تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     26-11-2021

الیکشن کمیشن آف پاکستان… تناؤ میں کمی

وزیر اعظم عمران خان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تحفظات اور اعتراضات کے ازالہ کے لیے مفاہمت کی پالیسی کا فیصلہ کر کے آئین اور قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کی بالا دستی کو تسلیم کر لیا ہے اور ایک طریقے سے آئندہ انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کے لیے انٹرنیٹ ووٹنگ کے نظام کی راہ ہموار کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ اس مقصد کے لیے وزارتی سطح پر مصالحتی کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بارے میں اپنے منفی رویے پر معافی نامہ الیکشن کمیشن کو بھیج دیا ہے۔ وہ اس حکومت کے اہم وزیر ہیں اور ان کو احساس ہو چکا ہے کہ انہوں نے جو رویہ اور طریقہ کار الیکشن کمیشن اور سابق چیف الیکشن کمشنر سردار رضا کے بارے میں اختیار کیا ہوا تھا اس پر سردار رضا نے کسی مصلحت کے تحت چوہدری صاحب کو نوٹس جاری نہیں کیا تھا اور خاموشی اختیار کیے رکھی لیکن موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور ارکان الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا گیا تو الیکشن کمیشن جاگ اُٹھا اور وفاقی وزیر کے مقابلے میں پسپائی اختیار کرنے کے بجائے مختلف ذرائع سے پیغامات بھجوا دیے کہ الیکشن کمیشن حقیقی معنوں میں آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 10 اور 232 کے تحت اُنہیں بغیر جھنڈے کی گاڑی میں گھر بھیجنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ خوش آئند بات ہے کہ چوہدری صاحب معاملے کی نزاکت کو سمجھ گئے اور اپنا معافی نامہ بھیج کر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی بالا دستی کو تسلیم کر لیا۔ تاہم پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں حکومت نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 103 اور 94 میں ترامیم کی منظوری سے آئندہ انتخابات کو متنازع بنانے کی بنیاد کھڑی کر دی ہے۔ اپوزیشن نے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق بل کو ہر فورم پر چیلنج کرنے اور اس کی مخالفت کرنے کا دعویٰ کیا۔ اب عدالت کے فیصلے میں اس سسٹم کے بارے میں بہترین گائیڈ لائنز متعین کئے جانے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے معاملے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعتراضات دور کرنے کے حوالے سے احکامات کا امکان ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے نظام کو مرحلہ وار اختیار کرنے کے لیے چیف الیکشن کمشنر نے تین کمیٹیاں بھی تشکیل دی ہیں جو قانون سازی کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل تیار کرکے الیکشن کمیشن کے اجلاس میں رپورٹ پیش کریں گی۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی وفاقی وزیر سائنس شبلی فراز کی سربراہی میں وزارتی کمیٹی قائم کی ہے جو حکومت اور الیکشن کمیشن کے مابین تناؤ میں کمی اور سازگار ماحول کے قیام میں پیش رفت کرتے ہوئے وزیر اعظم کو زمینی حقائق کے مطابق رپورٹ پیش کرے گی۔ سابق بھارتی کرکٹر اور اب سیاسی رہنما نوجوت سنگھ سدھو‘ جو سابق وزیر اور اب انڈین پنجاب کانگرس کے صدر ہیں‘ انڈین الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں فراڈ‘ الیکشن رزلٹ میں ہیرا پھیری‘ سافٹ ویئر میں تبدیلی اور چِپ کے ذریعے من پسند نتائج حاصل کرنے کی وجہ سے اسے دھاندلی زدہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین قرار دے چکے ہیں۔ ان کی رپورٹ وزیر اعظم عمران خان‘ قومی اسمبلی کے سپیکر اور صدر مملکت کو بھجوائی گئی ہے۔ انہیں اس کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے۔ انہی اعتراضات کی بنا پر نوجوت سنگھ سدھو نے آئندہ بھارتی انتخابات پرانے طریقہ کار کے مطابق کرانے کا مطالبہ بھی کر رکھا ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ناقدین کی آرا کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے اور ماہرین کی سطح پر ای وی ایم کا تنقیدی جائزہ لیا جانا چاہیے۔
پاکستان میں انتخابی اصلاحات اور الیکشن مانیٹرنگ سسٹم کے بین الاقوامی اہمیت کے حامل اداروں کے بارے میں حکومت نے جو پالیسی اختیار کی ہے اس پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ان اداروں کے بارے میں اگر شکایات حکومت تک پہنچی ہیں تو ان کے حل کے لیے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے ذریعے آڈٹ کرانے میں کوئی حرج نہیں لیکن حکومتی سطح پر ایسے اداروں کو بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کی حیثیت حاصل ہے‘ جو ملک میں انتخابی اصلاحات اور سیاسی جماعتوں کی کارکردگی پر گہری نظر رکھتی ہیں اور پارلیمنٹ کی کارروائی پر بھی رپورٹ شائع کرتی ہیں۔ ان کی رپورٹوں کو یورپی یونین‘ امریکہ اور دیگر ممالک میں پذیرائی حاصل ہے۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے ہی آئندہ انتخابات ہوں گے‘ میرے خیال میں اس سرکاری موقف میں وزن نہیں کیونکہ پارلیمانی اپوزیشن اور الیکشن کمیشن کے اعتراضات کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کے بعض حامی حلقے صرف اس دلیل کی بنیاد پر الیکٹرانک ووٹنگ کو لازمی قرار دے رہے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہونا چاہیے‘ جدید ٹیکنالوجی کی کوئی بھی مخالفت نہیں کرتا‘ لیکن الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی جن سنگین خامیوں کی نشاندہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کی ہے انہیں دور کرنے کے مطالبے کو جدید ٹیکنالوجی کی مخالفت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ موجودہ صورتحال میں مخصوص حکمت عملی کے تحت اداروں کی آئینی حیثیت کو متنازع بنانے کی جو مہم شروع کی گئی ہے اگر اسی پس منظر میں متنازع انتخابات کروائے جاتے ہیں تو عوام کا آتش فشاں پھٹ جائے گا اور ممکن ہے موجودہ سسٹم کی بساط ہی لپیٹ دی جائے۔ ایسا ہوا تو اس ملک کے سیاست دانوں‘ بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات‘ جو کسی نہ کسی حوالے سے اس نظام کا حصہ یا سہولت کار رہی ہیں‘ شبہات کی زد میں آ جائیںگی۔
حکومت کی مقبولیت کا اندازہ مارچ میں لوکل گورنمنٹ کے الیکشن سے بخوبی معلوم ہو جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان جمہوری روایات کے تحت رسک لے رہے ہیں۔ اگر ملک بھر کے 133 اضلاع میں نتائج حکومت کی توقع کے برعکس سامنے آئے تو اپریل 2022ء میں ہی آئندہ ہونے والے قومی انتخابات کا عندیہ بخوبی معلوم ہو جائے گا۔ وزیر اعظم قبضہ مافیا کی اطلاع تین سال سے دے رہے ہیں لیکن ان کے خلاف سخت کارروائی سے گریز کر رہے ہیں۔ پاکستان میں موجودہ مضبوط ترین گروپس نے نہ صرف نجی بلکہ سرکاری زمینوں پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دیگر مافیاز کی طرح یہ مافیا بھی اس حد تک طاقت ور ہے کہ حکومت اس کے سامنے بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پارلیمان کے اندر اور باہر موجودہ کئی با اثر شخصیات اس مافیا کی باقاعدہ سرپرستی کرتی ہیں‘ اور جب بھی اس پر مشکل وقت آنے لگتا ہے تو وہی طاقت ور اشرافیہ اس کے لیے ڈھال بن جاتی ہے اور ان کے وکلا عدالتوں سے حکمِ امتناعی حاصل کر لیتے ہیں۔ ان مافیا گروپس نے اداروں میں اپنے فرنٹ مین رکھے ہوئے ہیں بلکہ فرنٹ مینوں کی باقاعدہ کمپنیاں لابسٹ کے نام پر قائم کی ہیں جو کرپشن اور دباؤ کے تحت سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے میں معاونت کرتی ہیں۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کو احساس دلایا گیا ہے کہ ان کے بعض وزرا وزیر اعظم کو زمینی حقائق سے آگاہ نہیں کر رہے ہیں لہٰذا وزیر اعظم نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعتراضات کے ازالہ کے لیے وزرا کی کمیٹی مقرر کر کے خوش آئند قدم اٹھایا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved