تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     25-11-2021

افریقہ کے زخم

افریقہ سا خطہ بھی کوئی نہ ہوگا جسے دنیا نے اب تک مجموعی طور پر نظر انداز ہی کیا ہے۔ عالمی سیاست و معیشت میں اس خطے کا کردار انتہائی سرسری نوعیت کا ہے۔ ڈیڑھ‘ دو ہزار سال کی تاریخ میں افریقہ کتاب کے متن میں تو کیا، حاشیے پر بھی خال خال دکھائی دیتا ہے۔ علوم و فنون اور تہذیب و ثقافت کے معاملات میں اس خطے کو اِس بُری طرح نظر انداز کیا گیا کہ شدید منفی اثرات سے آزاد ہونا اِس کے باشندوں کے لیے اب تک ممکن نہیں ہو پایا۔ افریقہ نے مختلف ادوار میں تھوڑے بہت فکری و عملی تحرک کا مظاہرہ بھی کیا‘ ایسا نہیں ہے کہ اس خطے نے کبھی غیر معمولی خوشحالی نہیں دیکھی۔ اِسی خطے کے ملک مالی میں مانسا مُوسٰی جیسا حکمران بھی گزرا جس کی دولت کے قصے اب تک مشہور ہیں۔ مانسا مُوسٰی نے 1324ء میں 60 ہزار افراد پر مشتمل قافلے کے ساتھ مکۂ مکرمہ تک سفر کیا جو کم و بیش ساڑھے تین ہزار میل کا تھا۔ اس سفر کے دوران مانسا مُوسٰی نے 18 میٹرک ٹن یعنی 18 ہزار کلو گرام سے زیادہ سونا تقسیم کیا۔ اِتنے بڑے پیمانے پر سونا خیرات اور عطیہ کرنے سے افریقہ اور اُس سے متصل یورپی علاقوں میں سونے کے نرخ کم و بیش ایک عشرے تک شدید گراوٹ کا شکار رہے۔
بعد کی صدیوں میں افریقہ کو شدید بدنصیبی اور مظالم نے لپیٹ میں لے لیا۔ یورپی اقوام نے منصوبہ سازی کے تحت افریقی ممالک کو فتح کرنے کے بعد غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھا اور اس خطے کے بیش قیمت قدرتی وسائل سمیٹ کر لے گئیں۔ افریقہ کے قدرتی وسائل کو بروئے کار لاکر یورپی اقوام نے اپنے لیے غیر معمولی ترقی کی راہ ہموار کی۔ یورپی اقوام نے اپنی ترقی اور خوش حالی یقینی بنانے کے لیے صرف افریقہ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جنوبی ایشیا، مغربی ایشیا اور دیگر خطوں میں بھی قتل وغارت اور جبر و استبداد کا بازار گرم کیا۔ ہندوستان کو زیرِ نگیں کرنے کے بعد اُس کے قدرتی وسائل کو انگریز شیرِ مادر کی طرح پی گئے۔ انگلینڈ، پرتگال، سپین، ہالینڈ اور فرانس کی شاندار ترقی میں سب سے نمایاں کردار مفتوحہ ممالک اور خطوں کے قدرتی وسائل، فصلوں سے حاصل ہونے والے خام مال اور افریقہ سے یورپ اور امریکا لے جائے جانے والے سیاہ فام غلاموں نے ادا کیا۔ اب یورپ میں اس حقیقت کا اعتراف کرنے والے سامنے آرہے ہیں کہ افریقی باشندوں پر صدیوں تک مظالم ڈھائے گئے اور اُن سے شدید غیر انسانی کیفیت میں کام لیا جاتا رہا۔ ہاورڈ ڈبلیو فرینچ عالمی امور کے نامہ نگار اور تجزیہ کار ہیں۔ اُنہوں نے پانچ کتابیں لکھی ہیں۔ اِن میں ''بورن اِن بلیکنیس: افریقہ، افریقنز اینڈ دی میکنگ آف دی ماڈرن ورلڈ، 1471ء ٹو ورلڈ وار ٹو‘‘ بھی شامل ہے جس میں انہوں نے وقیع تحقیق کے بعد خاصی تفصیل سے بتایا ہے کہ کس طور افریقی باشندوں پر صدیوں مظالم ڈھائے جاتے رہے، اُن کی خرید و فروخت کی جاتی رہی، اُن سے بے حساب کام لے کر صرف اِتنا معاوضہ دیا جاتا رہا کہ وہ جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔
افریقیوں کی پسماندگی کے سب سے زیادہ ذمہ دار یورپ کے باشندے ہیں جنہوں نے افریقیوں کو خوب لُوٹا اور اُن کی بہبود یقینی بنانے کے حوالے سے برائے نام اقدامات بھی نہ کیے۔ آج یورپ کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک چاہتے ہیں کہ اپنی سرحدیں تارکینِ وطن پر بند کردیں اور اپنے لوگوں ہی کی مدد سے اپنی معیشتیں چلاتے رہیں مگر ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ ایک طرف تو یورپ میں معمر افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور دوسری طرف پیدائش کی شرح برائے نام رہ گئی ہے بلکہ بعض معاشروں میں تو شرحِ پیدائش منفی میں ہے۔ ایسے میں افرادی قوت کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف تو ترقی یافتہ یورپی ممالک کی حکومتیں چاہتی ہیں کہ مزید تارکینِ وطن کو قبول نہ کیا جائے اور دوسری طرف وہ افرادی قوت کی بڑھتی ہوئی قلّت کا بھی شکار ہے۔ یہ قلّت معیشت کے مختلف شعبوں پر بُری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ افریقہ کی آبادی کم و بیش ایک ارب بیس کروڑ ہے، 2100ء تک یہ ساڑھے چار ارب تک ہوچکی ہوگی۔ افریقہ کی آبادی میں نئی نسل کا تناسب نمایاں ہے۔ افریقہ کئی خطوں کے لیے افرادی قوت کی فراہمی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ 2030ء تک عالمی سطح پر کام کرنے والی عمر کے افراد میں سے 60 فیصد کا تعلق افریقہ سے ہوگا۔ ان تمام اعداد و شمار کی روشنی میں اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ کام یعنی افرادی قوت کا مستقبل افریقہ سے وابستہ ہے۔ افریقہ کو نظر انداز کرتے رہنے کی روش ترک کیے بغیر اب چارہ نہیں۔ صدیوں سے عالمی برادری کی شدید بے حسی کا سامنا کرنے والے افریقی باشندوں کو باقی دنیا کی طرح بلند معیار کے ساتھ زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔ اُن کا یہ حق تسلیم کرنا ہوگا۔ عالمی برادری کے ضمیر پر یہ بہت بڑا قرض ہے۔ افریقی ممالک کو یورپ کی ترقی یافتہ اقوام نے آج تک اپنی مرضی کے مطابق خانہ جنگیوں میں الجھایا ہوا ہے۔ چند ایک افریقی ممالک تیل اور دیگر اہم قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں مگر اِن کے حالات اِتنے ابتر کردیے گئے ہیں کہ پنپنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ ایسے میں افریقیوں کی مدد کے لیے آگے بڑھنا ہر اُس یورپی ملک کا فریضہ ہے جس نے صدیوں اس براعظم کی دولت لُوٹی اور اِس کے باشندوں کو غلام بناکر اُن کی محنت شاقہ کی مدد سے اپنے لیے شاندار ترقی و خوشحال کا اہتمام کیا۔
صدیوں کی بے حسی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ آج عالمی سیاست و معیشت میں افریقہ صفر حیثیت کا حامل ہے۔ غیر معمولی تناسب سے قدرتی وسائل اور معتبر افرادی قوت کا حامل ہونے کے باوجود یہ خطہ اب تک اپنی کوئی بھی حیثیت منوانے میں ناکام رہا ہے۔ ہاں! یہاں کی خرابیاں جب حد سے بڑھیں تو کئی خطے متاثر ہوئے۔ اب پھر ایسی ہی کیفیت پروان چڑھ رہی ہے۔ یورپ کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے افریقہ کے معاملات درست کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ افریقہ کو صدیوں تک لُوٹنے والے یورپ کو اپنے ضمیر پر تھوڑا بہت بوجھ ضرور محسوس کرنا چاہیے تاکہ افریقیوں کی محض اشک شُوئی نہ ہو بلکہ اُنہیں ڈھنگ سے جینے کے قابل ہونے میں مدد مل سکے۔
ابھی تک تو ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ افریقہ کے بیشتر ممالک انتہائی نوعیت کے مالیاتی اور معاشی بحران کا شکار ہیں۔ ایسے میں عالمی مالیاتی اداروں کو بھی اُن کے حالات درست کرنے میں بخل اور تساہل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ افریقہ کے حوالے سے مسلم دنیا نے بھی اپنا کردار پوری دیانت سے ادا نہیں کیا۔ شمالی افریقہ میں مسلم اکثریت ہے۔ عرب دنیا کو اللہ نے تیل کی دولت سے نوازا تو اُن کا فرض تھا کہ اپنے انتہائی پسماندہ برادر ممالک کی مدد کرتے اور اُنہیں معیاری زندگی بسر کرنے کے قابل بناتے۔ ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ مصر، لیبیا، سوڈان، مراکش اور کئی دوسرے مسلم ممالک افریقہ کا حصہ ہیں۔ عرب دنیا کو اِن کی بھرپور مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے تھا مگر اِس حوالے کچھ کرنا تو بہت دور‘ سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔
کوئی معمولی سا خطہ ہو تو نظر انداز کیے جانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ افریقہ بر اعظم ہے اور وہ بھی تیزی سے پنپتی ہوئی افرادی قوت کا حامل۔ ایسے میں اُسے نظر انداز کرنا انتہائی بے عقلی اور بے حسی کا معاملہ ہوگا۔ اچھی خاصی آبادی والے خطے کو عضوِ معطل بنائے رکھنے کے بجائے عالمی سیاست و معیشت کا اہم جز بنایا جانا چاہیے تاکہ ماضی کے داغ دُھلیں اور روشن تر مستقبل کی راہ ہموار ہو۔ یورپ میں اس حوالے سے شعور بیدا کرنے اور ضمیر کو جھنجھوڑنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اقوامِ متحدہ بھی اِس حوالے سے آواز بلند کرکے اپنے حصے کا کام تو کر ہی سکتا ہے اور اُسے یہ کام کرنا ہی چاہیے۔ افریقہ کے زخم مرہم چاہتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved