تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-11-2021

… ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

انسان ہو یا معاشرہ، بُرا وقت سبھی کا مقدر بنتا ہے۔ بُرے وقت سے مراد ہے مشکلات اور الجھنیں۔ ہر فرد کو اُس کے حصے کی مشکلات ملتی ہیں۔ معاشرہ انسانوں ہی کا مجموعہ ہوتا ہے یعنی انسانوں کی مشکلات کا مجموعہ۔ آج پاکستان سو طرح کے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ بہت سوچنے پر حالات و واقعات کا کوئی سرا ہاتھ تو کیا آئے گا‘ دکھائی بھی نہیں دے رہا۔ ایک بڑی الجھن یہ بھی ہے کہ دیکھنے کے معاملے کو بھی توجہ اور سنجیدگی سے محروم کردیا گیا ہے۔ ہم وہ دیکھنا چاہتے ہیں جو ہماری خواہشات کا آئندہ دار ہو۔ دیکھنے کا حق اُسی وقت ادا کیا جاسکتا ہے جب ہم پوری سنجیدگی کے ساتھ خالص حقیقت پسندی سے کام لیں یعنی جو کچھ دکھائی دے‘ وہی دیکھیں، اُس کے مضمرات پر غور کریں اور جو کچھ سوچیں اُس کی روشنی میں اپنے لیے موزوں ترین لائحۂ عمل طے کریں۔ حالات کی روش عجیب ہے۔ کب کیا ہو جائے‘ کچھ معلوم نہیں۔ ایک دور تھا کہ جو کچھ ہونے والا ہوتا تھا اُس کا تھوڑا بہت اندازہ لگاکر پریشانی سے نمٹنے کی تیاری کرلی جاتی تھی۔ ایسا اس لیے ممکن تھا کہ تب حالات نے اچانک پلٹا کھانے کا ہنر نہیں سیکھا تھا۔ تبدیلی مرحلہ وار آتی تھی اور بہت حد تک قابلِ فہم ہوتی تھی۔ سوچنے پر معاملات کا سِرا سُوجھتا تھا اور یوں ہم اپنے مسائل کا مؤثرحل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ یہ تب کی بات ہے کہ جب زندگی نے مشکلات کا انبار بننے سفر شروع نہیں کیا تھا۔ زندگی کی مجموعی رفتار معقول تھی یعنی کچھ بھی اچانک ہاتھ سے جاتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ آج معاملات کچھ کے کچھ ہوگئے ہیں۔ اب اگر کسی کو حالات کے پلٹنے سے دھچکا لگتا ہے تو سبھی کچھ تلپٹ ہوتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔
ڈھائی تین عشروں کے دوران دیگر معاشروں کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی ایسی بہت سی بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کے ہاتھوں کم و بیش تمام لوگوں کی طرزِ فکر و عمل تبدیل ہوگئی۔ بہت سی اقدار کو سب نے مل کر دیس نکالا دے دیا۔ جن معاملات سے دل و دماغ میں صرف ہلچل مچتی ہے اب اُن میں بہت زیادہ دلچسپی لینے کا رجحان خطرناک حد تک پنپ چکا ہے۔ جن باتوں سے زندگی میں توازن پیدا ہوتا ہے اُن تمام باتوں سے دور رہنے کی لاشعوری کوشش عام ہے۔ لوگ بہت سے معاملات سے اچھے خاصے پریشان ہیں مگر اُن سے گلو خلاصی کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔ ڈیڑھ دو عشروں کے دوران معاشرے میں میڈیا کی غیر معمولی پیش رفت نے بھی بہت کمالات دکھائے ہیں۔ یہ تیزی سے پنپنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہی کا تو کمال ہے کہ انسان انتہائی لاتعلق قسم کی باتوں میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ سوشل میڈیا کی وبا نے ہم سے صرف ہمارا وقت نہیں چھینا بلکہ اقدار اور سکونِ قلب پر بھی ڈاکا ڈالا ہے۔ سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے دل و دماغ پر دن رات حملے ہوتے رہتے ہیں۔ ان حملوں سے دوسرے بہت سے نفسی عوارض کے ساتھ ساتھ فکری بے راہ روی بھی پیدا ہوتی ہے۔ عام سے معاملات بھی بحرانی کیفیت کے حامل ہوتے جاتے ہیں۔
حالات کی روش ہمیں اُس مقام تک لے آئی ہے جہاں چھوٹی مشکل بھی بہت بڑا بحران لگتی ہے۔ بالکل سامنے کی بات بھی آسانی سے سمجھ میں نہیں آتی۔ ہم کبھی کبھی تومحض سوچتے ہی رہ جاتے ہیں اور وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ انفرادی سطح پر دباؤ بہت بڑھ گیا ہے۔ کل کا انسان خوش نصیب تھا کہ اُس کی زندگی میں مشکلات خاصی کم تھیں۔ ذہنی الجھنیں بھی اِتنی اور ایسی نہ تھیں۔ مختلف شعبوں کی ٹیکنالوجی میں زیادہ پیش رفت ممکن نہیں بنائی جاسکی تھی اور یوں بازار میں طرح طرح کی اشیا کی بھرمارنہیں تھی۔ خدمات کا دائرہ بھی خاصا محدود تھا۔ تنوع کم تھا تو ذہن کے الجھنے کی رفتار بھی زیادہ نہیں تھی۔ کسی بھی معاملے میں پسند و ناپسند کا معاملہ زیادہ پیچیدہ نہیں تھا۔ لوگ مجموعی طور پر سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ اخراجات بے قابو نہیں ہوئے تھے۔ آمدنی کے مطابق خرچ کرنے کا رجحان اِتنا قوی تھا کہ عمومی سطح پر زندگی متوازن رہتی اور ایسی ہی دکھائی دیتی تھی۔ آج کا انسان بہت سے معاملات میں غیر معمولی بلکہ فقید المثال نوعیت کی پیش رفت کا نتیجہ سمجھی جانے والی اشیا و خدمات سے مستفید ہونے پر بھی اچھا خاصا الجھا ہوا ہے۔ وہ بہت سے بنیادی معاملات کی اصل کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ معاملات کو حقیقت پسندی کی عینک سے نہیں دیکھا جارہا۔ لوگ حقیقت کا سامنا کرنے اور حقیقت پر مبنی باتیں سُننے سے ڈرنے لگے ہیں ؎
حق بیانی کے سب آئینے توڑ دو
لوگ دیکھیں گے خود کو‘ تو ڈر جائیں گے
ایک آدھ عشرے میں ہمارا معاشرہ کچھ زیادہ ہی تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔ انفرادی سطح پر نفسی پیچیدگیوں کا دائرہ خطرناک حد تک وسعت اختیار کرگیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مادّی معاملات میں سہولتیں تو بڑھتی جارہی ہیں مگر اخلاقی و روحانی سطح پر خلا بھی بڑھتا جارہا ہے۔ بڑھتی ہوئی مشکلات ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم شدید نوعیت کی منفی طرزِ فکر کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے اِتنے عادی ہوچکے ہیں کہ کسی بھی معاملے سے کچھ سیکھنے کے لیے خود کو آمادہ ہی نہیں کر پاتے۔ آج معاملہ یہ ہے کہ لوگ بات بات پر بپھر جاتے ہیں، مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں۔ حالات کی روش کیسی ہی مشکل سہی، حواس پر قابو پانا اور جذبات کو ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دینا انسان کا بنیادی کام ہے۔ اگر یہ ہنر نہ آتا ہو تو پھر انسان اور حیوان میں فرق ہی کیا رہ جاتا ہے؟ دیگر معاشروں میں بھی بہت سی خرابیاں ہیں مگر ہمیں اُن سے کیا؟ ہم اپنی نبیڑ لیں تو بہت ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ لوگ برسوں بلکہ عشروں کے بگاڑ کو پل دو پل میں دور کرنا چاہتے ہیں۔ مسائل سے ہماری جان اُسی وقت چھوٹتی ہے جب ہم اُن کا حل تلاش کرکے اپناتے بھی ہیں۔ یہاں تو یہ طے کرلیا گیا ہے کہ مسائل کا صرف رونا روتے رہنا ہے، اُن کا حل تلاش کرنے کے بارے میں کچھ کرنا تو دور کی بات‘ سوچنا بھی نہیں ہے۔ جب حقیقت پسندی کا چلن ترک کردیا جائے تب معمولی سی مشکلات بھی بہت بڑی دکھائی دیتی ہیں اور بات بات پر الجھن سی محسوس ہوتی ہے۔ آج ایسے افراد کی تعداد تیزی سے بڑھتی جارہی ہے جو بات بات پر بدکتے ہیں، بھڑک اٹھتے ہیں۔ اندازہ لگانا مشکل تر ہوتا جارہا ہے کہ کس کا مزاج کب برہم ہو جائے اور کچھ ایسا کر گزرے جس کا ازالہ انتہائی دشوار ہو۔ میر انیسؔ نے کہا تھا ؎
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم
انیسؔ! ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
وقت نے وہ کیفیت پیدا کی ہے کہ اب محض اس خیال سے حقیقت بیانی کی روک تھام کرنا پڑتی ہے کہ کہیں آبگینوں کو ٹھیس نہ لگے۔ آبگینوں کو بچانے کی کوشش قدم قدم پر پتھروں کو مضبوط کر رہی ہے۔ کسی بھی معاملے میں حقیقت کا سامنا کرنے سے گریز ایک خاص حد تک کیا جاسکتا ہے۔ اگر اس روش پر سفر جاری رکھا جائے تو رفتہ رفتہ حق شناسی اور حق بیانی کے اوصاف سے بھی الجھن سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ وقت کی چال ہم پر بُری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ ایک طرف تو حالات کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے کہ انسان کے لیے زیادہ پنپنے کی گنجائش نہیں رہی۔ دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم معاملات کو چپ چاپ جھیلنے کی روش پر گامزن رہتے ہیں۔ کسی کی بھی ناراضی مول لینے سے گریز رفتہ رفتہ ہمیں اُس مقام تک پہنچادیتا ہے جہاں سبھی ہم سے ناراض رہتے ہیں۔ ہر مشکل ہمیں کچھ نہ کچھ سکھانے کے لیے ہوتی ہے۔ ہر پیچیدہ صورتِ حال ہمارے لیے آزمائش ہے یعنی ہم رب کا شکر ادا کرتے ہوئے حالات کو درستی کی طرف لے جانے کی کوشش کریں۔ حقیقت سے رُو گردانی یا چشم پوشی ہمیں بالآخر بے حِسی اور بے عملی کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔ یقینی بنانا ہے کہ آبگینوں کو ٹھیس نہ لگے مگر اِس طور نہیں کہ باقی سبھی کچھ داؤ پر لگ جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved