تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     26-11-2021

افریقہ سے استعماری رجحان کی پسپائی؟

سوڈان میں 25 اکتوبر کی شب جس بغاوت کا ناقوس بجایا گیا وہ عوامی مزاحمت کی تاب نہ لاتے ہوئے پسپائی پر مجبور ہو گئی ہے۔ عوامی مظاہروں کی گونج میں محبوس وزیراعظم عبداللہ حمدوک بغاوت کے سرخیل جنرل عبدالفتاح البرہان کے ہمراہ شراکتِ اقتدار کے نئے معاہدے کی دستاویز کے ساتھ ٹی وی پر نمودار ہوئے تو ایف ایف سی‘ جس نے دو سال قبل مسٹر حمدوک کو وزیر اعظم نامزد کیا تھا‘ نے اس جبری معاہدے کو مسترد کر دیا۔ مسٹر حمدوک نے کہا: میں نے تشدد روکنے کیلئے معاہدے پہ دستخط کیے، آیئے خونریزی ترک کرکے نوجوانوں کی توانائیوں کو تعمیر و ترقی کے عمل میں کھپائیں۔ فی الوقت سوڈانی فوج کو جمہوریت کی بحالی کیلئے شدید عوامی دباؤ کا سامنا ہے۔ رائے عامہ کے تیور دیکھ کر جہاں عالمی بینک نے سوڈان کی مالی امداد روک دی‘ وہاں افریقی یونین نے سوڈان کی رکنیت معطل کرکے عوامی خواہشات کا بھرپور ساتھ دیا؛ تاہم امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین سمیت مغربی طاقتوں نے حمدوک حکومت کی بحالی کے خیر مقدم کی آڑ میں جنرل برہان کی مہم جوئی سے صرفِ نظر کی پالیسی اختیار کرکے سوڈان میں جمہوریت کی بحالی کے امکان کو مزید دورکر دیا۔ بظاہر جنرل برہان کی طرف سے سویلین گورنمنٹ کا تختہ الٹنے کا مقصد 2019ء میں طے پانے والے اس معاہدہ سے جان چھڑانا تھا جس میں ملک کو آئینی جمہوریت کی طرف لے جانے پر اتفاق ہوا تھا۔
سوڈانی فوج نے اگست 2019ء میں ایف ایف سی (فورسز فار فریڈم اینڈ چینج) کے ساتھ اس وقت تقسیمِ اختیارات کا معاہدہ کیا جب عوامی مزاحمت کے باعث طویل عرصہ سے ملک پہ مسلط جنرل عمر البشیر کو معزول کیا گیا تھا۔ معاہدے کے مطابق‘ ماہِ اکتوبر میں جنرل برہان کو ریاست کے سربراہ کا عہدہ چھوڑ کے اقتدار سویلین حکومت کے سپردکرنا تھا لیکن معاہدے پر عملدرآمد سے قبل جنرل برہان نے خانہ جنگی کے نام نہاد خطرے کو جواز بنا کے سویلین وزیراعظم کو گرفتار کر لیا؛ تاہم عوامی ردعمل سامنے آنے پر وزیراعظم سے اپنی مرضی کے نئے معاہدے پہ دستخط کروا کے جمہوریت کی طرف بڑھتے سوڈان کا رخ کبھی نہ تھمنے والی کشمکش کی طرف موڑ دیا۔ حیرت ہے کہ مغربی دنیا نے نہایت فراخدلی کے ساتھ جنرل برہان کی بدنیتی کو جمہوری تبدیلی کا تسلسل مان لیا جبکہ تمام غیر جانبدار تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ ایسا کرنے سے سوڈانی فوج کی نیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ فوج نے وزیراعظم اور دیگر سویلین رہنماؤں کو حراست میں لیتے وقت دعویٰ کیا تھا کہ گزشتہ دو سالوں کے تجربے نے ثابت کیا ہے کہ عبوری دور میں سیاسی قوتوں کی شرکت ناقص تھی جس سے تصادم کو ہوا ملی۔ جنرل برہان کا یہ دعویٰ تھا کہ حکومت بحران کا شکار ہے جس سے بغاوت کو ہوا مل رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک میں اب بھی جمہوریت ہے لیکن سوڈانی عوام ایسے خودغرضانہ جواز کو ماننے پر تیار نہیں۔
دارالحکومت خرطوم میں جمہوریت کے حامیوں نے بغاوت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا جس کے نتیجے میں جمہوری قوتوں کو انگیج کرنے کی خاطر وزیراعظم کی نظربندی ختم کرکے نیم سویلین حکومت بحالی کر دی گئی۔ ماہرین کے مطابق اگرچہ سوڈان کی جمہوری تبدیلی نامکمل تھی لیکن یہ ایسے ملک کی قابلِ ذکر کامیابی تھی جس نے بارہا مارشل لا اور بغاوتیں دیکھی ہوں۔ سوڈانی فوج نے 2019ء میں عمر البشیر کی معزولی میں مداخلت کی تھی لیکن سول سوسائٹی کے رہنمائوں، پیشہ ور افراد اور نچلی سطح کی تنظیموں کی قیادت میں سیاسی تحریک نے آمر کا تختہ الٹ کر جمہوری تبدیلی کا آغاز کیا۔ یہی گروہ سوڈانی سیاست میں اب بھی طاقتور عنصر کے طور پر موجود ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تبدیلی بہرحال تبدیلی تھی؛ اگرچہ نامکمل تھی؛ تاہم اسی تبدیلی نے ملک میں پھیلے باغی گروپوں سے مفاہمت کی راہ بنائی، مذہبی رواداری کادائرہ وسیع کیا، تبدیلی کی بدولت ہی سابق آمر عمرالبشیر کو فوجداری مقدمات کا سامنا کرنا پڑا، اس لئے بدلتے رجحانات پہ مارشل لا حکومت قابو نہیں پا سکتی۔
سوڈانی فوج نے سویلین لیڈرشپ پہ روایتی الزام عائد کرکے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی کہ ایف ایف سی نے مسائل حل کرنے کے بجائے تبدیلی سے امیدیں رکھنے والوں کو مایوس کیا لیکن اب تک‘ سڑکوں پر ہونے والے ردعمل سے‘ عیاں ہے کہ ملکی آبادی کے بڑے حصے نے بغاوت کرنے والوں کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔ عوامی مزاحمت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مرتبہ فوج سوڈان کے جمہوری تجربے کی بساط لپیٹ نہیں پائے گی۔ مغربی قوتوں کا خیال ہے کہ عبوری عمل کو اس کی موجودہ شکل میں بچایا جا سکتا ہے۔ ایک طرف سوڈان کو گورننس کے مسائل کے علاوہ شدید ترین معاشی بحران اور ایتھوپیا کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی جیسے مصائب نے گھیر رکھا ہے تو دوسری جانب سوڈان ایسے خطے میں واقع ہے جہاں ہمسایہ ممالک چاڈ، جنوبی سوڈان، اریٹیریا اور ایتھوپیا کی وہ رومانوی آمریتیں ہیں جنہیں کامیابی کی علامت سمجھا گیا ہے؛ تاہم اب یہی زوال پذیر آمریتیں اور بے مقصد بغاوتیں خطے کو مزید غیر مستحکم کر سکتی ہیں۔ جمہوری تبدیلی نے سوڈان کو امریکا اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات بحال کرنے میں مدد دی تھی۔ امریکا، برطانیہ اور ناروے پہ مشتمل ٹرائیکا نے بظاہر بغاوت کی مذمت اورعبداللہ حمدوک کو جائز وزیراعظم قرار دیا، افریقہ کیلئے خصوصی امریکی ایلچی نے اکتوبر کے اوائل میں سوڈانی حکام سے ملاقاتیں کیں تاکہ انہیں جمہوریت سے انحراف کی صورت میں امریکی حمایت سے محرومی کا احساس دلایا جائے لیکن ان ملاقاتوں کے چند دن بعد ہی وہاں بغاوت ہو گئی؛ تاہم سوڈان کی سول سوسائٹی اپنے جمہوری تجربے کو برقرار رکھنے کیلئے پرعزم ہے۔
معزول عبوری حکومت کے ارکان نے وزیر اعظم عبد اللہ حمدوک کے بحالی کے معاہدے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے دھوکا دہی قرار دیا ہے۔ امرِ واقعہ یہی ہے کہ تازہ بغاوت نے نوزائیدہ جمہوریت کے طور پر سوڈان کی بین الاقوامی حیثیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے، قرضوں سے نجات اورعالمی امداد کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے، دارفور اور نوباکے پہاڑوں میں باغیوں کے ساتھ امن مذاکرات تعطل کا شکارہوئے ہیں۔ امریکی انتظامیہ نے 700 ملین ڈالرکا مالیاتی پیکیج 'روک‘ لیا ہے، اس سے بھی بڑا مسئلہ سوڈان کے قرض سے نجات کا پیکیج ہے جس پر حال ہی میں مسٹر حمدوک نے بات چیت ہوئی تھی‘ التوا میں چلا گیا ہے۔ دو سال کی تکلیف دہ تاخیر کے بعد‘ سوڈان کی معیشت کو بچانے کیلئے بین الاقوامی امداد بالآخر دائرۂ امکان میں داخل ہوئی تھی لیکن تازہ حالات نے اسے بھی خطرات کا شکار کر دیا ہے۔ افریقی یونین، اقوام متحدہ، مشرقی افریقی علاقائی ادارہ ایل جی اے ڈی اور سوڈان کے تمام مغربی عطیہ دہندگان نے بغاوت کی مذمت کرتے ہوئے سویلین حکومت کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ عرب لیگ نے بھی 2019ء میں طے پانے والے آئینی فارمولے کے احترام پر زور دیا۔ یہ گروہ عام طور پر مصری آمریت کے ساتھ مل کر کام کرتاہے، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنرل برہان قاہرہ کی حمایت پر کتنا اعتماد کر سکتے ہیں؟خلیجی ممالک جنہوں نے 2019ء میں جنرل برہان کو مالی امداد فراہم کی تھی‘ خاموش ہیں۔ ان کی ہمدردیاں شاید فوج کے ساتھ ہوں لیکن وہ سوڈان کو بیل آؤٹ کرنے کے اخراجات پورے نہیں کر سکیں گے۔
جنرل برہان پہلے ہی ملک کے طاقتور ترین آدمی تھے، ان کے کردار کو اگست 2019ء میں مابین تقسیمِ اقتدار کے معاہدے میں تسلیم کیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق جنرل برہان اگلے ماہ خودمختار کونسل کے چیئرمین کا عہدہ چھوڑنے والے تھے جس کے بعد ایک سویلین سربراہِ مملکت بن جاتا، تاہم جنرل برہان اور ان کے ساتھی خوفزدہ ہیں کیونکہ جون 2019ء میں خرطوم میں ہونے والے قتل عام کی تحقیقاتی رپوٹ میں ان کی طرف انگلیاں اٹھائی گئی ہیں۔ یہ قتل عام عمر البشیر کی برطرفی کے دو ماہ بعد اس وقت ہوا جب پُرامن مظاہرین سویلین حکمرانی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ بدعنوانی سے نمٹنا اور سکیورٹی سیکٹر میں اصلاحات کے ایجنڈے دیگر ایسے مسائل ہیں جنہوں نے سوڈانی فوج کو پریشان کر رکھا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved