تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     26-11-2021

سب گھرانوں کا مشترک مسئلہ

مکمل یا کامل زندگی تو کسی کی بھی نہیں۔ اس دنیا کو خلق ہی اِس ڈھب سے کیا گیا ہے کہ کہیں بھی سب لوگ ایک مزاج کے نہیں پائے جاتے۔ اگر مزاج میں یکسانیت ہو تو دنیا چل چکی۔ کھانے کے دوران منہ میں کنکر آ جائے تو کھانے کا مزا کرکرا ہو جاتا ہے۔ کڑوا بادام بھی منہ کا مزہ خراب کردیتا ہے۔ زندگی کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ہمیں زندگی کے بازار سے ہر چیز اپنے مطلب کی یعنی من پسند یا میٹھی نہیں ملتی۔ مل ہی نہیں سکتی۔ تنوع اِسی کا تو نام ہے کہ سب کچھ آپ کی مرضی کا نہ ہو اور سب لوگ بھی آپ کی مرضی کے نہ ہوں۔ یہ قدرت کا نظام ہے جس میں ہم دخل نہیں دے سکتے۔ چند ایک چیزیں کڑوے گھونٹ کی طرح ہوتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ بعض افراد کا بھی ہوتا ہے۔ وہ کڑوے بادام کے مانند ہوتے ہیں یعنی جی چاہے یا نہ چاہے‘ اُن سے تعلق ہماری زندگی میں تلخی ہی پیدا کرتا ہے۔ ایسے لوگ کسی کی بھی مرضی کے نہیں ہوتے۔ جن میں 'بِلٹ اِن فالٹ‘ پایا جائے وہ کسی کا بھلا نہیں کرسکتے۔ یہ فالٹ دورکرنا بالعموم کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ ایسے کسی بھی فرد کو سزا کے بجائے آزمائش سمجھیے تو گزارہ آسان ہو جاتا ہے۔ یہ سوچ کر اللہ کا شکر ادا کیا جاسکتا ہے کہ ہم ایسے نہیں! ہم میں سے کوئی ایک بھی فرد ایسا نہیں جس کے قریبی یا اندرونی حلقے میں کوئی نہ کوئی ایسا فرد نہ پایا جاتا ہو جس کے مزاج کی کجی لاکھ کوشش کرنے پر بھی دور نہیں ہو پاتی۔ جن کے ذہن میں کجی پائی جاتی ہو وہ کسی کے سمجھانے سے نہیں سمجھتے۔ عمومی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ ایسے ہر فرد کا نفسی امور کے ماہرین سے معائنہ کرایا جانا چاہیے۔ ایسا فرد کسی کے سمجھانے سے سمجھتا نہیں مگر ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایسے لوگوں کو یہ بھی نہیں سمجھایا جاسکتا کہ وہ نفسی الجھنوں کا شکار ہیں اور یہ کہ ان کا علاج کیا جانا چاہیے۔
نفسی الجھنوں سے نجات پانے کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ نفسی پیچیدگی، مزاج یا شخصیت کی کجی دور کرنے کے معاملے میں سب سے پیچیدہ بات یہ ہے کہ ہم برسوں بلکہ عشروں کی پیدا کردہ خرابیوں کو چند لمحوں میں دور کرنے کے درپے ہوتے ہیں! ہم میں سے کوئی بھی کسی جادو نگری میں نہیں رہتا کہ آنکھیں بند کرکے زیر لب کچھ بڑبڑائے اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام معاملات اُس کی مرضی کے سانچے میں ڈھل جائیں۔
محترم انور مسعود کہتے ہیں ؎
اِک بات آگئی ہے بہت کھل کے سامنے
ہم نے مطالعہ جو کیا ہے سماج کا
اِک مسئلہ ہے سارے گھرانوں میں مشترک
ہر گھر میں ایک فرد ہے ٹیڑھے مزاج کا
کسی ایک گھرانے کے افراد بھی یہ سوچ کر سکون کا سانس نہیں لے سکتے کہ اُن کی زندگی میں ٹیڑھے مزاج کا کوئی فرد نہیں۔ یہ تو کم و بیش ہر گھر کی کہانی ہے۔ کوئی ایک گھرانہ بھی ایسا نہیں جسے دیکھ کر کہا جائے کہ وہ اس معاملے میں خوش نصیب ہے۔ اِسی طور کسی گھرانے کو ٹیڑھے مزاج والے کسی فرد کی بنیاد پر مطعون بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ بعض افراد کا مزاج بالکل ٹیڑھا کیوں ہوتا ہے اور وہ عمومی سطح پر دوسروں کے لیے الجھنیں پیدا کرنے کا ذریعہ کیوں ثابت ہوتے رہتے ہیں۔ کیا اِسے کارِ قدرت سمجھ کر برداشت کرلیا جائے یا محض نظر انداز کردیا جائے؟
کسی بھی فرد کے مزاج میں پائی جانے والی کجی بالعموم بہت سے عوامل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ پہلا عامل ہے کارِ قدرت۔ رب نے جسے جس طور خلق کیا ہے وہ اُسی طور زندگی بسر کرنے کی روش پر گامزن رہتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ماحول انسان میں پائی جانے والی کجی کا دائرہ وسیع کر دیتا ہے۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو انسان کو بعض معاملات میں انتہائی نوعیت کی طرزِ فکر کا حامل ہونے کی طرف مائل کرتا ہے۔ اگر مزاج پہلے ہی کریلے جیسا کڑوا ہو تو خراب ماحول کو نیم سمجھیے ۔کیا کسی انسان میں پائی جانے والی تمام خرابیاں محض قدرت کے سبب ہوتی ہیں؟ کیا کسی بھی انسان کی تمام خرابیوں اور خامیوں کو محض یہ سوچ کر قبول کرلینا چاہیے کہ وہ قدرت کی ''عطا کردہ‘‘ ہیں؟ اور کیا مزاج کی کجی کوعطا قرار دیا جاسکتا ہے؟
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کسی بھی انسان میں پائی جانے والی کجی کا بڑا حصہ اہلِ خانہ کی لاپروائی اور بے جا تحمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر کسی خرابی کو بہرطور برداشت کیا جاتا رہے تو وہ بڑھتے بڑھتے بحران میں تبدیل ہوسکتی ہے اور ہو ہی جاتی ہے۔ کسی بھی زخم کا بروقت اور کماحقہٗ علاج ناگزیر ہے۔ ایسا نہ کیا جائے تو اُسے ناسور بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ برف کا بھی یہی معاملہ ہے۔ برف کے ذرّوں کو گیند کی شکل میں لڑھکایا جائے تو بڑھتے بڑھتے یہ گولے اور پھر تودے میں تبدیل ہوسکتے ہیں! مزاج میں پائی جانے والی کجی کا معاملہ بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ مزاج کی کجی کسی میں بھی ہوسکتی ہے۔ مزاج کے معاملے کو ہم کنٹرول نہیں کرسکتے مگرہاں! مزاج میں پائی جانے والی کجی کے حجم کا تعین ایک خاص حد تک ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اگر کسی کے مزاج میں کجی ہے تو ابتدائی مرحلے میں شناخت کرکے روکنا ناگزیر ہے۔ اگر ہم کسی بھی خرابی یا خامی کو محض نظر انداز کرتے رہیں یا برداشت کرتے چلے جائیں تو وہ اس حد تک پنپ جاتی ہے کہ ہم تماشائی کی حیثیت سے محروم ہوکر خود تماشا بن جاتے ہیں!
اللہ کا خاص کرم یہ ہے کہ صرف انسان کو کسی بھی غلط بات کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور ثابت قدمی کے ساتھ حالات سے لڑنے کی صفت عطا کی گئی ہے۔ یہ جذبہ کسی بھی اور مخلوق میں ایسے نہیں پایا جاتا۔ جس طور ہم حالات کی خرابی دور کرنے کے لیے ڈٹ جاتے ہیں بالکل اُسی طور ٹیڑھے مزاج والے کسی انسان کو بھی درستی کی طرف مائل ہونے کی تحریک دینے کے لیے بھی ثابت قدمی لازم ہوتی ہے۔ کسی کی اصلاح مخصوص حالات میں ناگزیر ہوتی ہے۔ اِس میں متعلقہ فرد کے مفاد سے زیادہ اپنا مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ کسی کی اصلاح پر مائل ہوکر ہم اپنے ضمیر کو بھی مطمئن کر رہے ہوتے ہیں۔ ویسے تو خیر کسی بھی خرابی کو دور کرنے کے بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں مگر ایک بنیادی حقیقت یہ بھی ہے کہ کسی بھی گھرانے میں تمام یا بیشتر افراد کے مزاج میں کسی خرابی کو روکنے کا مدار اِس بات پر ہوتا ہے کہ گھرانے کا سربراہ متوازن اور معتدل مزاج رکھتا ہو۔ کسی بھی گھرانے کے لیے اُس کا سربراہ ہی رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ گھر کا مجموعی ماحول گھرانے کے سربراہ کے مزاج کے مطابق بدلتا ہے۔ والدین میں بالعموم اور والد میں بالخصوص اولاد کو سب کچھ دکھائی دیتا ہے۔ اُس کی شخصیت بچوں کی پوری زندگی پر محیط ہوتی ہے۔ وہ اِسی آئینے میں اپنا جائزہ لیتے ہیں۔
کسی بھی بچے کے مزاج میں پائی جانے والی ٹیڑھ کو ایک خاص حد تک رکھنے میں کلیدی کردار والدین کا ہوتا ہے۔ اگر والدین یہ چاہتے ہیں کہ اُن کی اولاد بہتر زندگی کی طرف جائے تو خود کو متوازن اور اعتدال پسند رکھیں۔ گھر میں کسی بھی بڑی خرابی کو پنپنے اور پھیلنے سے روکنے میں یہی وصف بنیادی کردار ادا کرسکتا ہے۔
کیا لازم ہے کہ ہر گھر میں کوئی ایک فرد ٹیڑھے دماغ اور بگڑے ہوئے مزاج کا ہو؟ کیا ہر گھر میں ٹیڑھے مزاج والے کسی فرد کی موجودگی کو گھر کا نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لئے قدرت کی جانب سے کیا ہوا اہتمام سمجھا جائے؟ اس بحث سے قطع نظر اصل مسئلہ اُس وقت جنم لیتا ہے جب گھر کا کفیل ٹیڑھے مزاج کا ہو! جس کی کمائی سے گھر چل رہا ہو اُس کی ہر خرابی اور بُری بات کو بخوشی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ والدین پر لازم ہے کہ کماؤ پوت یا گھر کے کفیل کی کسی بھی خرابی کو غیر ضروری طور پر برداشت نہ کریں۔ اگر والدین ہی کمزوری دکھائیں تو گھر ڈھنگ سے چل نہیں سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved