تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     25-11-2021

آئی ایم ایف، بیرونی قرضے اور ابھینندن

کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے؛ تاہم یہ فیصلہ کرنا باقی ہے کہ جیت کس کی ہوئی اور ہارا کون۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا ہے۔ حکومت پاکستان کو تقریباً ایک ارب ڈالر فنڈز جاری ہوں گے۔ اس طرح آئی ایم ایف سے قرض کے کُل پیکیج یعنی چھ ارب ڈالر میں سے تین ارب ڈالر موصول ہو جائیں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تین ارب ڈالرز کے بدلے پاکستانی معیشت میں کیا تبدیلی آئی۔ 2019ء میں جب آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا گیا تھا‘ اس وقت ڈالر کی قیمت تقریباً 155 روپے تھی۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے معاہدہ کرنے کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ پہلے ڈالر کی قیمت بڑھائی جائے۔ تحریک انصاف نے جب حکومت سنبھالی تو ڈالر کی قیمت 124 روپے تھی۔ اس کے بعد جو اضافہ ہوا‘ وہ مبینہ طور پر آئی ایم ایف کی ہدایات پر ہوا، یعنی کہ آئی ایم ایف معاہدے میں داخل ہونے سے پہلے حکومت نے ڈالر کی قیمت میں پچیس روپے سے زیادہ کا اضافہ کر دیا تھا۔ آج ڈالر کی قیمت تقریباً 176 روپے ہے۔ اس حساب سے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ تین ارب ڈالر کے بدلے پاکستان کو فی ڈالر قیمت تقریباً 50 روپے بڑھانا پڑی۔ ابھی بقیہ تین ارب ڈالر ملنا باقی ہیں۔ اگر اسی رفتار سے روپے کی قدر کو گرایا جاتا رہا تو چھ ارب ڈالر ملنے تک ایک ڈالر تقریباً 225 روپے تک پہنچ سکتا ہے جس کے بعد پٹرول اور بجلی سمیت تمام اشیا کی قیمتیں بڑھ جائیں گی اور عوام کو مہنگائی کے نئے طوفان کا سامنا ہو گا۔
وفاقی وزیر حماد اظہر اور مشیرِ خزانہ شوکت ترین نے پریس کانفرنس میں آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے پر عوام کو مبارکباد دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت کی کامیاب پالیسیوں کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ ہر ماہ پٹرولیم لیوی کی مد میں چار روپے کا اضافہ کیا جائے گا۔ حماد اظہر صاحب نے فرمایا کہ بجلی کی قیمتوں میں ہم آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق اضافہ کر چکے ہیں‘ اب کچھ ماہ تک بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہو گا لیکن چار سے پانچ ماہ بعد‘ بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں عوام کے لیے مبارکباد والی خبر کون سی ہے؟ اور کامیاب پالیسی کا معیار کیا ہے؟ آئی ایم ایف کی بنائی ہوئی پالیسیوں کو حرف بحرف لاگو کر دینا اور ہوا کے رخ کے ساتھ اپنا رخ موڑ لینا کامیاب پالیسی کیسے ہو سکتی ہے؟ کامیابی کا معیار برابری کی سطح پر شرائط پر عمل درآمد سے طے کیا جا سکتا ہے۔
ترین صاحب نے عوام کو یقین دلایا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کی ایک بھی بات نہیں مانیں گے لیکن عمل درآمد کے وقت ایک سو اسی کے زاویے سے یوٹرن لے لیا گیا۔ اگر اسی طرز پر قانون بنانے اور لاگو کرنے ہیں تو مشیر خزانہ اور وزیر توانائی کی کیا ضرورت ہے؟ چند ایک بیورو کریٹس کو آئی ایم ایف سے براہِ راست ہدایات دلا کر حکومت چلائی جا سکتی ہے۔ جہاں تک بات میڈیا اور عوام کو اطلاع دینے کی ہے تو یہ کام وزیر اطلاعات بھی بخوبی کر سکتے ہیں۔ مشیر خزانہ اور وزیر توانائی فی الحال عوام کو اطلاعات دینے کے علاوہ کوئی خاص کام کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔ اگر حکومت اگلے چند ماہ تک بجلی کی قیمتیں نہ بڑھانے کا کریڈٹ لے رہی ہے تو اس میں کسی حکومتی پالیسی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اگلے چند ماہ تو ویسے ہی موسم سرما کے ہیں جن میں بجلی کا استعمال کم ہوتا ہے۔ بجلی چوری بھی کم ہوتی ہے اور نقصان بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ عمومی طور پر اس موسم میں بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھائی جاتیں کیونکہ اس سے مطلوبہ فائدہ حاصل نہیں ہو پاتے۔ جیسے ہی گرمیوں کی شروعات ہونے لگے گی‘ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جائے گا۔
شرح سود میں 150 پوائنٹس اضافہ، سٹیٹ بینک آف پاکستان کو مکمل طور پر آئی ایم ایف کے سپرد کر دینا، ٹیکس چھوٹ کے حوالے سے دی گئی سبسڈیوں کا خاتمہ اور ڈالر ریٹ میں ریکارڈ اضافے کے بعد عوام کو مبارکبادیں دینا حیران کن ہے۔ یہاں مجھے ابھینندن یاد آ گیا جس کی 27 فروری 2019ء کی کارکردگی پوری دنیا کے سامنے ہے۔ کون نہیں جانتا کہ کس طرح پاکستانی ایئر فورس نے اس کا جہاز تباہ کیا‘ عوام نے جوتوں، مکوں اور ٹھڈوں سے اس کا استقبال کیا۔ کیمروں کے سامنے اسے بالوں سے پکڑ کر زمین پر گھسیٹا گیا‘ یہ تمام مناظر پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اس کے بعد پاک فوج کے جوانوں کے ہاتھوں اس کی گرفتاری عمل میں آئی اور اسے جنگی قیدی بنا لیا گیا، گرفتاری کے بعد اس نے اپنی ناکامی کا اعتراف کیا لیکن بھارتی سرکار اور میڈیا نے دعویٰ کیا کہ ابھینندن نے کامیاب آپریشن کر کے پاکستان کا ایف سولہ طیارہ تباہ کیا تھا۔ حالانکہ امریکی ٹیم پاکستان آ کر اپنی تسلی کرنے کے بعد یہ رپورٹ دے چکی ہے کہ پاکستان کے ایف سولہ طیارے پورے ہیں اور بھارت کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ ان تمام حقائق کے باوجود مودی سرکار نے بھارتی عوام کو مبارکباد دی کہ ابھینندن نے ''کامیاب آپریشن‘‘ کیا جس کے بدلے اسے بھارت کے تیسرے بڑے فوجی ایوارڈ ویر چکر سے نوازا گیا۔ حماد اظہر اور شوکت ترین کا ناکام حکومتی پالیسیوں کے بعد عوام کو مبارکباد دینا بھارتی حکومت کے ابھینندن کے ناکام آپریشن کو کامیاب قرار دے کر عوام کو مبارکباد دینے کے مترادف دکھائی دیتا ہے۔
ایک طرف کامیابی کے دعوے ہیں اور دوسری طرف بیرونی قرضوں میں برق رفتاری سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بیرونی قرض تقریباً چار ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جو پچھلے سال کی سہ ماہی کی نسبت تقریباً پچھتر کروڑ ڈالر زیادہ ہیں۔ اگلے دو ماہ میں حکومت مزید قرض لینے کی منصوبہ بندی کر چکی ہے بلکہ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کو درخواستیں بھی بھجوا دی گئی ہیں۔ آئی ایم ایف کا قرض ملنے جا رہا ہے جس کی بنیاد پر ورلڈ بینک اور اے ڈی بی سے بھی قرض مل جائے گا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب سے بھی تقریباً تین ارب ڈالر قرض سٹیٹ بینک میں رکھوانے کے لیے مل جائیں گے۔ ان حالات میں اگر یہ کہا جائے کہ حکومت کی منصوبہ بندی قرض پر معیشت چلانے کی ہے‘ تو غلط نہ ہو گا۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ چین کی حکومت نے رواں سہ ماہی کے دوران حکومت پاکستان کو مزید قرض دینے سے انکار کیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ چین پچھلے قرضوں کی واپسی پر زور دے رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پاکستان پارلیمنٹ کی طے کردہ حد سے زائد قرض لے چکا ہے جبکہ تجارتی بنیادوں پر آمدن میں اضافہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ مستقبل میں پاکستان آئی ایم ایف کے قرض واپس کرنے کو ترجیح دے گا اور چین کے قرضوں کی واپسی مؤخر ہو سکتی ہے۔ بیرونی قرضوں کے حوالے سے موجود اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ورلڈ بینک سے حاصل شدہ قرضوں کی مالیت سب سے زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ورلڈ بینک 46 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، ایشین ڈویلپمنٹ بینک 25 فیصد کے ساتھ دوسرے، چین 24 فیصد کے ساتھ تیسرے اور جاپان 3 فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ ورلڈ بینک اور اے ڈی بی سے حاصل کردہ قرض کو اگر آئی ایم ایف کا قرض کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ اگر آئی ایم ایف پاکستان کو قرض نہیں دے گا تو یہ ادارے بھی قرض روک لیں گے۔ اس حساب سے تقریباً 71 فیصد بیرونی قرض آئی ایم ایف کا مرہونِ منت ہے جو یہ حقیقت سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ مستقبل میں پاکستان کی معاشی پالیسی کیسی ہو گی اور حکومت کے کامیابی کے دعووں کی حقیقت کیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved