تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     28-11-2021

الیکٹرانک ووٹنگ مشین… (2)

ہم اور ہماری سینئر نسلیں تو خیر وہ ہیں جنہوں نے بہت سے انتخابات کی گہما گہمی دیکھی ہے لیکن اب نوجوان نسل کے سامنے بھی قومی اور صوبائی الیکشنز کا تجربہ 2018 کے آخری الیکشن کی صورت میں موجود ہے۔ آپ ذرا ان کا تصور کریں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا معاملہ تو ووٹ ڈالنے اور اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کے سب معاملات میں کوئی فرق پڑنے والا نہیں یعنی پری پول رگنگ بھی اسی طرح ہو گی‘ انتخابی دفتر، نعرے، جلسے جلوس، کارنر میٹنگز، جوڑ توڑ، دباؤ اور پس پردہ سرگرمیاں سب اسی طرح۔ کوئی فرق نہ طریقۂ کار میں پڑنے والا ہے نہ اخراجات میں۔ بس یہ ہوگا کہ امیدوار اپنے اپنے ووٹرز کو ای وی ایم کا طریقہ بتاتے اور سکھاتے نظر آئیں گے۔ پری پول رگنگ کے ہتھکنڈے، مقتدر طاقتوں کی ہدایات اور دباؤ‘ جو ہر انتخابات میں سنے جاتے ہیں‘ اسی طرح سنائی دیں گے۔
ووٹنگ کے دن کا تصور کیجیے۔ آپ ووٹ ڈالنے کیلئے گھر سے نکلے۔ پولنگ سٹیشن سے کچھ فاصلوں پر پولنگ کیمپس لگے ہوئے ہیں۔ آپ کے پاس اپنا ووٹ نمبر ہے اور اس حلقے سے امیدواروں کی فہرست اور انتخابی نشان۔ آپ اپنے پولنگ بوتھ میں پہنچے۔ اپنے نام اور ووٹرز لسٹ میں اپنی موجودگی کی تصدیق کروائی۔ پریزائیڈنگ افسر نے شناختی کارڈ اورمتعلقہ معلومات کی تصدیق اور انگوٹھے پر سیاہی کے نشان کے بعد بٹن دبا کر ای وی ایم کا وہ حصہ فعال (Activate) کیا جو اس کے سامنے ہے۔ ہر ای وی ایم دو حصوں پر مشتمل ہوگی۔ ایک حصہ بیس یونٹ کہلاتا ہے جو پریزائڈنگ افسر کے اختیار میں اور اس کے پاس ہوگا۔ مشین فعال کرنے کے بعد اب وہ آپ کو ووٹنگ مشین کی طرف بھیج دیتا ہے جو ای وی ایم کا دوسرا حصہ ہے۔ یہ حصہ پردے یا آڑ میں ہے اور یہاں آپ کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں۔ آپ کے سامنے مشین کے اس یونٹ پر امیدواروں کے نام، انتخابی نشان اور کلک کرنے کیلئے غالباً سرخ تیر والا بٹن موجود ہے۔ آپ نے اپنے پسندیدہ امیدوار کے نشان کے سامنے کلک کیا۔ مشین نے بیپ کی آواز سے آپ کو مطلع کیا کہ ووٹ شامل ہو چکا ہے۔ اسی کے ساتھ مشین سے آپ کا ووٹ خود کار طریقے سے پرنٹ ہوکر نیچے رکھے ہوئے بکس میں گرجائے گا۔ یہ پرنٹ اس لیے کہ اگر کسی مرحلے پر ووٹ کی عملی گنتی ضروری ہو تو وہ کی جاسکے۔ ایک بار ووٹ ڈالنے کے بعد اسے منسوخ بھی نہیں کیا جاسکے گا اور تبدیلی بھی ممکن نہیں ہوگی۔ آپ ووٹ ڈال کر اب فارغ ہیں اور اپنے گھر جاسکتے ہیں۔
شام کو ووٹنگ ختم ہونے کے بعد پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں پریزائڈنگ افسر بٹن دباکر تمام ڈالے ہوئے ووٹوں کی گنتیاں معلوم کرے گا۔ جو اسی وقت معلوم ہوجائیں گی‘ اور اس مشین کی حد تک ہر امیدوار کے ووٹ گنے جائیں گے جیسا کہ کاغذی ووٹ میں کیا جاتا ہے، ایک پولنگ بوتھ کے بعد پورے پولنگ اسٹیشن کی گنتی ہوگی اور پھر تمام پولنگ سٹیشنز کی گنتی معلوم ہونے پر رزلٹ مرتب ہوگا۔ سو ای وی ایم کی صورت میں یہ طریقۂ کار ہوگا۔ ای وی ایم نہ انٹرنیٹ سے منسلک ہے۔ نہ اس کا ڈیٹا یوایس بی لگا کر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ نہ اس میں کوئی سوفٹ ویئر ہے۔ یہ کم وبیش ایک طرح کے جدید اور بڑے کیلکولیٹر کی طرح سمجھ لیں جو بیرونی دنیا سے یا کسی بیرونی سوفٹ ویئر سے منسلک نہیں ہوتا اور نہ اس سے ڈیٹا نکالا جاسکتا ہے۔
الیکٹرانک ووٹنگ سے جو فوائد بظاہر حاصل کیے جاسکتے ہیں ان میں سب سے بڑا تو ووٹوں کی بہت جلد گنتی اور کسی تنازع کی صورت میں اس کی آسان تصدیق ہے۔ جن حلقوں کے ووٹ گنتی ہونے میں چوبیس گھنٹے لگ جاتے ہیں وہ اب چند گھنٹوں کے اندر مکمل نتائج دے سکتے ہیں۔ بیلٹ پیپر کی شکل میں جس بڑے پیمانے پر کاغذ کی خریداری، چھپائی، کاپیاں بنوانا، ان کی حفاظت اور ان کی ترسیل کے مسائل ہیں وہ سرے سے ختم ہوجاتے ہیں۔ ووٹ گننے میں وقت خرچ ہونے کے علاوہ جو افرادی قوت اور محنت خرچ ہوتی ہے وہ ختم ہوجائے گی۔ نیز ہر انتخابات میں یہ جو سنا جاتا ہے کہ فلاں حلقے میں یا فلاں پولنگ سٹیشن پر بیلٹ بکس وقت شروع ہونے کے بھی بہت دیر بعد پہنچے، لہٰذا پولنگ شروع ہی نہیں ہو سکی، وہ مسئلہ حل ہونا چاہیے۔ اسی طرح جب کبھی کسی حلقے میں نتائج چیلنج کیے گئے اور مہینوں کے بعد دوبارہ بیلٹ بکس کھولے گئے تو ووٹوں کی ایسی ناگفتہ حالت سامنے آئی کہ بہت سے ووٹوں کی گنتی بھی ممکن نہیں تھی۔ چار حلقوں میں نتائج چیلنج کرنے کے بعد سامنے آنے والی صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ ایک قابل ذکر معاملہ بیلٹ بکس میں ہر بار یہ سامنے آیا کہ ووٹوں کی دوبارہ گنتیوں میں کسی امیدوار کے ووٹ اچھے خاصے کم ہوگئے یا بڑھ گئے۔ مجھے کوئی ایک مثال بھی یاد نہیں جب دوبارہ گنتی میں ووٹوں کی وہی تعداد نکلی ہو جو پہلی بار نکلی تھی۔ یہ بات خود بتاتی ہے کہ کاغذی ووٹ کے اس نظام میں کتنے عملی نقائص ہیں جن پر کبھی اطمینان نہیں ہوسکتا۔ ای وی ایم کے ذریعے ان کا کافی حد تک سدباب ہونا چاہیے۔
ایک بات سمجھ نہیں آرہی۔ اپوزیشن کی طرف سے بڑی شدومد سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ ای وی ایم مرضی کے نتائج لینے کی ایک کوشش ہے۔ اس پر بنیادی سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی نگرانی میں انتخابات تو نگران حکومت کی ذمے داری ہوگی۔ 2023 کے انتخاب سے پہلے تحریک انصاف حکومت تو اپنے گھروں کو جاچکی ہوگی۔ نگران وزیر اعظم بھی اپوزیشن کی منظوری سے طے ہوگا‘ تو پھر یہ کہا جائے کہ آئندہ نگران حکومت جس کا ابھی دور دور نشان بھی نہیں ہے، عمران خان سے مل چکی ہے یا مل جائے گی یا پھر یہ کہ وہ قوتیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے نتائج بدل کر عمران خان کے حق میں کیے تھے، دوبارہ انہی کو برسر اقتدار لانے کے لیے نگران حکومت کو ساتھ ملا لیں گی اور من مرضی کریں گی۔ ظاہر ہے کہ شبہات کتنے ہی بڑے ہوں ان کے ثبوت کیلئے ٹھوس دلیلیں چاہئیں۔ مثال کے طور پر آٹھ لاکھ مشینیں، ان کے بنانے والے، ان پر کام کرنے والے، ان کے تکنیکی ماہرین۔ سب اسی دنیا میں موجود ہیں۔ کوئی عملی ٹھوس دلیل بہرحال درکار ہے کہ فلاں طریقے سے یہ کام کیا جا سکتا ہے یا ہوگا۔ میرے علم کے مطابق ابھی تک ایسی کوئی دلیل سامنے نہیں آئی۔
اب آئیے ان اعتراضات کی طرف جو ای وی ایم پر کیے جارہے ہیں اور جن میں سب سے اہم الیکشن کمیشن کے اعتراضات ہیں۔ لیکن ان سے بھی پہلے ایک عام ووٹر کے نقطۂ نظر سے اس تمام عمل پر نظر ڈالیے۔ الیکشن کمیشن نے حال ہی میں آٹھ لاکھ ای وی ایم خریدنے کا عندیہ دیا ہے۔ مشینوں کی خرابی کوئی انہونی چیز نہیں۔ اعلیٰ سے اعلیٰ مشین بھی بعض اوقات وقت پر جواب دے جاتی ہے۔ فرض کیجیے ایک مشین میں دس ہزار ووٹ کاسٹ ہوئے اور اس کے بعد اس میں کوئی تکنیکی خرابی پیدا ہوگئی۔ کیا اس کی متبادل مشین موقع پر موجود ہوگی، یا کہیں دور سے لائی جائے گی؟ کیا ہر سٹیشن پر ایک مشین مکینک موجود ہوگا؟ چلیے متبادل مشین آگئی، باقی ووٹ اس پر ڈالے گئے تو خراب مشین کی گنتیوں کا کیا ہوگا؟ وہ کیسے کی جائیں گی؟ اگر آٹھ لاکھ مشینوں میں 2 فیصد کے ساتھ بھی وقت پر یہ مسئلہ ہوجاتا ہے تو سولہ ہزار مشینوں پر سوالات اٹھ کھڑے ہوں گے۔ کیا اس کا کوئی حل سوچا گیا ہے؟ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved