تحریر : زاہد اعوان تاریخ اشاعت     27-11-2021

مذہبی سیاحت‘ ترقی کا راستہ

سیاحت کاشوق بچپن سے ہے جب والد صاحب کے ساتھ ہنہ جھیل اور اوڑھک سمیت اندرون بلوچستان گھومنے کا موقع ملا۔ لڑکپن آیا تو پھر لاہور کے تاریخی مقامات، کلرکہار جھیل، مری، گلیات اور مزارِ قائد سمیت پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر کے دلکش نظارے دیکھنے کو ملے لیکن سیاحت کی اہمیت اور افادیت اس وقت معلوم ہوئی جب زندگی کی ساڑھے چار دہائیاں پار کرنے کے بعد 2016ء میں ایشین بیچ گیمز کی کوریج کے لیے ویتنام جانے کا موقع ملا۔ یہ واقعہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ جب ویتنام کے لیے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچے تو اس ملک کے بارے میں پہلا خیال یہی تھا کہ شاید افغانستان کی طرح جنگ سے تباہ حال کوئی خطہ ہوگا جہاں طویل جنگ کے نتیجے میں کھنڈرات ہی ملیں گے، جنگ کی تباہ کاریوں سے تھکے ہارے عوام تعلیم و تربیت سے عاری اور ان کا رہن سہن انتہائی سادہ ہو گا، شہری آبادی شاید پسماندگی کے آخری درجے سے بھی نیچے ہو گی، معیشت کا برا حال اور بچہ بچہ مقروض ہوگا، صحیح سلامت عمارت قسمت سے ہی نظر آئے گی اور ویتنامی قوم غربت کی لکیر سے بہت نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گی۔
جب تھائی لینڈ سے ویتنام ایئر کے جہاز میں بیٹھے تو ہمارے خدشات کو مزید تقویت ملی کیونکہ اس جہاز کی سیٹوں سے تو ہماری انٹرسٹی بس سروس زیادہ آرام دہ ہے، لیکن جب سمندر کنارے بسائے گئے دانانگ شہر میں اترے تو نظارے ہی کچھ اور تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید ہمیں جہاز نے تھائی لینڈ کے ہی کسی جدید ترین شہر میں پہنچا دیا ہے۔ ایئرپورٹ سے ہوٹل کے لیے نکلے تو راستے میں دیکھا کہ چھوٹے سے شہر میں تقریباً ایک ہزار سے زائد ملٹی سٹوری فور اور فائیو سٹار ہوٹل تھے، ہماری موٹروے سے زیادہ کشادہ اور صاف ستھری سڑکیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور فرفر انگریزی بولتے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایشیا بھر سے آئی ہوئی ٹیموں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ اب ذہن میں جنگ سے متاثرہ ویتنام کا نقشہ غائب ہو چکا تھا اور بڑی خوشگوار حیرت کے ساتھ یہ سوال ابھرنے لگا کہ اس قوم نے جنگ کے اثرات کیسے زائل کئے اور اتنی تیز رفتار ترقی کس طرح کر لی کیونکہ جتنے بڑے ہوٹل اس چھوٹے سے دانانگ شہر میں تھے‘ اتنے فور یا فائیو سٹار ہوٹل تو پورے پاکستان میں بھی نہیں ہوں گے۔ ایئرپورٹ سے ہوٹل جاتے ہوئے اپنی ٹیم کی میزبان (رضاکار) لڑکیوں سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو انہوں نے بتایا کہ ہماری حکومت نے سیاحت کو قومی صنعت کا درجہ دے رکھا ہے، یہاں نوجوانوں کی اکثریت ٹورازم سے متعلقہ مضامین میں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے تاکہ دنیابھر سے آنے والے سیاحوں کی خدمت کر سکے۔ ویتنامی نوجوانوں کا اخلاق، برتائو اور ان کا قومی جذبہ دیکھ کر میں سوچنے لگا کہ جو ملک جنگ سے تباہ حال ہے‘ اس کے باشندے اپنے ملک میں سیاحت کے لیے کس قدر محنت سے اپنے ہاں کشش پیدا کر رہے ہیں اور ہمارا وطنِ عزیز‘ جو دنیا کے خوبصورت ترین خطوں میں سے ایک ہے، جہاں میدان، دریا، صحرا، پہاڑ، جنگل، ندیاں، نالے، آبشاریں، نہریں، جھرنے اور سمندر سمیت ہر طرح کا قدرتی حسن موجود ہے‘ جہاں گرمی، سردی، بہار اور خزاں جیسے خوبصورت موسم دستیاب ہیں، جس ملک میں ناران، کاغان، گلگت، چترال، سوات، مری، گلیات اور کلرکہار جیسے قدرتی نظاروں سے مالامال علاقے موجود ہیں، جہاں کشمیر جنت نظیر اپنی مثال آپ ہے، جس کا شہر کراچی ہی کبھی دبئی سے زیادہ بڑا تجارتی مرکز سمجھا جاتا تھا‘ جس کے پاس وسیع ساحل سمندر کے علاوہ گوادر جیسا ڈیپ پورٹ بھی ہے‘ برف باری کا موسم ہو یا بہار کے مہینے، گرمی ہو یا سردی، جو پورا سال دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے کسی جنت سے کم نہیں‘ وہ اس میدان میں اتنا پیچھے کیوں ہے؟ ہمارا تو لاہور شہر ہی دنیا میں کسی سے پیچھے نہیں (یہ الگ بات کہ ہمارے حکمرانوں اور انتظامیہ کی عدم توجہی سے یہ باغوں کا شہر اب دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے)، اولیاء کی سرزمین ملتان سمیت ملک بھر میں ہزاروں مزارات سمیت ہندوئوں کے مندر، سکھوں کے اہم مذہبی مقامات اور بدھ مت کی یادگاریں یہاں موجود ہیں، پھر ہم نے آج تک سیاحت کو اپنی پہلی ترجیح کیوں نہیں بنایا؟ ہماری حکومت کو تو بھاری زرمبادلہ خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ہمارے پاس قدرتی حسن سے مالامال سیاحتی مقامات کی کمی نہیں ہے، ہم تو تھوڑی سے توجہ سے سیاحوں کو اپنی طرف راغب کر سکتے ہیں۔ کاش ہم نے اس طرف بھی توجہ دی ہوتی تو آج پاکستان دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتا۔
سیاحت ایک معاشرتی رجحان ہے جس کے تحت افراد یا قافلے‘ بنیادی طور پر تفریح، آرام، ثقافت، مذہب یا صحت کی وجوہات کی بنا پر اپنی معمول کی رہائش گاہ چھوڑ کر عارضی طور پر کسی دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں۔ ان جگہوں پر وہ منافع بخش سرگرمیاں انجام دیتے ہیں جن سے معاشرتی، معاشی اور ثقافتی اہمیت کے متعدد باہمی ربط پیدا ہوتے ہیں۔ جیسے اوپر بیان کیا کہ پاکستان میں سکھوں کے کئی اہم مذہبی مقامات موجود ہیں جہاں ہر سال دنیا بھر سے سکھ یاتری اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے کرتارپور راہداری قائم کر کے دنیا بھر کی سکھ برادری کے دل جیت لیے ہیں۔ ان دنوں ہزاروں سکھ یاتری اپنے مذہبی پیشوا بابا گرونانک کے 552ویں جنم دن کی تقریبات میں شرکت اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے پاکستان آئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے سکھ برادری کو بابا گرو نانک کے جنم دن پر مبارکباد پیش کی اور یاتریوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ سکھوں کو ان کی مذہبی رسومات کی ادائیگی کیلئے تمام سہولتیں فراہم کرتے رہیں گے۔ ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہونے سے بھائی چارے، یگانگت اور یکجہتی کو فروغ ملتا ہے۔ بابا گرو نانک نے امن و آشتی، اخوت، بھائی چارے اور محبت کا پیغام دیا تھا اور وہ مذہبی رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی کی بہترین مثال تھے۔
کرتارپور رہداری کا قیام بلاشبہ حکومت کا تاریخی کارنامہ اور سکھ برادری کے لیے بے مثال تحفہ ہے۔ یہ راہداری بننے سے سکھ برادری کی خوشیاں دوبالا ہو گئی ہیں۔ لاہور اور حسن ابدال سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں سکھ برادری کے متعدد مقدس مقامات موجود ہیں۔ یہاں سکھ برادری کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی بھی مکمل آزادی ہے۔ سکھ برادری کے گوردواروں کی دیکھ بھال، تزئین و آرائش اور سکیورٹی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ سکھوں سمیت اقلیتوں کی فلاح و بہبود حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اقلیتوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی اور ان کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر مذہبی سیاحت کو فروغ دیا جائے تو سیاحوں کی بڑی تعداد کو پاکستان آمد پر راغب کیا جا سکتا ہے۔بابا گرو نانک کے جنم دن کی تقریبات میں شمولیت کے لیے تقریباً تین ہزار سکھ یاتریوں کو پاکستان کا ویزہ جاری کیا گیا ہے لیکن اگر حکومت اس طرف معمولی سی توجہ دے تو سکھ برادری کی یہ تعداد ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے۔ جب سال کے مختلف حصوں میں لاکھوں کی تعداد میں دنیا بھر سے سکھ اپنی مذہبی رسومات کے لیے پاکستان آئیں گے تو ہماری معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی۔ سکھوں کو مذہبی رسومات کی ادائیگی کے ساتھ مری، ناران، کاغان، سوات، چتر ال، گلیات اور دیگر سیاحتی مقامات کی سیر و تفریح پر بھی راغب کیا جائے اور ان علاقوں میں انہیں جانے کی اجازت دی جائے تو اس سے ہماری ہوٹل انڈسٹری، ٹریول اینڈ ٹورز، ہینڈی کرافٹس سمیت دیگر مقامی کاروبار کو ترقی اور وسعت ملے گی اور ملک میں کثیر زر مبادلہ آئے گا۔ ماضی میں سہولتیں کم تھیں لیکن دنیا بھر سے سیاح یہاں آتے تھے، اب ہر سہولت ہمارے ہاں دستیاب ہے لیکن سیاحت کا شعبہ اربابِ اختیار کی توجہ کا منتظرہے۔ اگر ویتنام جیسا ملک سیاحت سے ترقی کر سکتاہے تو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کیوں کھڑی نہیں ہو سکتی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved