شعلہ بیانی تن بدن کے بجائے چولہوں میں بھی آگ لگائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved