فواد چودھری صاحب نے کہا: ''جب تک ہم قانون کی عملداری کو یقینی نہیں بنائیں گے تو اس وقت تک انتہاپسندی میں کوئی تبدیلی آنے کا امکان نہیں‘‘، ان کے نزدیک ''قانون کی عملداری‘‘ سے مراد لوگوں پر اندھا دھند طاقت کا استعمال ہے، جو اُن کی خواہش کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہوئی، اس کا انہیں شدید قلق ہے۔ ورنہ ''قانون کی عملداری‘‘ تو ایک جامع اور ہمہ گیر معنی رکھتی ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر چند گھنٹوں میں تینتیس قوانین منظور کرا لینا، کیا یہ آئین کی حکمرانی ہے‘ قانون کی عملداری ہے؟ کوئی ہمیں بتائے کہ ہاتھ اٹھا کر یا ہاں کہہ کر قانون کی منظوری دینے والوں نے اُن قوانین کا متن پڑھ لیا تھا، اُسے سمجھ لیا تھا، مجھے یقین ہے کہ عام پارلیمنٹیرین تو چھوڑیے‘ سوائے اُن بیورو کریٹس کے جنہوں نے ان قوانین کا مسوّدہ تیار کیا، باقی تمام وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، معاونین اور مشیروں نے بھی اسے شاذ ہی پڑھا ہو گا۔ سو ''قانون کی عملداری‘‘ اپنی حقیقی روح کے مطابق پورے نظامِ آئین وقانون میں کسی کو مطلوب نہیں ہے، صرف اپنے مطلب کی اور مَن پسند عملداری مطلوب ہے، ورنہ ہر قانون کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی ''مجالسِ قائمہ‘‘ موجود ہیں۔ دستوری طریقۂ کار کے مطابق بِل کو دونوں ایوانوں کی متعلقہ ''مجالسِ قائمہ‘‘ میں جانا چاہیے، وہ ایک ایک لفظ اور اُن کے اطلاقات، اُن پر مرتّب ہونے والے اثرات اور عواقب و نتائج پر غور و خوض کریں، مناسب سمجھیں تو بعض چیزوں کو حذف کریں، بعض اضافات کریں، بعض ترامیم پیش کریں اور پھر پارلیمنٹ میں بحث کر کے ان قوانین کو منظور کیا جائے۔ پارلیمانی نظامِ حکومت میں دو ایوانی مقننہ کی حکمت یہی ہے کہ ایک سے زائد مرتبہ قوانین کا جائزہ لیا جائے، کیونکہ ہر قانون کا تعلق ملک کے دائمی مفاد اور مستقبل سے ہوتا ہے، لیکن یہاں ان کو ''قانون کی عملداری‘‘ ہرگز مطلوب نہیں ہے، بس ذاتی اور جماعتی پسند ناپسند کا مسئلہ ہے۔
چودھری صاحب نے کہا: ''برطانیہ نے مقامی لا اِنفورسمنٹ نظام قائم کیا تھا، ہم نے وہ نظام تو ختم کر دیا، لیکن اُس کا متبادل نظام نہ لا سکے‘‘، آپ ان کے اِن فرمودات کو بار بار پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ برطانوی استعمار کی ''آقائیت (Lordship)‘‘ اُن میں رچ بس چکی ہے اور رہ رہ کر انہیں یاد آرہی ہے۔
انہوں نے کہا: '' 1980 اور 1990 کی دہائی میں ریاستی پالیسی یا حکمتِ عملی کے سبب انتہا پسندی کو فروغ ملا‘‘، وہ اس میں مدارس سے زیادہ عصری تعلیمی اداروں (سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں) کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ ہمیں تو یہی بتایا گیا تھا کہ اُس وقت ریاستِ پاکستان نے جو بھی حکمتِ عملی اختیار کی، وہ ملک و ملّت اور ریاست وحکومت کے مفاد میں تھی، ایسا کرنا ناگزیر تھا۔ لیکن آج اگر محض پروپیگنڈے کے طور پر نہیں، بلکہ ریاستی اور حکومتی اداروں کی حقیقت پسندی پر مبنی رائے یہ ہے کہ یہ سب کچھ غلط تھا، تو اس ساری حکمتِ عملی کے بارے میں ایک بااختیار اور غیر جانبدار کمیشن بنایا جائے، جو ذمہ داروں کا تعیّن کرے اور سب کچھ تاریخ کے ریکارڈ پر لائے، یقینا جنرل پرویز مشرف کا دور اُسی کا تکملہ اور تتمہ تھا۔ یہ بھی بتایا جائے کہ یہ پالیسی کہاں بنی، کس نے بنائی اور اس کے طویل المقاصد اہداف کیا تھے اور اس کی قیمت ملک وملّت نے کیا ادا کی۔ ریکارڈ پر ہمیں یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کا ''دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘‘ میں امریکا کا حلیف اور آلۂ کار بننا درحقیقت پاکستان کے مفاد میں تھا، تو ہم امریکا اوراس کے اتحادیوں سے بار بار یہ مطالبہ کیوں کرتے رہے ہیں کہ ہماری خدمات اور قربانیوں کا اعتراف کیا جائے۔ دوسری جانب امریکا یہ الزام لگا رہا ہے کہ پاکستان نے اُسے دھوکا دیا، دھوکے میں رکھا اور پورا تعاون نہیں کیا، جبکہ اس کے عوض پاکستان کو ''اتحادی اعانتی فنڈ‘‘ کے نام پر رقوم دی جاتی رہی ہیں۔ حال ہی میں جنابِ وزیراعظم نے ترک ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ''ہمیں کرائے کی فوج سمجھا جاتا رہا ہے‘‘۔ میرے خیال میں جو لوگ فیشن کے طور پر لبرل بنتے ہیں، اصل میں وہ اقتدار پرست اور جاہ پرست ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کا کوئی اصول، کوئی نظریہ اور کوئی آدرش نہیں ہوتی۔ اس لیے ان کی وفاداریاں کسی کے ساتھ دیرپا اور لازوال نہیں ہوتیں، ان کی وفاداری صرف اور صرف کرسیِ اقتدار سے ہوتی ہے، اُس پر کوئی بھی براجماں ہو‘ وہ ان کا آقا ہوتا ہے اور جب وہ مسندِ اقتدار سے اتر جائے تو ان کا معتوب بن جاتا ہے۔ ان کا مسلک ومشرب یہی رہا ہے:
ہر قوم راست راہے دینے و قبلہ گاہے
من قبلہ راست کردم بر سَمتِ کج کلاہے
ترجمہ: ہرقوم کا اُس کی دانست میں ایک راہِ راست ہوتا ہے، ایک دین ہوتا ہے اور ایک سَمتِ قبلہ ہوتی ہے، مگر میں نے ''کج کُلاہ‘‘ یعنی صاحبِ تخت و تاج کو اپنا قبلہ گاہ بنا دیا ہے۔ اس شعر کا مورخین نے جو پس منظر لکھا ہے، اس کی رو سے اس کا تعلق حضرت خواجہ نظام الدین اولیا اور امیر خسرو سے ہے، لیکن عام طور پر آج کل اسے ''اقتدار پرستوں‘‘ کے لیے استعارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ''کُلاہ‘‘ ایک خاص ہیئت کی ٹوپی ہوتی ہے اور ''کج کلاہ‘‘ سے مراد ''ٹیڑھی ٹوپی والا‘‘، کبھی حسین لوگ ناز و نخرے کے طور پر یہ ادا اختیار کرتے تھے؛ چنانچہ لغت میں اس کے معنی ہیں: ''بانکا، معشوق، اکڑ کی وجہ سے ٹیڑھی ٹوپی پہننے والا، مغرور اور بادشاہ ‘‘، مگر آج کل اس کا عمومی استعمال وہی ہے جو ہم نے سطورِ بالا میں عرض کیا ہے۔
چودھری صاحب سے ہمارا مطالبہ ہے کہ پہلے اپنی حکومت کی طرف سے انتہا پسندی، شدّت پسندی اوردہشت گردی کی متفقہ اور مسلّمہ تعریف کرائیں تاکہ سب جماعتوں کواُن کے ماضی سمیت اُس معیار پر جانچا جائے اور سب کے لیے ایک ہی ضابطہ اور ایک ہی اصول وضع ہو، یہ روش قابلِ قبول نہیں ہے:
تمہاری زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی
آپ ہی کی بیان کردہ تعریف کے مطابق پی ٹی آئی کے 2014ء کے دھرنے پر حکم لگایا جائے گا، کیا عوام کو یہ تلقین کرنا: ''ریاست کو ٹیکس نہ دیں، یوٹیلٹی بل ادا نہ کریں‘‘ حبّ الوطنی ہے، ''مارو، جلائو، گھیرائو، آگ لگا دو‘‘ کے نعرے اعلیٰ درجے کی امن پسندی کی علامت ہیں اور مارنے، جلانے، گھیرائو کرنے اور آگ لگانے کی تلقین کرنا اعلیٰ درجے کی حبّ الوطنی ہے، بشرطیکہ یہ آپ سے سرزد ہو۔ نیز مسلم معاشرے میں مذہب کا حوالہ جرم کیوں قرار پاتا ہے؟ یہ دستور کے کس آرٹیکل اور قانون کی کس دفعہ کا تقاضا ہے؟ دستور تو قانون سازی کو قرآن و سنّت کے دائرے میں مقیّد کرتا ہے، اُس سے انحراف کی اجازت نہیں دیتا، دستور کا آرٹیکل31 ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے سازگار حالات پیدا کرے، دستور میں فیڈرل شریعت کورٹ، سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ اور اسلامی نظریاتی کونسل کس مرض کی دوا ہیں۔ جب تک موجودہ دستور نافذ العمل ہے، مذہب کا حوالہ تو آئے گا، خواہ آپ کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے: ''اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جائو اور شیطان کے قدم بقدم نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘ (البقرہ: 208)۔ ہمارے ہاں ایک طبقے کو صرف نجی عبادات اور اخلاقیات کی حد تک اسلام گوارا ہے، بشرطیکہ اس طبقے کو ان کا مکلف اور جوابدہ نہ بنایا جائے۔ قرآن حکیم کی وہ تعلیمات جو نظمِ اجتماعی سے متعلق ہیں، قوتِ نافذہ کا تقاضا کرتی ہیں، اُن کے نفاذ کے لیے اسلام کا اقتدار پر حاکم ہونا ناگزیر ہے، یہ انہیں مطلوب نہیں، بلکہ ان کا ذکر بھی انہیں ناگوار گزرتا ہے، شاید العیاذ باللہ! نظمِ اجتماعی سے متعلق قرآن و سنّت کی تعلیمات اُن کے نزدیک منسوخ ہیں یا معطّل ہیں یا قابلِ عمل نہیں ہیں، اسی لیے ریاست و سیاست میں مذہب کا حوالہ اُن پر گراں گزرتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق عمل نہ کرنے کو قرآن کفر، ظلم اور فسق قرار دیتا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی سورۃ المائدہ کی آیات 44 تا 47 کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ''یہ آیت بھی اگرچہ یہود کے جرائم کے بیان کے سیاق میں ہے، لیکن یہی جرم مسلمانوں سے صادر ہو (جس کی شہادت ہر مسلمان ملک میں موجود ہے) تومیں نہیں سمجھتا کہ اُس کا حکم اس سے الگ کس بنیاد پر ہو گا، خدا کا قانون تو سب کے لیے ایک ہی ہے‘‘ (تدبر قرآن، ج: 2، ص: 531)۔ مفسرین کرام نے ان آیات کی جو تفسیر بیان کی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے: (1) اگر کوئی اعتقاداً اللہ کے احکام کا منکر ہے تو وہ کفرِ اعتقادی اور کلامی ہے۔ (2) اگر کوئی اعتقاداً تو اللہ کے احکام کو مانتا ہے، لیکن اُن پر عمل کرنے سے انکاری ہے، تو یہ کفرِ عملی ہے، اسے حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے پہلے کفر سے کم تر قرار دیا ہے۔ (3) اگر اپنی سرکشی کی بنا پر اللہ کی شریعت پر عمل نہیں کرتا، اللہ اور اس کے بندوں کی حق تلفی کرتا ہے تو یہ صریح ظلم ہے۔ (4) اگر اپنی بشری کوتاہی کی بنا پر عمل نہیں کرتا تو یہ فسق ہے، جیسے آج کل بالعموم مسلمان اس میں مبتلا ہیں۔
البتہ ان کا یہ کہنا بجا ہے: ''ہمیں بھارت سے نہیں‘ اندر سے خطرہ ہے‘‘ اور سب سے بڑا خطرہ وہ لوگ ہیں، جو دستوری مسلّمات کے بارے میں خود بھی ذہنی اور فکری انتشار میں مبتلا ہیں اور قوم کو بھی اُسی میں مبتلا دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ دستور اور قانون کو موم کی ناک بنانا چاہتے ہیں،جدھر چاہیں موڑ دیں، جو مَن پسند تاویل چاہیں کر دیں، کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہ ہو، وہ اپنے آپ کو آخری اور قطعی حجت سمجھتے ہیں، مگر اسلام نے یہ درجہ صرف خاتم النبیینﷺ کو عطا کیا ہے: آپﷺ کی ہر بات حجتِ قطعی اور غیر مشروط طور پر فرض اور لازم ہے، یہاں چون و چَرا کی گنجائش نہیں ہے۔