فرمایا: بری ہے ڈرائے گیوں کی سحر! کیا یہی وہ خوف زدہ لیڈر ہیں جو کرپشن ، بدانتظامی اور نا انصافی کی دلدل سے ہمیں نجات دلائیں گے ؟ عمران خاں نے کہا : ہم نے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے ورنہ فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ دیا جائے گا۔ اوّل تو یہ غلط ہے کہ اگر وہ پیپلز پارٹی کی طرح مقاطعے کا اعلان کرتے تو انہیں حکومت سے گٹھ جوڑ کا الزام دیا جاتا ۔ ثانیاً جب بھاڑے کے ٹٹو ان کے خلاف پروپیگنڈہ اور یہ ناچیز تنہا ان کا دفاع کرتا رہا تو ان کا کیا بگڑا؟ ووٹر ان کے لیے میدان میں نکل آئے تھے اور وہ بھی جو عام طور پر الیکشن کے دن گھروں میں آسودہ رہتے ہیں ۔ خود انہوںنے اعتراف کیا ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں غلطیاں ہوئیں، ثانیاً اسّی فیصد پولنگ سٹیشنوں پر ان کے ایجنٹ ہی موجود نہ تھے، ثالثاً بڑے پیمانے کی دھاندلی ہوئی۔ جو بات وہ کھل کے نہیں کہتے، وہ یہ ہے کہ امریکہ ، بعض عرب ممالک اور مقامی مالدار طبقات ان کے خلاف متحد ہوئے اور ان سب کے اپنے اپنے مفادات تھے ۔ آخری سبب کا تعین خود ان کی قائم کردہ کمیٹی نے کر دیا ہے ۔ پارٹی کے بعض لیڈروں نے ٹکٹ بیچے ۔ اس کمیٹی کے سربراہ جسٹس وجیہ الدین احمد ہیں۔ ایک سیاستدان نہیں بلکہ جج کی طرح معاملات کو دیکھنے کے خوگر ۔ اس تازہ فیصلے نے پارٹی میں نئے انتخاب کی راہ ہموار کر دی ہے کہ موجودہ قیادت پر اعتماد باقی نہیں۔ اگرچہ سب ملزموں کا ذکر رپورٹ میں نہیں ہے ۔ وہ بچ نکلے ، جن کے خلاف شواہد موجود نہیں ۔ مثال کے طور پر صداقت عباسی ۔ کیا ان کے فارم ہائوس کے اخراجات کچھ لوگ برداشت کرتے تھے اور کیا ان میں سے بعض پر عنایات کی گئیں ؟ عمران خان میرے ساتھ جھگڑا کرتے تھے کہ علیم خان کے ساتھ میں زیادتی کرتا ہوں ۔ اب ان کا جواب کیا ہے ؟ پھر شاہ محمود ایسے لوگ، جنہوںنے روپیہ تو شاید نہ لیا مگر رانا محبوب ایسے مقبول لیڈروں کے برعکس ذوالفقار قریشیوں کی حمایت کی… اور وہ کون تھے، جنہوںنے اعظم سواتی کے حلقے میں قادیانی قرار دئیے جانے والے صوبائی اسمبلی کے ایک امیدوار کی سرپرستی کی؟ نتیجے میں ہزارہ میں قومی اسمبلی کی سات کی سات نشستیں ہار دی گئیں ۔ میاں محمد نواز شریف اس بات سے خوف زدہ تھے کہ الیکشن میں اگر تاخیر ہو گئی تو کہیں اپوزیشن متحد نہ ہو جائے ۔ رضا ربانی مشترکہ امیدوار بن کر ایوانِ صدر میں براجمان نہ ہو جائیں ۔ مشکل تھا ، بہت مشکل ۔ الطاف حسین اور مولانا فضل الرحمٰن ایسے لیڈروں کی موجودگی میں حکومت کو ہرانا سہل نہیں ہوتا۔ حریفوں کو وہ خوف زدہ کرسکتی ہے ، حامیوں کو ترغیبات دے سکتی ہے اور وسائل اس کے پاس ہوتے ہیں ۔ فرض کیجئے، ایسا ہو بھی جاتا تو صدر کے پاس کون سے اختیارات ہیں ۔ فتح و شکست کھیل کا حصہ ہوتی ہے ۔ حکومتوں کی مقبولیت اور عدم مقبولیت کا انحصار ان کی کارکردگی پہ ہوا کرتاہے، اس طرح کے حادثات پر نہیں ۔ دلوں اور دماغوں میں لیکن اگر خوف نے جڑیں پکڑ لی ہوں تو کیاعلاج؟ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کو رخصت ہو جانا تھا مگر نواز شریف ڈر گئے ۔ آزاد کشمیر میں اپنی پارٹی کو انہوںنے غیر جانبدار رہنے کا حکم دیا۔ یہ اس وقت ہوا ، جب صدر زرداری اور خورشید شاہ کے علاوہ ، جنہوںنے فون پر ان سے رابطہ کیا، مشترکہ مفادات کی کونسل میںسندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے ان سے بات کی ۔ مظفر آباد میں اب ایک ایسی حکومت ہے ، جسے اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ۔ افسر شاہی اب قابو میں نہیں رہے گی اور وزیراعظم رہی سہی قوتِ فیصلہ سے بھی محروم ہو جائیں گے ۔ میاں محمد نواز شریف کے اس اقدام سے پہلے ہی پارٹی دو دھڑوں میں بٹ چکی تھی ۔ بتایا جاتاہے کہ اکثریت راجہ گروپ سے نالاں ہے اور ان کی قیادت میرپور کے طارق فاروق کر رہے ہیں ۔ یہ لوگ راجہ ظفر الحق سے شاکی ہیں ، جنہیں راجگان کا سرپرست بتایا جاتاہے اوروزیر اعظم نے آزاد کشمیرکوجن کے سپرد کر رکھا ہے ۔ راجہ فاروق حیدر کا موقف معلوم کرنے کے لیے جمعہ کی شب دس بجے سے ایک بجے تک انہیں فون کرتا رہا۔ جن صاحب کے پاس ان کا موبائل تھا، وہ بھی انہی ایسے نکلے۔ دو گھنٹے تک ’’ابھی کچھ دیر میں‘‘ بات کرانے کا وعدہ کرتے رہے ۔ اس کے بعد چپ سادھ لی۔کچھ بھی ہو ، آزاد کشمیر کے اخبار نویس کہتے ہیں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ بالآخر چوہدری عبدالمجید کو رخصت ہونا پڑے گا۔ ایک گمان یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود کو پسند نہیں کرتے ، جنہیں گزشتہ الیکشن سے پہلے وہ اپنی پارٹی میں شامل کرنے کے آرزومند تھے ۔ یہ بہرحال طے شدہ ہے کہ مظفر آباد میں استحکام کا خاتمہ ہوا او رکوئی دن میں پیپلز پارٹی کی بدعنوان حکومت کو بوریا بستر لپیٹنا پڑے گا۔ چوہدری عبدالمجید کی نامقبولیت اور نون لیگ آزاد کشمیر میں بے زاری کی لہر سے سیاسی خلا نے جنم لیا ہے ، تحریکِ انصاف ایسی کوئی نئی قوت جس کا فائدہ اٹھا سکتی ۔ وہ تو مگر اپنے داخلی بحران میں مبتلا ہے ۔ اس کے لیڈر ایک دوجے کے درپے ہیں ۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ کراچی میں تحریکِ انصاف بالکل اسی طرح ایم کیو ایم کی جگہ لے سکتی تھی ، جس طرح پختون خو امیں اسفند یارولی کی اے این پی کو اس نے چلتا کیا۔ ہوا مگر کیا؟ عمران خان تو الگ ، جاوید ہاشمی اور شاہ محمود تک کراچی نہ گئے ۔ پارٹی کے پاس کوئی حکمتِ عملی ہی نہیں ۔ حکمتِ عملی کو تشکیل دینے والا کوئی گروپ ہی نہیں ۔عمران خان یہ بنیادی بات ہی نہیں سمجھ سکے کہ ایک کور گروپ (Core Group)کے بغیر پارٹیاں تو کیا ، ایک کارخانہ بھی چلایا نہیں جا سکتا۔ چار برس ہوتے ہیں ، جب انہوںنے مجھ سے اتفاق کیا تھا کہ تحریکِ انصاف کو ایک پولیٹیکل کمیٹی اور ایک تھنک ٹینک کی ضرور ت ہے ۔ اب مگر اسد عمر اور ان کا کمپیوٹر ہی سب کچھ ہے ۔ ممکن ہے کہ وہ ایک اچھے کاروباری منتظم ہوں مگر سیاست کی حرکیات سیکھنے کے لیے ابھی انہیں تجربہ درکار ہے ۔ ابھی تو وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ عام جلسوں اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں معیشت کی تکنیکی زبان میں بات نہیں کی جاتی ۔ حکمت جس چیز کا نام ہے ، وہ فقط علم سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ معلومات کی بنیاد پر حسنِ عمل کا خوگر ہونے سے۔ اس کے لیے جراتِ عمل، اخلاص او رتوکل چاہیے۔ ایک حد سے زیادہ آپ اس امر کی پرواہ نہیں کرتے کہ لوگ کیا کہیں گے ۔ جتنا زیادہ اس موضوع پر میں سوچتا ہوں ، اتنا ہی قائد اعظم مجھے یاد آتے ہیں ۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کا وہ جملہ ’’وہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے مسلمان تھے‘‘ نئی عدالتیں ، نیا میڈیا ، غور و فکر کرنے والے لاکھوں نوجوان ، اس معاشرے کو اب بہر حال بدل جانا ہے ۔ اگر موجودہ سیاسی جماعتیں نوشتۂ دیوار نہ پڑھیں گی ، اگر تحریکِ انصاف خو دکو از سرِ نو منظم نہ کرے گی تو نئے لوگ نمودار ہوں گے کہ خلا کبھی باقی نہیں رہتا ۔ شش و پنج کے مارے ہوئے یہی متذبذب لوگ ہیں تو شاید سالِ رواں کے آخر یا اگلے برس کے موسمِ بہار تک ایک نئی پارٹی وجود میں آجائے ۔ صلاح مشورے کا آغاز ہو چکا اور وہ سوال بہت سے ذہنوں میں ہے ، جس کا آغاز میں حوالہ دیا ہے : بری ہے ڈرائے گیوں کی سحر! کیا یہی وہ خوف زدہ لیڈر ہیں ، جو کرپشن ، بد انتظامی اور نا انصافی کی دلدل سے ہمیں نجات دلائیں گے ؟ پسِ تحریر: کیا یہ بات قابلِ فہم ہے کہ ایم کیو ایم نے نون لیگ کے صدارتی امیدوار کی غیر مشروط حمایت کی ہو ؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved