تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     28-11-2021

غور فرمایا آپ نے؟

دنیا ٹی وی کا پروگرام تھنک ٹینک دیکھ رہا تھا۔ میرے موسٹ فیورٹ ایاز امیر سمیت دوست خاور گھمن، سلمان غنی، حسن عسکری اچھی گفتگو کرتے ہیں۔ بحث ویڈیو اور آڈیو لیکس پر ہورہی تھی۔ پروگرام کی میزبان مریم ذیشان نے سوال کیا: اس نئے ٹرینڈ کے کیا اثرات ہوں گے اور کیا سیاست مزید منفی ہوگی؟ تقریباً سبھی کا یہی خیال تھاکہ سیاست مزید منفی ہوگی، لوگ سیاست سے دور ہوں گے۔ نئی نسل ان سیاستدانوں کو اپنا رول ماڈل نہیں مانے گی۔ عسکری صاحب کہنے لگے: علامہ اقبال مغربی سیاست کو اخلاقیات سے خالی سمجھتے تھے کیونکہ مغرب اخلاقی بنیادوں سے زیادہ مادہ پرستی پر قائم تھا۔ وہاں موریلٹی کا تصور نہیں۔
بڑے ادب سے اختلاف کی جرأت کروں گا‘ یہ کس نے کہا ہے کہ مغربی جمہوریت میں اخلاقیات کا کوئی تصور نہیں اور ہم مسلمان اس معاملے میں بہت آگے ہیں؟ مغربی ممالک میں سیاست میں اخلاقیات اتنی حاوی ہیں کہ بندہ سٹور کھول لے لیکن سیاستدان نہ بنے۔ وہاں چھوٹا سا سکینڈل آتے ہی وزیراعظم تک کو استعفا دینا پڑتا ہے۔ ایک مغربی ملک کی وزیر تعلیم کی خبر باہر نکلی کہ اس کے بچے گھر پر ٹیوشن لے رہے تھے تواسے استعفا دینا پڑگیا۔ ایک وزیر بارے پتا چلا کہ اس نے ہوم آفس سے اتنا پوچھ لیا کہ فلاں ویزہ کب تک جاری ہوگا تو اسے استعفا دینا پڑا۔ سکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم ہوا جس پر برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے محض اس لیے استعفا دے دیاکہ انہیں توقع کے مطابق ووٹ نہیں ملے تھے۔ کوئی مجبوری نہ تھی کہ وہ استعفا دیتے‘ پھربھی ذمہ داری قبول کی اورگھر چلے گئے۔ ایک اور مغربی ملک کی خاتون وزیراعظم کو اس سکینڈل کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ جو ناشتہ کرتی رہیں وہ سرکاری خرچ پہ آتا تھا۔ اوبامہ سے سوال ہوا کہ آپ وائٹ ہائوس میں رہتے ہیں آپ کے تو مزے ہوں گے‘ سب کچھ مفت ملتا ہوگا؟ اوبامہ فوراً بولے: رکیں رکیں‘ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میری بیوی مشعل میری تنخواہ سے سب گروسری خریدتی ہے‘ مہمانوں کیلئے جوس‘ چائے ہم اپنی تنخواہ سے خریدتے ہیں۔ ہم اپنے برش اور پیسٹ تک خود خریدتے ہیں۔ بل کلنٹن پر مونیکا لیونسکی کا الزام لگا تو دنیا کا طاقتور صدر ہوتے ہوئے بھی ٹرائل شروع ہوا اور پوری دینا میں لائیو دکھایا گیا کہ اگر ان کا صدر جھوٹ بولے گا‘ تو اس کا بھی ٹرائل ہوگا۔ اسی طرح جب امریکی صدر نکسن کا واٹرگیٹ سکینڈل سامنے آیا تو انہیں بھی استعفا دے کر گھر جانا پڑا۔
جنوبی کوریا کے ایک وزیراعظم نے اس وجہ سے استعفا دے دیاکہ دور سمندر میں ایک کشتی‘ جس میں سکول کے بچے سوار تھے‘ ڈوب گئی تھی۔ وزیراعظم نے اس حادثے کو اپنی ناکامی اور ذمہ داری سمجھا اورکہا: اور کچھ نہیں کر سکتا لیکن والدین کا دکھ دور کرنے کیلئے استعفا دے رہا ہوں۔
ایسی سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ مغربی جمہوریت تو کھڑی ہی اخلاقیات پر ہے۔ جمہوریت کا جنم بھی اس لیے ہوا تھا بادشاہ‘ جو خودکو کبھی غلط نہیں سمجھتے تھے‘ بھی عدالت میں لائے جائیں۔ بادشاہوں کا بھی ٹرائل ہوسکتا ہے۔ یہ سبق جمہوریت نے ہی دیا۔ آج جمہوری ملکوں میں سب حکمران جوابدہ ہیں۔ وہ سسٹم نہیں رہاکہ سزائیں صرف عوام کو ملیں گی کیونکہ بادشاہ کبھی غلطی کرہی نہیں کرسکتا۔ پچھلے سو برسوں میں دیکھ لیں‘ کتنے بادشاہوں کو سزائیں ملیں اور انہیں جواب دینا پڑا۔ اس سے بڑی اخلاقیات کیا ہوگی کہ آپ اگر جھوٹ بولتے بھی پکڑے جائیں تو آپ کی خیر نہیں‘ اور ہم پھربھی کہہ رہے ہیں کہ مغربی جمہوریت میں اخلاقیات نہیں ہے۔
اب اگر ہم مسلم ملکوں کو دیکھیں تو کیا ان میں آپ کو وہ اخلاقیات ملتی ہیں جن کا ہم رونا روتے ہیں؟ باقی چھوڑیں ہمارا مذہب کہتا ہے؟ صفائی نصف ایمان ہے۔ آپ کوئی ایک شہر یا جگہ بتا دیں جہاں یہ نصف ایمان آپ کو نظر آرہا ہو؟ کوئی سڑک، پلاٹ، کوئی شہر دکھا دیں جہاں گند اور گندگی نہ ہو۔ کبھی کسی مسجد کی لیٹرین کو دیکھ لیں اندازہ ہوجائے گا ہم صفائی کوکتنی اہمیت دیتے ہیں۔
دوسری طرف میرے دوستوں کا کہنا تھاکہ ان آڈیو ویڈیو لیکس سے لوگ سیاست سے دور ہوں گے اور اس کا نقصان سیاست اور سیاستدانوں کو ہوگا۔ یقینا سب دوست درست کہہ رہے ہیں لیکن ایک اور پہلو بھی دیکھ لیں۔ یہی سیاستدان چاہتے ہیں کہ ایک عام بندہ سیاست سے بیزار رہے اور جتنی ووٹنگ کی شرح کم ہوگی‘ الیکشن کو manage کرنا اتنا آسان ہوگا۔ لوگ الیکشن پراسیس سے دور رہیں توبہتر ہے۔ خان صاحب کی وجہ سے بڑی تعداد میں نوجوان نسل سیاست میں داخل ہوئی اور بڑی ایکٹو ہوئی‘ لیکن وہی نسل اور اربن کلاس حکومت کی مسلسل ناکامی کی وجہ سے سیاست اور سیاستدانوں سے لا تعلقی ڈویلپ کرچکی ہیں۔ وہ نسل‘ وہ کلاس عمران خان کو آخری امید سمجھتی تھی‘ اس لیے سیاست میں دلچسپی لینے لگے ۔ لیکن اب تین سال بعد پتا چلا ہے کچھ فرق نہیں پڑنے والا کہ وہی لوگ جو اس ملک کی بربادی میں حصہ دار تھے پارٹیاں بدل کر خان صاحب کے ساتھ مل گئے تھے۔ یوں نوجوان نسل بھی مایوس ہوئی اور وہ کلاس بھی جس نے خان صاحب کی وجہ سے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا تھا۔
میرا اپنا خیال ہے‘ پاکستانی قوم نے تین مواقع پر پاکستانی لیڈران پراعتماد کیا۔ پہلے 1940 میں قائداعظم پر قرارداد پاکستان کے وقت اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ قائد کے بعد قوم کو پھر تیس سال لگے اور بھٹو پر اعتماد کیاکہ وہ انقلاب لا سکتے ہیں۔ بھٹو کا انقلاب بھی ناکام ہوا کہ جن طاقتوں کے خلاف کھڑے تھے انہی کو ساتھ ملا لیا۔ لوگ پھر انقلاب سے مایوس ہوئے۔ عام لوگ سیاست سے دور ہوگئے اور پھر تیس سال بعد عوام نے عمران خان کو سیریس لیا کہ وہ انقلاب لائیں گے۔ اس دوران عوام کو کسی اور لیڈر سے امید نہ رہی‘ لیکن خان صاحب کی ناکامی کے بعد یہ قوم اگلے تیس چالیس سال تک کسی اور سیاستدان پر اعتبار نہیں کرے گی اور یہی شاید ہمارے حکمران‘ سیاستدان اور 'سٹیٹس کو‘ کے طاقتور لوگ چاہتے ہیں کہ عام لوگ سیاست کو صرف ووٹ کی حد تک محدود رکھیں نہ کہ وہ بھٹو صاحب یا عمران خان کی طرح پاپولر قیادت کا روپ دھار کر ان کیلئے خطرہ بن جائیں۔ میرے خیال میں بھٹو اور عمران خان اس لیے ناکام ہوئے کہ جن طاقتوں کے خلاف ابھرے اپنی حکمرانی کو بچانے کیلئے انہی کے سامنے جھک گئے اور یوں انقلاب ٹھس ہو گیا۔ اس لیے اگر آڈیو وڈیو لیکس سے نوجوان نسل یا اربن کلاس متنفر ہوگی اور سیاست سے دور ہوگی تو یہ ان قوتوں کی جیت ہوگی جو چاہتی ہیں کہ عوام صرف انہیں ووٹ ڈال کر حکمرانی دے کر بھول جائیں نہ کہ جمہوریت کے نام پر انہیں چیلنج کرنا شروع کر دیں۔
پس سیاست سے بددلی کا فائدہ انہیں ہوگا جو لیکس لیکس کھیل رہے ہیں۔ میجر عامر سناتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ایک طاقتور دوست کو کہا تھا کہ ویسے تو تم اچھے انسان ہو لیکن تمہارا میڈیا اور معاشرے میں امیج اچھا نہیں‘ تم اپنا امیج اچھا کیوں نہیں کرتے؟ وہ دوست بولا: آپ کی مہربانی‘ میرا امیج ٹھیک نہ کریں۔ میرے اس برے امیج کی وجہ سے سب ڈرتے ہیں اور میرا کام نہیں رکتا‘ امیج اچھا ہوگیا تو ہر بندہ گھر پر حملہ کرنے پہنچ جائے گا۔
شاید یہی اپروچ ان سیاستدانوں کی ہے کہ ان کا سخت امیج ہی ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ انہیں بار بار حکمران بناتا ہے۔ شریف بندے کو کون ووٹ دیتا ہے؟ یہ قوم لٹیروں، چوروں، منی لانڈررز اور لیکس کی فین اور شوقین ہے۔ ان حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بھی یہی امیج سوٹ کرتا ہے۔
غور فرمایا آپ نے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved