وزیراعظم عمران خان نے اپنی پارٹی (یا حکومت) کے ترجمانوں کے جم غفیر میں تشریف فرما ہوکر محترمہ مریم نواز کی اس آڈیو پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے، جس میں وہ بعض ٹی وی چینلز کے اشتہارات روکنے کا حکم دے رہی ہیں۔ مریم نے اس آڈیو کی تصدیق کرتے ہوئے یہ توجیہہ پیش کی تھی کہ وہ اپنی پارٹی کی اشتہاری مہم کے حوالے سے بات کررہی تھیں، سرکاری اشتہارات موضوعِ گفتگو نہیں تھے۔ وزیراعظم یہ وضاحت قبول کرنے پر تیار نہیں۔ انکا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ان پر فاشسٹ ہونے کا الزام لگاتی ہے، جبکہ اسکا اپنا رویہ ایسا ہے، وہ خود ان ہتھکنڈوں کو استعمال کرتی رہی ہے۔ وزیر اطلاعات نے تو مریم نواز کی آڈیو کے حوالے سے ایک تحقیقاتی کمیٹی کا اعلان بھی کردیا ہے۔ انکا ارشاد ہے کہ سرکاری اشتہارات کی تقسیم کے حوالے سے مریم کے کردار کو بے نقاب کریں گے۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں مختلف چینلز کو ملنے والے سرکاری اشتہارات کی تفصیل بھی فراہم کی، جس میں بعض ناقابلِ ذکر میڈیا ہائوسز کروڑوں روپوں میں لدے پھندے نظر آرہے ہیں۔ چودھری صاحب کے اس اقدام کو قابلِ گرفت نہیں کہا جا سکتا۔ انہیں حق حاصل ہے کہ اپنی وزارت کے کسی بھی معاملے کی تحقیقات کرائیں، اور اگر سرکاری اداروں کو کوئی غیرسرکاری شخصیات کنٹرول کرتی رہی ہیں تواس کی تفصیل قوم کے سامنے رکھیں۔ وزیراعظم کے اس حق سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتاکہ وہ اپنے سیاسی حریفوں پرتنقید کریں، اور ان سے منسوب کسی کارروائی کی تحقیق و تفتیش کرائیں۔ انہیں مریم نواز کی آڈیو پر اظہارِ خیال سے بھی روکا نہیں جا سکتا‘ لیکن بصد ادب یہ توعرض کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دِنوں منظر عام پر آنے والی جسٹس ثاقب نثار کی آڈیوز پرانکا یہ ردعمل کیوں سامنے نہیں آیا؟ انہوں نے اسکی تحقیقات کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی؟ اس حوالے سے وزیراعظم نے اب تک جو کچھ کہا‘ اس سے تولگتا ہے کہ وہ انہیں کوئی اہمیت دینے پرتیار نہیں۔ وہ اسے اپنے مقدمات سے توجہ ہٹانے کیلئے مسلم لیگ (ن) کا ایک حربہ قرار دے رہے ہیں۔ انہیں اصرار ہے کہ نوازشریف اور انکی بیٹی کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق تھا؛ چنانچہ جسٹس ثاقب نثارکی مبینہ آڈیوز کے بارے میں کسی ترددّ کی ضرورت نہیں۔ اس سے پہلے ان کی نظر سے گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس کا بیان حلفی بھی گزرچکا ہوگا، جس میں انہوں نے جسٹس ثاقب نثار پر نواز شریف کے مقدمے میں مداخلت کا الزام لگایا تھا۔ وزیراعظم کے نوٹس میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی وہ تقریر بھی ہوگی، جس میں انہوں نے مسندِ عدالت پررونق افروز ہوتے ہوئے ایک اعلیٰ عہدیدار پر وکلا کے ایک اجتماع میں الزام لگایا تھا کہ وہ ان سے یقین دہانی چاہتے تھے کہ نوازشریف کی درخواست ضمانت منظور نہیں کی جائے گی۔ وزیراعظم کے علم میں یہ بات بھی ہوگی کہ احتساب عدالت کے ارشد ملک نامی جج‘ جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں، نوازشریف کوایک مقدمے میں سزا سنانے کے بعد ان سے معافی مانگنے پہنچے تھے۔ دوٹوک کہا تھاکہ انہوں نے دبائو میں آکر فیصلہ سنایا۔ انکی ایک نامناسب ویڈیو بھی منظرعام پرآئی تھی، جسے انہیں بلیک میل کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ جج موصوف کو عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔ ان میں سے کسی بات کی نہ تو وزیراعظم نے خود تحقیقات کرانے کا اعلان کیا، نہ ہی عدالت پرزور دیاکہ وہ حقائق کی تہہ تک پہنچنے کیلئے اقدامات کرے۔ انہوں نے صرف مریم نواز کے معاملے میں غم و غصے کا اظہار کیا ہے، صرف اسی کو موضوعِ گفتگو بنایا ہے، اسکے علاوہ جوکچھ سامنے آیا، اُس کا جائزہ لینے یا کوئی اقدام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
اگر وہ صرف تحریک انصاف کے چیئرمین ہوتے تو پھران سے کسی غیرجانبدارانہ رویے کی امید نہیں لگائی جاسکتی تھی۔ پاکستان کے مخصوص سیاسی ماحول میں اہلِ سیاست ایک دوسرے کے ساتھ جو سلوک کرنے کے عادی ہیں، اسے مدِنظر رکھتے ہوئے انکے پُرجوش اظہارِ خیال کو بھی نظرانداز کیا جا سکتا تھا لیکن اب جبکہ وہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں، انہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی کسی تعصب یا عناد کے بغیر کرنے کا حلف اٹھا رکھا ہے، ان سے یہ توقع رکھنا نامناسب نہیں کہ وہ کسی بھی معاملے میں زبان کھولتے ہوئے یا فیصلہ کرتے ہوئے وزیراعظم بن کر سوچیں گے، اور وزیراعظم بن کرہی کسی نتیجے پر پہنچیں گے۔ یہ درست ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت میں وزیراعظم ایک سیاسی جماعت کا سربراہ یا نمائندہ ہوتا ہے۔ وہ اس کے ٹکٹ پرالیکشن لڑکر اسمبلی میں پہنچتا ہے، اور اسکے ساتھ اسکی وابستگی پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ بھی اتنی ہی بڑی حقیقت ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد وہ ملک کا وزیراعظم ہوتا ہے‘ کسی ایک جماعت یا اسکے کارکنوں کا نہیں۔ پاکستان کا وزیراعظم بھی پاکستان کے ہرشہری کا وزیراعظم ہے ہرشخص کو اسے اپنا وزیراعظم سمجھنا، اوراس کا اظہارکرنا چاہیے۔ اسکے اقدامات اور فیصلے سب شہریوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اسکے حسنِ انتظام سے سب مستفید ہوتے، اور اسکی پیداکردہ بدانتظامی سے سب کوفت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی انصاف کرے، اوراگر ان کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوتی نظرآئے تواس کے راستے میں رکاوٹ بنے۔ اگر ہمارے وزیراعظم بھی یہ موقف اختیار کرتے کہ مریم نواز، جسٹس ثاقب نثار اور جج ارشد ملک کی آڈیوزاور ویڈیوز کی تحقیقات کرائی جائیں گی، ہر ایک کی تہہ میں اتراجائے گا، تووہ یقینا پوری قوم سے تالیاں وصول کررہے ہوتے، لیکن جب وہ سیاسی مصلحتوں کے تحت یا ذاتی پسند‘ ناپسند کی بنیاد پرتولنے کے پیمانے مختلف رکھیں گے، توپھر شکایت پیدا ہوگی۔ دنیا میں جہاں جہاں پارلیمانی نظام پایا جاتا ہے، وہاں وہاں وزیراعظم کے کردار کا جائزہ لے لیجیے، برطانیہ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور کینیڈا کو تو چھوڑیے، بھارت جیسے ملک پرہی ایک نظر دوڑایے، وزیراعظم کہیں بھی اپنے مخالفین کے خلاف مقدمات درج کراتا، اُنہیں دھمکاتا اور ڈراتا نظرنہیں آئے گا۔ انتخابات کے نتائج سامنے آتے ہی انتخابی مہم کا بخار اترجاتا، اوراس میں اپنایا گیا لہجہ بدل جاتا ہے۔ زیادہ نشستیں حاصل کرنے والا ایوان کی قیادت سنبھال لیتا ہے، تودوسرے نمبر پرآنے والے کو قائد حزبِ اختلاف کا منصب مل جاتا ہے۔ دونوں کا سرکاری طورپر اکرام کیا جاتا ہے۔ قائد حزبِ اختلاف کو ''وزیراعظم، منتظر‘‘ ( IN Wating) سمجھا جاتا ہے کہ کسی بھی وقت اقتدارکا ہما اس کے سر پر بیٹھ سکتا ہے۔ تفتیشی ادارے اپناکام کرتے، اورکسی بھی قانون شکنی کی شکایت پربلا رورعایت کارروائی کرتے ہیں۔ کوئی حکومت میں ہویا اپوزیشن میں کسی کوقانون ہاتھ میں لینے یا کرپٹ کرپٹ کی گردان کرنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ آزاد ادارے آزادانہ اپنا کام کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنی جماعت کا نام تحریک انصاف رکھا تھا، انصاف ہی کیلئے وہ برسوں تحریک چلاتے رہے، اس لیے ان سے توقع تھی اور ہے کہ وہ سب کے ساتھ انصاف کریں گے۔
وزیراعظم بار بار اس بات پر فخر کا اظہار کرچکے ہیں کہ انہوں نے کرکٹ میں غیرجانبدار امپائروں کا تقرریقینی بنوایا تھا، اس پرانہیں اپنے مداحوں اورنقادوں سے یکساں خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ سیاست کے میدان میں بھی ان سے ایسے اقدامات کی توقع رکھنا بے جا نہیں ہوگا، جن پر دوست اور دشمن دونوں تالیاں بجانے پر مجبور ہو جائیں، تو جناب من، سارے آڈیوز اور ویڈیوز کے غیرجانبدارانہ جائزے کا اعلان کرکے داد وصول کرلیں... فلک شگاف تالیاں آپ کا انتظار کر رہی ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)