تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     27-11-2021

اوورسیز پاکستانی ووٹنگ

حال ہی میں پارلیمنٹ کے پاس کردہ قانون کے مطابق 2023ء میں اوورسیز پاکستانی ملک سے باہر رہ کر عام انتخاب میں حصہ لے سکیں گے۔ اس وقت نوے لاکھ کے قریب پاکستانی مختلف ممالک میں مقیم ہیں اور ان میں سے نصف سے زائد خلیجی ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ زر مبادلہ کی تقریباً ساٹھ فیصد ترسیلات خلیجی ممالک سے آ رہی ہیں اور اس خطے میں ہمارے بلیو کالر ورکر سعودی عرب اور عرب امارات میں زیادہ ہیں۔ انہیں ووٹ دینے سے زیادہ اپنی روزی روٹی کی فکر ہوتی ہے۔ پاکستان میں ان کے افرادِ خانہ کی تعداد یقیناً کروڑ سے متجاوز ہو گی۔
میں نے دس سال سے زائد عرصہ خلیجی ممالک میں گزارا ہے۔ عربی زبان جاننے کی وجہ سے یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ میں خلیجی نظام حکومت اور نفسیات سے خاصا واقف ہوں اس لئے آج کا کالم صرف ان ممالک میں 2023ء کے عام انتخابات میں پاکستانی ووٹنگ اور اس کے ممکنہ نتائج کے بارے میں ہے۔ چھ کے چھ جی سی سی ممالک میں خاندانی بادشاہتیں ہیں جو کہ تاریخی پس نظر رکھتی ہیں۔ بادشاہ یا امیر کی وفات کے بعد اقتدار ولی عہد کو منتقل ہو جاتا ہے۔ کویت کے علاوہ کسی خلیجی ملک میں سیاسی پارٹیوں کا وجود نہیں اور لوکل میڈیا شاہی خاندان پر تنقید سے گریز کرتا ہے۔ آبادی کم ہے‘ وسائل وافر ہیں‘ وہاں یہ نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ لوگ سیاست کی بات شاذ و نادر ہی کرتے ہیں۔ 1987ء کی بات ہے‘ میں ریاض میں قونصلر تھا کہ ایک امریکی سفیر نئے نئے سعودی عرب آئے۔ ان کا طرۂ امتیاز یہ تھا کہ فرفر عربی بولتے تھے۔ انہوں نے مختلف اہم سعودی شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور انہیں جمہوریت کے فوائد تفصیل سے بتائے۔ سعودی حکومت نے انہیں نا پسندیدہ شخصیت قرار دیا اور انہیں ملک چھوڑنا پڑا۔ یہ واقعہ میں پوری ذمہ داری سے بیان کر رہا ہوں اور میں اس واقعے کا چشم دید گواہ ہوں۔
اور اب دیکھتے ہیں کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی ووٹنگ کون سے مختلف طریقوں سے ہو سکتی ہے۔ ایک طریقہ تو پوسٹل بیلٹ کا ہے۔ بیرون ملک امریکی یہ طریقہ اپنے صدارتی الیکشن میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ عمل الیکشن سے چند ہفتے پہلے شروع ہو جاتا ہے لیکن بیرون ملک امریکیوں کی تعداد ہمارے شہریوں کے مقابلے میں خاصی کم ہے اور وہ سب کے سب پڑھے لکھے ہیں‘ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی بخوبی جانتے ہیں۔ ان کے پوسٹل ووٹ امریکہ میں الیکشن کے دن ہی کھولے جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے 2017ء میں چار سفارت خانوں کی مدد سے پوسٹل بیلٹ کا تجربہ کیا تھا جو ناکام رہا تھا۔ اس کے بعد ایک غیر ملکی آڈٹ کمپنی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی ووٹنگ کے قابلِ عمل ہونے یا اس کے برعکس اپنی رائے زمینی حقائق دیکھ کر دے۔ اس کمپنی کا نام Minsait تھا اور اس کا تعلق سپین سے تھا۔ غیر ملکی فرم ہائر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ رائے غیر جانب دارانہ ہو۔ اس آڈٹ فرم نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ تجویز ناقابل عمل ہے اور غیر محفوظ بھی ہے۔
وہ ممالک جن کے شہری بڑی تعداد میں بیرون ملک کام کر رہے ہیں ایک عرصے سے اس تجویز کے بارے میں سوچ رہے ہیں لیکن اغلب رائے یہی ہے کہ یہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ ان ممالک میں انڈیا‘ سری لنکا‘ فلپائن اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی بیرون ملک ووٹنگ کے پُر جوش حامی ہیں لیکن انڈین الیکشن کمیشن کے تحفظات ان کی اس خواہش کے پورا ہونے کے آڑے آ رہے ہیں۔
پاکستان میں آج کل الیکٹرانک ووٹنگ کا بھی بڑا شور ہے لیکن اوورسیز پاکستانی ووٹر لیپ ٹاپ یا سمارٹ فون کے ذریعے ووٹ دیتے ہیں تو پرائیویسی کو یقینی بنانا بہت دشوار ہو گا۔ پاکستان میں ہر ووٹر الیکشن بوتھ میں جا کر آزادانہ ووٹ دینے کا حق دار ہے اور وہ اکیلا ہوتا ہے‘ اپنی مرضی سے فیصلہ کرتا ہے اور اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ بیرون ملک الیکٹرانک ووٹ کا کیسے پتا چلے گا کہ ووٹ دیتے وقت ووٹر کی نگرانی نہیں ہوئی اور اس نے آزادانہ فیصلہ کیا ہے۔ ایک قدرے محفوظ طریقہ یہ ہے کہ تمام بیرون ملک پاکستانیوں کا ای میل ایڈریس الیکشن کمیشن کے پاس ہو اور سب کے پاس کمپیوٹر یا سمارٹ فون ہو۔ الیکشن کمیشن ہر ووٹر کو اس کے حلقے کے امیدواروں کی لسٹ بذریعہ ای میل بھیجے اور ووٹر بذریعہ ای میل ہی اپنا چوائس الیکشن کمیشن کو روانہ کر دے‘ لیکن ایک سروے کے مطابق سعودی عرب میں ہمارے بلیو کالر ورکرز کی کل تعداد کا 60 فیصد حصہ ای میل ایڈریس استعمال ہی نہیں کرتا۔ اس سے زیادہ اہم چیز یہ ہے کہ ان ممالک میں جمہوری نظام کی پذیرائی بہت محدود ہے۔ وہاں کسی قسم کا اجتماع کرنے سے پہلے حکومت کی اجازت ضروری ہوتی ہے۔ ان ملکوں میں پاکستانی الیکشن سے پہلے بڑی سرگرمی ہو گی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں وہاں اپنا وجود رکھتی ہیں اور یہ ممالک ان کے وجود کو تحسین کی نظر سے نہیں دیکھتے‘ بس برداشت کرتے ہیں۔ پاکستانی الیکشن کا ان ممالک میں بڑے پیمانے پر انعقاد یقیناً پسند نہیں کیا جائے گا کہ سیاست کا مرض متعدی بھی ہو سکتا ہے۔
اب ذرا تصور کیجئے کہ ہم جولائی 2023ء میں ہیں جدہ‘ ریاض‘ ابو ظہبی‘ دبئی اور بحرین وغیرہ میں سیاسی سرگرمیاں زوروں پر ہیں‘ کہیں ' زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘ کے نعرے لگ رہے ہیں۔ حرمین الشریفین کے آس پاس مسلم لیگ (ن) کے جلسے ہو رہے ہیں۔ ریاض میں پی ٹی آئی کا بڑا جلوس پاکستان سے آئے ہوئے جوشیلے لیڈر کی قیادت میں نکلا ہے۔ سعودی حکومت اور عوام پریشان ہیں کہ پاکستانیوں کی وجہ امن عامہ میں خلل کی خبریں آ رہی ہیں۔ کئی پاکستانی زخمی ہو چکے ہیں۔ وہاں کی پولیس جسے شرطہ کہا جاتا ہے با اختیار ہے اور اپنے اختیارات بروئے کار لاتی ہے۔ صورت حال بگڑ جاتی ہے‘ پولیس متعدد پاکستانیوں کو گرفتار کر کے اگلے روز ڈی پورٹ کر دیتی ہے۔ پاکستان سے گئے ہوئے لیڈروں سے کہا جاتا ہے کہ آپ فوراً اپنے ملک واپس چلے جائیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال دوسرے خلیجی ممالک میں بھی ہے۔ ایک ملک میں جیل پاکستانیوں سے بھر چکی ہے۔ یہ ملک پاکستانی حکومت سے کہتا ہے کہ جیل میں قید پاکستانی شہریوں کی فوراً واپسی کا بندوبست کرے۔ کئی خلیجی ممالک سوچ رہے ہیں کہ آئندہ مین پاور پاکستان سے منگوانے کے بجائے انڈیا‘ نیپال اور سری لنکا سے منگوائی جائے کیونکہ وہاں کی حکومتیں بیرون ملک الیکشن کرانے کا کوئی ادارہ نہیں رکھتیں۔ خلیجی ممالک میں پاکستانی سفارت خانے شدید دبائو میں ہیں‘ جیلوں میں قید پاکستانیوں کو واپس بھیجنا ہے۔ مقامی حکومتیں پریشر ڈال رہی ہیں۔ اسلام آباد سے سخت سرزنش ہو رہی ہے۔ پوسٹل بیلٹ پاکستان بھیجنے کا عمل سست روی کا شکار ہے کہ سفارت خانوں کے پاس وسائل کم ہیں۔
پاکستان میں الیکشن نتائج کا اعلان ہو رہا ہے۔ حسب توقع بیرون ملک ایک پارٹی نے میدان مار لیا ہے۔ اپوزیشن کی پارٹیاں شور مچا رہی ہیں کہ ملک کے اندر تو دھاندلی ہوئی ہے مگر بیرون ملک ووٹنگ میں بے حد گڑ بڑ ہوئی ہے۔ اپوزیشن اعلیٰ عدلیہ سے کہتی ہے کہ بیرون ملک کاسٹ کئے ہوئے ووٹ منسوخ کئے جائیں۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ ہم نے تو بروقت کہا تھا کہ مشینی الیکشن قابل اعتماد نہیں ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved